ستیہ جیت رے کے سینما کو سمجھنے کے لئے اطالوی نوحقیقت پسند تحریک اور فرنچ موجِ نو کے بانیوں کے نظریات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے ـ ستیہ جیت رے کا سینما فلم اور ناظر کے درمیان فاصلے کم کرنے کے نظریے پر مبنی ہے ـ وہ حقیقت کی نقل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاں کہ ناظر اپنے گرد و پیش کو سمجھنے اور معروضی حالات کی گہرائی ناپ سکے ـ
ستیہ جیت رے غربت کو گلیمرائز نہیں کرتے جیسا کہ بعض افراد ان پر تہمت دھرتے ہیں ـ وہ تو غربت وغیرہ دکھانے کی کوشش تک نہیں کرتے ـ ان کے لئے اہم یہ ہے کہ کردار پر معروض کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور وہ ان کے ردعمل میں کس قسم کا نفسیاتی، سماجی اور سیاسی ردعمل دکھا رہا ہے ـ مثلاً بنگالی فلم “Pratiwandi” کی مثال لیتے ہیں ـ
اس فلم میں دو بھائی ہیں ـ چھوٹا بھائی سماجی ناانصافی کے خلاف نکسل بن جاتا ہے ـ وہ مسلح ماؤ ازم کو ہی بہتر راستہ سمجھتا ہے ـ بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کی بہادری اور اس کے سیاسی راستے کو درست سمجھنے کے باوجود اس کے راستے کو اختیار نہیں کرتا ـ ستیہ جیت رے کی پوری توجہ بڑے بھائی پر رہتی ہے کہ آخر وہ کیا حالات ہیں جن کی وجہ سے بڑا بھائی چھوٹے سے متفق ہونے کے باوجود نفسیاتی خلفشار کا شکار ہے، بڑے بھائی کی کشمکش ہی ستیہ جیت رے کے نزدیک حقیقت سے قریب تر ہے جس کا تجزیہ ضروری ہے ـ
غربت کو گلیمرائز کرنے والی تہمت اگر درست ہوتی تو ستیہ جیت رے کی پوری توجہ غربت، معاشی نا برابری اور سماجی انصاف کی عدم فراہمی پر ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نظر نہیں آتا ـ یہ سب تو پہلے سے موجود ہے ـ وہ ان حقائق کو سینما کا حصہ بنا کر کرداروں کے ردعمل کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کرتے ہیں ـ
ہندی فلم “سادگتی” کو دیکھ لیجئے ـ دکھی ایک نیچ ذات کا انسان ہے جو اونچی ذات والوں کے لئے اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کرتا ہے ـ بدترین حالاتِ کار کے باعث وہ اونچی ذات والوں کے محلے میں مر جاتا ہے ـ ستیہ جیت رے کی توجہ دکھی پر نہیں رہتی اور نہ ہی وہ نیچی ذات کے مسائل و مشکلات کو گلیمرائز کرتے ہیں ـ اس کے برعکس اس موت کے بعد ان کی پوری توجہ اونچی ذات والوں کے ردعمل اور ان کے سماجی و سیاسی نظریات پر رہتی ہے ـ وہ یہ دکھاتے ہیں کہ سماجی نظام کے مختلف دائروں میں قید افراد کا سماجی معاملات پر ردعمل کیا ہوتا ہے ـ
ستیہ جیت رے کی عظمت یہی ہے کہ وہ معروض سے جڑے انسانوں کی اندرونی کیفیات اور بیرونی ردعمل کو موضوع بناتے ہیں ـ یہ ایسا ہے کہ ایک جگہ حادثہ ہوا ـ حادثہ ہوتے تو سب نے دیکھا ـ اس کو دکھانا کمال نہیں ہے ـ حادثے کے بعد مختلف طبقات کے حامل افراد کا سماجی رویہ کیا ہوتا ہے اور اس رویے کے پسِ پشت عوامل کیا ہیں ـ ستیہ جیت رے اسی کو اپنا موضوع بنا کر کیمرے سے اس کی ترسیل کرتے ہیں ـ
ستیہ جیت رے کے انداز کو نہ صرف ہندوستان بلکہ یورپ کے بھی متعدد ہدایت کاروں نے کاپی کیا ـ بھارت میں شیام بینیگل، گووند نہلانی یا دورِ حاضر کے پراثر ہدایت کار و پروڈیوسر پرکاش جھا انہی کے خوشہ چین ہیں ـ پاپولر ہندی سینما کے کلاسیک ہدایت کاروں میں بمل رائے کا نام اہم ہے جنہوں نے ستیہ جیت رے کے سینما کو پاپولر ہندی سینما کا حصہ بنایا ـ ان کے بعد گلزار اور رشی کیش مکھرجی نے اس انداز کو آگے بڑھایا ـ
ستیہ جیت رے کے سینما کو گہرائی سے سمجھنا یقیناً عام فلم بین کا درد سر نہیں ہے ـ ہونا بھی نہیں چاہیے ـ مگر جو سینما پر لکھتے ہیں، جو اس فن کو سمجھنے کا دعوی کرتے ہیں کم از کم انہیں ہوائی فائرنگ نہیں کرنی چاہیے ـ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں