پیشہ ورانہ اخلاقیات/ڈاکٹر اظہر وحید

انسان اس دنیا کا باشندہ معلوم نہیں ہوتا۔ لگتا ہے جیسے یہ اس نظام فطرت کا حصہ نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ فطرت کے قوانین وضع ہونے سے پہلے بھی کہیں موجود تھا۔ اسے اس نظامِ کائنات میں نازل کیا گیا ہے، اسے یہاں کچھ دیر کے لیے رکھا گیا ہے، مہمان بنا کر یا قیدی بنا کر۔
انسان کے علاوہ ہر جاندار اس نظام ِ فطرت کا ایک پراڈکٹ ہے، وہ فطری قوانین پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، بلکہ وہ فطرت کے تابع رہتا ہے، اس کے لیے یہ فطرت ایک گہوارے کے طور پر کام کرتی ہے، اسے شب و روز کے جھولنے میں جھولا جھلاتی ہے، اس کی نگہداشت و پرداخت کرتی ہے اور پھر اسے وقت مقرر پر موت کی پُرسکون وادی میں منتقل کر دیتی ہے۔
اس کرہِ ارض پر انسان انسان کا محتاج ہے۔ اسے روٹی کپڑا اور مکان ایسی بنیادی ضروریات لینے کے لیے بھی انسانوں کا دستِ نگر ہونا پڑتا ہے۔ اگر انسان انسان کے لیے گندم نہ اگائے، روٹی پکانے کے لیے تندور نہ دہکائے تو اس کے پیٹ کی آگ بجھ نہیں سکتی۔ اگر انسان انسان کے لیے کپاس نہ بوئے، کپڑا نہ بنے، کپڑا بُن کر اس کا تن ڈھانپنے کا سامان نہ کرے تو اس کی وحشیانہ خوخیاہٹ سماعتوں کو پھاڑ دے، اسی طرح اگر حضرت انسان کے لیے اگر کوئی انسان چھت فراہم نہ کرے، تو آسمان کی نیلی چھت کے نیچے اس کے لیے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔ الغرض اگر انسان، انسان کی مہیا کی ہوئی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہو جائے تو چند دن سے زیادہ شاید ہی جی پائے۔ انسان کو رہنے کے لیے چھت نہ ملے تو وہ موسم کی شدت سے مر جائے گا، اگر انسان کو انسان کے مہیا کیے ہوئے سامانِ خور و نوش میسر نہ ہوں تو درختوں کے پتے اسے زندہ نہ رکھ سکیں گے۔
انسان انسان کے ہاتھوں مجبور ہے۔ انسان انسان کے ہاتھوں دکھی ہے اور انسان ہی انسان کے دکھ کا درمان ہے۔ انسان ہی انسان کا قاتل ہے اور انسان ہی انسان کے لیے مسیحا ہے۔ اپنے بھائی بندوں کا دستِ نگر ہونا ایک عجب راز ہے۔ عبادات میں خدمتِ خلق کو یوں ہی بنیادی حیثیت حاصل نہیں۔ انسان انسان کا سائل ہے اور انسان ہی انسان کا مسؤل۔ انسانی بچے کو جسمانی قوت و بلوغت تک پہنچنے میں اٹھارہ برس لگتے ہیں، جو اس کی زندگی کا چوتھائی حصہ ہے، اسے معاشی اور پھر معاشرتی بلوغت تک پہنچنے میں کم و بیش پچیس سے تیس برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے، جو اس کی اوسط زندگی کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ عجب نہیں کہ انسان کو اپنے والدین پر احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انسان کے علاوہ کوئی بھی اور ذی مخلوق اپنے معاشی اور حیاتیاتی خود مختاری کے لیے اتنی دیر تلک اپنے ہم جنسوں کی محتاج نہیں رہتی۔
انسان کی ان ہی مجبوریوں نے انسانی معاشرے میں مختلف پیشوں کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ پیشہ ورانہ سرگرمیاں، ملازمت کی صورت میں ہوں یا تجارت کی صورت میں، بنیادی طور پر ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایک تاجر
بڑی مارکیٹ سے اشیائے خور و نوش چھوٹی مارکیٹ تک لے آتا ہے، تاکہ میں اپنے ناشتے کا سامان لینے کے لیے شہر کی بڑی مارکیٹ تک روزانہ سفر کی کلفت سے بچ سکوں۔ ایک سرکاری دفتر میں ایک کلرک اس بات کی تنخواہ لیتا ہے کہ سائل کی درخواست ضروری قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے جلد اَز جلد مسؤل کی میز پر پہنچ جائے۔ اسی طرح ایک معالج ایک بیمار شخص کی بیماری کی تشخیص اور پھر دوا اور شفا کے درمیان معاون بنتا ہے۔ علاج معالجے سے متعلق بہت سے شعبہ جات اب تشکیل پا چکے ہیں، جن کا بنیادی مقصد عمل مسیحائی میں یک گونہ معاونت فراہم کرنا ہے۔ اگر ایک تاجر میری مجبوری کا فایدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ضرورت سے زیادہ منافع وصول کرتا ہے تو وہ اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات سے روگردانی کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ اگر ایک کلرک میری فائل دبا کر میرا وقت برباد کرتا ہے تو وہ اپنے پیشہ ورانہ اختیار کو ایک لیور کے طور پر استعمال کرتے ہوئے میرا استحصال کرتا ہے۔ مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے تمام شعبہ جات اگر مریض کی بیماری کو ایک کوموڈیٹی کے طور پر ٹریٹ کرتے ہیں تو وہ گویا نوعِ انسانی کے بدترین استحصال کے مرتکب ہوتے ہیں۔
بہرطور ایک انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھ مجبوریوں کا یہ جکڑبند ہماری پیشہ ورانہ تقسیم کا باعث ہے۔ زندگی کے بازار میں جہاں ہم مختلف مجبوریاں لے کر اترتے ہیں وہاں دوسرے انسانوں کی مجبوریاں ختم کرنے کا دعویٰ بھی لے کر آتے ہیں۔ مثلاً ہر پیشہ وَر آدمی زندگی کے بازار میں یہ دعویٰ لے کر آتا ہے ”…… آپ ہمارے پاس آئیں، ہم آپ کی فلاں مجبوری کا علاج کریں گے، یا فلاں ضرورت پوری کریں گے“۔ یہیں سے پیشہ ورانہ اخلاقیات کی ضرورت اور اہمیت جنم لیتی ہے۔ یہ اخلاقیات دو قسم کی ہے۔ ایک کا تعلق رحمان کے ساتھ ہے اور دوسری قسم کا تعلق شیطان کے ساتھ۔ یہ دو الگ الگ طرزِ فکر ہیں جو ابتدائے آفرینش سے ایک دوسرے سے جدا ہیں، ایک دوسرے کے مخالف ہیں …… درست اور غلط کی طرح …… قابیل اور ہابیل کی مانند ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے ایک جگہ اخلاق کی تعریف یوں کی ہے: ”اخلاق ایک ایسا طرزِ فکر و عمل ہے جس پر چلتے ہوئے ایک انسان دوسرے انسانوں کے لیے پہلے مرحلے پر بے ضرور ہو جاتا ہے اور پھر منفعت بخش ہو جاتا ہے“۔ اسی تعریف کو اگر ہم پیشہ ورانہ اخلاقیات کے باب میں رائج کر لیں تو ہمیں اس کی روح تک رسائی مل جاتی ہے۔ یہ تعریف تمام پیشہ ورانہ اخلاقیات کا ایک آئین مرتب کرتی ہے۔ ہر شعبے کی پیشہ ورانہ اخلاقیات اپنی جزیات سمیت اسی تناظر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہم اپنے شعبہ ِ حیات میں دوسروں کے لیے فایدہ مند ثابت ہوتے ہیں، یا ضرر رساں؟ …… اس سوال کا جواب ہمیں بتا دے گا کہ ہم پیشہ ورارنہ اخلاقیات کے باب میں کہاں کھڑے ہیں۔
انسان کے پاس ہر صلاحیت ایک امانت ہے، اسے اس صلاحیت کو پوری دیانتداری کے ساتھ معاشرے کو واپس لوٹانا ہے۔ کوئی انسان اپنے گھر سے ڈاکٹر، انجینئر، معلم یا معمار بن کر نہیں نکلتا، بلکہ اسے اس کے شعبے میں کمال تک پہنچانے میں اس کے والدین، اس کے خاندان، ملک اور معاشرے کے بہت سے افراد کی صلاحیتوں اور قربانیوں کا دخل ہوتا ہے۔ احسان شناس انسان اپنے محسنوں کو یاد رکھتا ہے، ان کی خدمت کرتا ہے اور ان کے احسان کو بطریقِ احسن لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایک خود غرض اور احسان فراموش آدمی ہی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو فقط اپنے زورِ بازو کا نتیجہ سمجھتا ہے، اپنے پیشے اور اپنی کسی صلاحیت کی وجہ سے غرور اور کبر میں مبتلا ہوتا ہے، مخلوقِ خدا کی تضحیک اور تحقیر کا مرتکب ٹھہرتا ہے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے بجائے انہیں اپنا دستِ نگر بناتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جو زَر اندوزی اور ذخیرہ اندوزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس کے نزدیک پیشہ اور پیسہ ہم معنی ہو جاتے ہیں …… وہ پیسہ اکٹھا کرتا ہے اور اسے گن گن کر رکھتا ہے۔ وہ تقسیم کرنے کا گن نہیں رکھتا۔ وہ آسانیاں تقسیم نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مخلوقِ خدا کی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔ خلاصہِ کلام یہ کہ ہم اپنی منفرد پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے مخلوقِ خدا کی استمداد کرتے ہیں یا پھر استحصال …… ہماری اخلاقیات کے رحمانی یا شیطانی ہونے کا پول اس سے کھل جاتا ہے۔
پیشہ ورانہ اخلاقیات میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کرتے رہیں اور انہیں اَپ ٹو ڈیٹ رکھیں۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم وقت کی پابندی کریں۔ جب ہم اپنے ورک سٹیشن پر لیٹ پہنچتے ہیں تو ہماری وجہ سے بہت سے لوگوں کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔ ہمارا پیشہ لوگوں کے لیے رحمت اور ہمارے لیے ثواب ہونا چاہیے، نہ کہ مخلوق کے لیے زحمت اور اپنے لیے عذاب!
از روئے حدیث ایک دیانت دار تاجر بروزِ قیامت انبیاء و صدیقین کے ساتھ محشور ہو گا۔ سبحان اللہ! یہ سعادت ِ بلند اس لیے ہے کہ دیانت دار تاجر مخلوقِ خدا کے لیے آسانیوں کا باعث بنتا ہے، وہ اپنے تجارتی ہنر کو زر اندوزی اور استحصال کے لیے استعمال نہیں کرتا، بلکہ مخلوق کے لیے آسانیاں بانٹنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مشرقِ بعید میں اسلام کی خاموش تبلیغ مسلمان تاجروں کی دیانت داری اور عہد کی پاسداری نے کی۔ مالِ تجارت لے جانے والے ان تاجروں نے خوب تجارت کی …… دنیا اور آخرت کی خوب کمائی کی …… عباد الرحمان نے اپنے حُسنِ اخلاق نے عوام الناس کو اپنا ہم مشرب کر لیا۔ رحمان کے بندے اللہ کا رنگ اختیار کرتے ہیں اور اللہ کے رنگ سے بہتر کو ن سا رنگ ہو سکتا ہے۔ جس پر اُس کا رنگ چڑھ جاتا ہے، اسے دنیا کا کوئی رنگ نہیں لبھا سکتا۔ نشاطِ رنگ و بُو سے آزاد بندے ہی اپنے قول عمل اور کردار سے اخلاقی اقدار پر پہرہ دیتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply