فطرت ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر خاصہ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ یہ تقریبا” ہر اس شے کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ جو انسان یا کسی بھی جاندار کو اس خالق کائنات سے دنیا میں بنی بنائی مل جاے انگریزی میں اسے نیچر کہا جاتا ہے ۔دراصل فطرت کے اصل معنیٰ ساخت کے ہیں یعنی وہ بناوٹ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے ہر ایک جنس ،نوع اور فرد کو عطا فرمائی ہے اور وہ طبیعت ،صلاحتیں اور قوتیں اور عادات جو اس نے ہر ایک کی ساخت میں پیدائشی طور پر رکھ دی ہیں ۔جو انسان کے ساتھ ساتھ کائنات کی ہر مخلوق کی جدا جدا ہیں اگر آپ غور کریں تو دنیا کی ہر شے ایک خاص فطرت رکھتی ہے۔ آگ کی فطرت جلانا ہے ،برف کی فطرت ٹھنڈک ہے ،جنگل کے ہر جانور کی الگ الگ فطرت ہے۔ اسی لیے کہا جاتاہےاور ہم فطرت کے ساتھ اپنی اپنی طبیعت اور عادت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں یہ خیال رہے کہ فطرت مجبور اشیاء کی ہوتی ہے جو اسے بدلنے پر قادر نہ ہو ۔لہذا صاحب اختیار و ارادہ کی کوئی ایک بنیادی فطرت تو ہوتی ہے لیکن عادت اور طبیعت بدلتی رہتی ہے اور انسان کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ صاحب اختیار و ارادہ ہوتا ہے اور چاہے تو اپنے ارادے سے اپنی طبیعت اور عادت میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ دراصل فطرت ،عادت اور طبیعت تینوں الگ الگ چیزیں ہوتی ہیں اور فطرت بھی بھی دو طرح کی ہوتی ہے ایک جو جسمانی یا ظاہری فطرت ہوتی ہے اور دوسری فطرت کا نام روحانی فطرت جو باطنی یا اصلی فطرت ہوتی ہے۔ عام طور کہا جاتا ہے کہ “فطرت کبھی نہیں بدلتی “لیکن روحانی طور اس کا جواب مختلف ہے ان سب میں تبدیلی ممکن ہے حضورؐ کریم نے فرمایا “ہر بچہ فطرت (یعنی اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی ،نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں “۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے “اللہ کی بنائی ہوئی فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی “۔مولانا تقی عثمانی ؒ نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں یہ صلاحیت رکھ دی ہےکہ وہ اپنے خالق و مالک کو پہچانے اسکی توحید کاقائل ہو اور اس کے پیغمبروں کے لاےُ ہوے دین کی پیروی کرے اسی کو آیت میں فطرت سے تعبیر کیا گیا ہے ”
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ بنیادی فطرت نہیں بدل سکتی. جس کی فطرت میں خیر اور بھلائی کا مادہ ہے، وہ دوسروں تک بھی خیر اور بھلائی ہی پہنچائے گا اور جس کی فطرت میں شر اور بُرائی ہے، وہ اس پر قابو پا کر کسی کو فیض نہیں پہنچا سکتا۔ مثال کے طور پر سانپ اور بچھو کی فطرت ڈنک مارنا اور اپنا زہر منتقل کرنا ہے.۔آپ ان کے ساتھ جتنا مرضی اچھا برتاؤ کر لیں، وہ موقع ملنے پر آپ کو ڈنک مارنے سے باز نہیں آئیں گے۔ فطرت کے اسی نہ تبدیل ہونے کے حوالے سے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جب تم سُنو کہ احد پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو اسے سچ مان لو، لیکن جب تم یہ سنو کہ کسی آدمی کی فطرت بدل گئی ہے، تو اس کا اعتبار نہ کرو، اس لئے کہ انسان اسی چیز کی طرف جاتا ہے، جس پر وہ پیدا گیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) یعنی انسان جس جبلت اور خلقت پر پیدا ہوتا ہے، اسی پر ہمیشہ قائم رہتا ہے اور اس کا حقیقی میلان اسی طرف قائم رہتا ہے۔ مثلاً جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے عقل مند و دانا پیدا کیا اور اس کی سرشت و فطرت میں عقل و دانش کا مادہ ودیعت فرما دیا، اور اس کی تقدیر میں فہم و فراست کے جوہر رکھ دیئے تو وہ کبھی بے وقوف اور احمق نہیں ہو سکتا۔البتہ ایسے افراد جو اپنی ذاتی کوشش اور محنت سے یا اصحاب عقل و دانش کی صحبت اختیار کر کے ان اوصاف کے حامل ہو جاتے ہیں، وہ اس میں شامل نہیں ہیں. اس لئے کہ یہاں بحث فطرت اور جبلت کی ہے کہ انسان کو جس خصلت اور فطرت پر پیدا کر دیا گیا، وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اس میں تغیر و تبدل ممکن ہے۔ر ہا اپنی ذاتی کوشش یا اہل عقل و فہم کی صحبت سے اعلیٰ اوصاف کا حامل ہونا، تو ایسا محض چند مخصوص لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کی تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بدلاؤ لکھ رکھا ہوتا ہے، مکمل فطرت ان کی بھی نہیں بدلتی. کیونکہ انسان ظاہر کو جتنا مرضی بدل لے، عادت اور طبیعت تو بدلتی ہے مگر فطرت نہیں بدل سکتا ۔ طبیعت ہمارے جسم کو چلاتی ہے اور فطرت ہماری روح کو چلاتی ہے ۔اچھے انسان کی اچھائی ہر طرح کے حالات میں قائم و دائم رہتی ہے اور برے انسان کی برائی ظاہر ہو کر رہتی ہے، جیسے خوشبو کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے، ویسے ہی اچھا انسان اپنی فطرت کے مطابق ہر حال میں اچھا ہی ہوتا ہے اور برا انسان، اچھا بننے کے جتنے ناٹک کرے، اس کی بری فطرت، اُس سے کچھ برا کرا کر اسے ظاہر کر دیتی ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے “دنیا میں دو ہی طرح کے لوگ ہوتےہیں ایک ظالم اور ایک مظلوم اللہ کا شکر کرو اس نے تمہیں ظالموں میں سے نہیں بنایا ” ظلم اور رحم دونوں الگ الگ خاصیتیں ہیں جدید دور میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ فطرت سے مراد آپ کے” جینز ” کی تعمیر ہے اور آپ اس کے خلاف نہیں جا سکتے۔اور پنجابی صوفی شاعر حضرت سلطان باہو رح کا اس حوالے سے مشہور شعر ہے، جس میں بظاہر انہوں نے جانوروں کا ذکر کر کے فطرت کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا ہے ۔کہ
سپاں دے پتر متر نہ تھیندے بھانویں چلیاں ددھ پیائیے ھو
کانواں دے بچے ہنس نہ تھیندے بھانویں موتی چوگ چگائیے ھو
(یعنی سانپ کی اولاد کسی کی دوست نہیں ہو سکتی، چاہے آپ اس کی کتنی خدمت کر لیں، اپنے ہاتھوں سے دودوھ ہی کیوں نہ پلائیں، اسی طرح کوے کا بچہ، اپنی خصلت میں کوے کا بچہ ہی رہے گا، وہ ہنس کا بچہ نہیں بن سکتا، چاہے اسے ہنس کی خوراک ہی کیوں نہ کھلائی جائے )
حضرت واصف علی واصف ؒ اپنی کتاب حرف حرف حقیقت میں فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک گدھ اور ایک شاہین بلند پرواز ہو گئے۔بلندی پر ہوا میں تیرنے لگ گئے۔وہ دونوں ایک جیسےہی نظر آ رہے تھے۔ اپنی بلندیوں پر مست، زمین سے بے نیاز،آسمان سے بے خبر، بس مصروفِ پرواز۔ دیکھنے والے بڑے حیران ہوےُکہ یہ دونوں ہم فطرت نہیں ہیں، ہم پرواز کیسے ہو گئے؟ شاہین نے گدھ سے کہا “ دیکھو اس دنیا میں ذوقِ پرواز کے علاوہ اور کوئی بات قابلِ غور نہیں۔” گدھ نے بھی تکلفاً کہہ دیا” ہاں مجھے بھی پروا ز بہت عزیز ہے، میرے پَر بھی مجھے بلند پروازی کے لیے ملے۔ لیکن کچھ ہی لمحوں بعد گدھ نے نیچے دیکھا۔ اُسے دور سے ایک مرا ہوا گھوڑا نظر آیا۔ اس نے شاہین سے کہا “ جہنم میں گئی تمہاری بلند پروازی اور بلند نگاہی، مجھے میری منزل پکار رہی ہے۔ اتنا کہہ کر گدھ نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور اپنی منزلِ مُردار پر آ گرا۔ فطرت الگ الگ تھی، منزل الگ الگ رہی۔ہم سفر آدمی اگر ہم فطرت نہ ہو تو ساتھ کبھی منزل تک نہیں پہنچتا۔ انسانوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ فطرت اپنا اظہار کرتی رہتی ہےجو بسا اوقات پورے خاندان اور نسلوں میں سریت کر جاتی ہیں ۔ جو کمینہ ہے وہ کمینہ ہی ہےخواہ وہ کسی مقام و مرتبہ میں ہو۔اسی لیے کہتے ہیں کہ واسطہ پڑے تو نسلوں کا پتہ چلتا ہے باتوں سے تو ہر شخص خاندانی لگتا ہے میاں محمد بخش صاحب ؒ کا ایک مشہور شعر ہے کہ
نیچاں دی اشنائی کولوں کسے نئیں پھل پایا
ککر تے انگور چڑھایا ، ہر گچھا زخمایا

بے شک اب ہم اس دنیا میں آچکے ہیں اور شاید اپنی فطرت بدلنا مشکل ہے تو اللہ نے ہمارے لیے دعا اور وسیلے کا دروازہ کھلا رکھا ہے جیسے ایک مرتبہ کسی نے پروفیسر احمد رفیق اختر سے پوچھا کہ میں خدا کو تلاش کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے اندر اتنی عقل ،اتنا علم نہیں ہے تو میں کیا کروں ؟ تو پروفیسر صاحب جواب دیا کہ پھر کسی اللہ والے کو تلاش کرو ۔دعا تو فطرت ہی نہیں بلکہ تقدیر بھی بدل دیتی ہے اور وسیلہ قبولیت دعا کا ایسا راستہ ہے جو آپ کو اس منزل تک لے جاتا ہے ۔آئیں اللہ کے عطا کردہ دعاوں اور وسیلے کے اس کھلے دروازے سے گزر جائیں اور اپنی فطرت ،طبیعت اورعادت کو نیکی اور اچھائی کے راستے پر گامزن کریں جب آپکی ذات سے لوگوں کو فیض پہنچنے لگے تو سمجھ لیں آپکی دعا یقینا”اس کے حضور قبول ہو گئی ہے۔آئیں فطرت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے خدمت انسانیت کی راہ اختیار کریں ۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں