اسلام ایک کل کا نام ہے جسے جب ہم جزیات میں تلاش کرتے ہیں تو کل ہم سے کہیں کھو جاتا ہے اور ہم تاریک وادیوں میں سر پٹختے رہتے ہیں مگر ہمیں کہیں سے بھی حقیقت کا کوئی سراغ نہیں ملتا یہی وجہ ہے کہ آج آپ سے پڑھا لکھا ہر نوجوان یہ سوال کرتا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام کیا ہے کوئی پوچھے گا اسکا سیاسی نظام کیا ہے اگرچہ کہ عصر حاضر کے علما نے ان سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش تو کی ہے مگر وہ سود مند ثابت نہ ہو سکی، کسی نے اسے سوشل ازم کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا تو کوئی سرمایہ داری کی فتنہ سمانیوں میں کھو گیا، کسی نے نیم جمہوری لبادے میں اسلام کو پیش کیا تو کوئی روشن خیال اور لبرل اسلام لے آیا، کسی نے اسے محض ضابطہ اخلاق سمجھا تو کسی نے قدیم یونانی فلسفے سے طریقت کی طرح ڈالی، پھر کوئی طریقت میں کھو گیا تو کوئی اسے شریعت کے تابع کرنے میں لگا رہا اور کوئی اس سے آزاد ہو کر بے دین ہو گیا مگر یہ عقد کسی پر نہ کھلا کہ دین اسلام اصل میں ہے کیا؟
آئیں ذرا آج ہم اسکی ٹھوس علمی وجوہات تلاش کرتے ہیں اسکے لیے یہاں میں اپنے قارین کی سمجھ کی خاطر ایک میٹافور بیان کرتا ہوں۔ کسی دیہات میں کہیں سے کوئی ہاتھی لایا گیا اور اسے رات کی تاریکی میں ہی ایک کمرے میں بند کر دیا گیا، صبح جب علاقے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو سب جوک در جوک اسے دیکھنے کو چل دیے کیونکہ ان میں سے پہلے کسی نے بھی ہاتھی کو نہیں دیکھا تھا جب سب لوگ جمع ہو گئے تو انھوں نے ہاتھی کو دیکھنے کے لیے اندر اندھیر کمرے میں پانچ بندے بھیجے تاکہ وہ اندر جا کر مشاہدہ کریں اور باہر ان کو بتا سکیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔
چنانچہ پانچوں بندے جب اس تاریک کمرے میں داخل ہوئے تو جس کے ہاتھ میں ہاتھی کی دُم آئی ،اس نے کہا ہاتھی ڈنڈے جیسا ہے، جس کے ہاتھ میں اسکا پاؤں آیا اس نے کہا نہیں ہاتھی درخت کے تنے جیسا ہے، جس نے اسکا پیٹ پکڑا وہ بولا نہیں وہ تو گول ڈرم جیسا ہے، جس نے اسکا کان پکڑا تھا وہ چلّا اٹھا کہ نہیں یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں ہاتھی تو دراصل چھاج جیسا ہے اور جس نے اسکی سونڈ پکڑی تھی وہ بولا نہیں یہ سب جھوٹے ہیں ہاتھی اصل میں بڑے منہ والے موٹے اژدھا جیسا ہے جو مسلسل لہراتا رہتا ہے۔
اگرچہ ہر ایک نے اپنا اپنا ادھورا سچ بیان کیا مگر ان میں سے کوئی بھی یہ نہ بتا سکا کہ ہاتھی اصل میں ہوتا کیسا ہے آپ سوچ رہے ہوں گے بھلا اس کہانی سے آپکے سوالوں کا کیا تعلق ہے اسکی کیا نسبت ہے؟
سولہویں سترھویں صدی میں جب علم کی کمپارمنٹلائزیشن شروع ہوئی تو علم کا ہر ڈسکورس ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا جس سے ایک نئے ورلڈ ویو نے جنم لیا اور یہ وہی ورلڈ ویو ہے جس کی چھلنی سے گزر کر آپ اور میں ہم سب مل کر اس دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں یعنی یہ ہاتھی والوں کا ورلڈ ویو ھے فلسفے کی زبان میں اسے پیراڈائم کا شفٹ ہونا کہتے ہیں یعنی اصل میں ہمارا پیراڈائم شفٹ ہو چکا ہے جسکی ہمیں خبر نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک علم کے کسی ایک ڈسپلن کا ماہر تو ہوتا ہے مگر وہ خود کو کل پر رائے دینے کا اہل سمجھنے لگتا ہے جبکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ فزکس والے کو معاشیات کی خبر نہیں بیالوجی والا ریاضی سے ناواقف ہے سیاسیات والا قانون سے نابلد ہے اور کمپیوٹر سائنس والا بائیو ٹیکنالوجی سے لاعلم ہے غرضیکہ ہم کسی ایک علم کے ماہر تو ہوتے ہیں مگر باقی تمام علوم ہماری دسترس سے باہر ہوتے ہیں یعنی ہم مشاہدہ جزو کا کرتے ہیں اور رائے کل پر دیتے ہیں اور ہم میں سے ہر ایک ہاتھی والوں کی طرح خود کو حق پر سمجھتا ہے ہم ایک دوسرے کے اخلاص پر شک کرتے ہیں ایک دوسرے کو جھوٹا منافق زندیق اور نہ جانے کیا کچھ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں آپس میں لڑتے اور الجھتے رہتے ہیں مگر اصل بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اصل حقیقت سے واقف نہیں ہوتا۔
اب میں آتا ہوں اصل بات کی طرف کہ دین کیا ہے دین دنیا کو برتنے کا ایک آسمانی ضابطہ ہے یہ مجموعی طور پر ایک نظام ہے اسے بہت سے مختلف نظاموں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا یہ ہمارے رب کی سافٹ ڈیکٹیٹر شپ کا نام ہے جسکی اطاعت آپ اپنی مرضی سے اختیار کرتے ہیں جس میں کوئی جبر نہیں ہے اس میں انسان کی نہیں بلکہ رب کی حاکمیت قائم کی جاتی ہے اسکا رول آف لا قائم کیا جاتا ہے کیونکہ انسان سمیت ہر چیز صرف رب کی ملکیت ہے جس میں اسکا کوئی شریک نہیں اور نہ ہی وہ انسانوں سمیت کسی بھی مخلوق کو اپنی ملکیت میں شریک کرنا پسند کرتا ہے وہ ضابطہ وہ دین جسے ہم اسلام کہتے ہیں وہ ہمارے پاس قرآن کی صورت میں موجود ہے جسکے تحت ہم نے اپنی ذات کی تربیت کرنی ہے خود کو ایک اچھا اور بہترین انسان بنانا ہے جسے ایک نئے جہاں میں انتہائی خوبصورت اور اعلی مقام یعنی جنت میں ہمیشہ کے لیے آباد کیا جائے گا جسکی تیاری کے لیے آپکو زمین پر اتارا گیا ہے جسکے لیے آپ نے زمین پر ایک جنتی سماج کا قیام عمل میں لانا ہے اور اسی ہدایت کے لیے آپکو یہ ضابطہ دیا گیا جس میں معاشیات بھی موجود ہے سیاسیات بھی جس میں عمرانیات لسانیات بیالوجی آسٹرالوجی سے لے کر جینیات اور جنسیات تک تقریبا ً ہر موضوع پر بحث کی گئی ہے یعنی اس میں جو بھی کچھ انسانی علوم کی دسترس میں موجود ہے اس پر بھی بحث کی گئی ہے اور ان حقائق سے بھی پردہ اٹھایا گیا جو انسانی علم کی دسترس سے ہی باہر ہیں یہ ایک کل ہے لیکن ہم کم علمی کے باعث اپنی سہولت کے لیے اس میں سے کوئی ایک جزو الگ کرنا چاہتے ہیں خواہ وہ چھوٹے موٹے نظاموں کی صورت میں ہے یا ضابطہ اخلاق و قانون کی شکل میں ہم فقط اس میں سے صرف ایک جزو لے لیتے ہیں اور اسی میں مست رہتے ہیں پورے جہاں کو غلط سمجھتے ہیں اور خود کو دنیا کا واحد آخری سچا انسان سمجھتے ہیں۔

کل تک میں بھی آپ کا حصہ تھا مگر اب میں اسٹیشن پر کھڑا وہ عینی شاہد ہوں جو خواہشات کی ٹرین میں بیٹھے آپکو خود سے بہت دور جاتا دیکھ رہا ہے جبکہ آپ کے نزدیک آپ ساکن ہیں اور میں اور میرا گردوپیش حرکت میں ہے آپ ایک ڈبے میں بند ہیں اور میں اوپن فضا میں کھڑا مجموعی حقیقت کا وہ شاہد ہوں جو جزو کو کل سے الگ کرنے کو تیار نہیں ہے۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں