سابق وزیر اعظم عمران خان، بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا پر مشتمل عدت نکاح کیس پاکستان کی عدلیہ میں سنے جانے والے پیچیدہ قانونی اور سماجی معاملات کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ مقدمہ عدت کے دوران شادی کی قانونی حیثیت پر مرکوز ہے، عمران خان اس کیس میں تاخیر، عدم اعتماد اور عدالتی ناانصافی کے الزامات میں پھنس گیا ہے۔ آج کا یہ کالم اس مقدمے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت، عدلیہ کو درپیش چیلنجز اور پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے وسیع تر اثرات کا تنقیدی جائزہ پر مشتمل ہے۔
عدت نکاح کیس ان الزامات سے سامنے آیا ہے، جو عمران خان، بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا پر لگائے گئے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان، اور ان کی موجودہ بیوی بشریٰ بی بی نے اپنی عدت کے دوران شادی کی تھی، جو کہ اسلامی قانون کے مطابق عورت کے لیے اس کے شوہر کی موت یا طلاق کے بعد عمل کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
کیس نے حال ہی میں ایک اہم موڑ لیا ہے جب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ابتدائی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنانے سے گریز کیا۔ سرکاری پراسیکیوٹر رضوان عباسی کی غیر حاضری کی وجہ سے کارروائی میں تاخیر ہوئی۔ خاور مانیکا اور ان کی قانونی ٹیم کی طرف سے بار بار عدم اعتماد کے اظہار کے بعد جج شاہ رخ ارجمند کا کیس کو دوسری عدالت میں منتقل کرنے کا فیصلہ سیاسی اور سماجی دباؤ کے درمیان غیر جانبداری برقرار رکھنے میں ججوں کو درپیش مشکلات کی نشاندہی کرتا ہے۔
خاور مانیکا کا عدالتی عمل پر عدم اعتماد، ان کے اعتراضات کے باوجود عدالتی کارروائی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مقدمے کی منتقلی پر ان کا اصرار عدالتی فیصلوں کے بارے میں مسلسل شکوک و شبہات کو اجاگر کرتا ہے جنہیں مخالفین جانبدار یا بیرونی عوامل سے متاثر قرار دے رہے ہیں۔
کمرہ عدالت کے اندر کی حرکیات عدالتی اعتبار اور عدلیہ کی سمجھی جانے والی آزادی کے وسیع تر مسئلے کو ظاہر کرتی ہے۔خاور مانیکا کی بار بار عدم اعتماد کی تحریکیں اور جج کی جانب سے مقدمے کو منتقل کرنے کی حتمی درخواست عدالتی عمل میں اعتماد کے پریشان کن معاملات کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ معاملہ پاکستانی قانونی نظام کے اندر ایک بڑی خرابی کی علامت ہے، جہاں ہائی پروفائل کیسز اکثر سیاسی چالبازیوں اور عوامی شکوک و شبہات میں الجھ جاتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کردار اور ٹرائل کے دوران ان کا طرز عمل بھی جانچ پڑتال کے لائق ہے۔ عدالتی سیشن کے دوران رضوان عباسی کی غیر حاضری اور خاور مانیکا کے مبینہ طور پر خلل ڈالنے والے رویے کی رپورٹس ان چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہیں جن کا سامنا ججوں کو کارروائی کو مؤثر طریقے سے کرنے میں درپیش ہے۔ قانونی عمل کے وقار اور کارکردگی کو برقرار رکھنے کے لیے تمام فریقین کی بروقت اور باعزت شرکت کی ضرورت ہے۔
انصاف اور معاشرے کے لیے مضمرات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عدت نکاح کا معاملہ قانونی تنازعہ سے بڑھ کر ایک شرعی معاملہ ہے۔ یہ پاکستان کو درپیش سماجی اور ادارہ جاتی چیلنجز کا عکاس ہے۔ اپنی آزادی پر زور دینے اور بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ کی جدوجہد سیاسی دباؤ اور عوامی توقعات سے بڑھ گئی ہے۔ یہ مقدمہ ایک ایسے معاشرے میں مذہبی مقدمات اور جدید قانونی فریم ورک کے درمیان نازک توازن کو بھی اجاگر کرتا ہے جہاں دونوں کا اثر نمایاں ہے۔
بیرونی اثرات کو چھوڑ کر عوام کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے ایک منصفانہ اور شفاف عدالتی عمل بہت ضروری ہے۔ اس کیس میں متواتر التوا اور فیصلہ کن کارروائی کی کمی نے نہ صرف انصاف میں تاخیر کی ہے بلکہ عدلیہ کی خود مختاری سے کام کرنے کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔

عدت نکاح کیس ایک نازک مقدمے کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ جس کے ذریعے پاکستان کے قانونی نظام کی پیچیدگیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ، عدالتی آزادی، اور سماجی توقعات کا باہمی تعامل انصاف کی فراہمی کے لیے ایک مشکل ماحول پیدا کرتا ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا اور طریقہ کار کی ناکامیوں کو دور کرنا قانونی نظام پر اعتماد بحال کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کی عدلیہ ان چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے، یہ مقدمہ ایک منصفانہ اور غیر جانبدار عدلیہ کے لیے جاری جدوجہد کی ایک واضح یاد دہانی بنا ہوا ہے جو بغیر کسی خوف اور حمایت کے قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں