غلام عباس کا افسانہ ‘فینسی ہیر کٹنگ سیلون ‘ بھی مہاجرین کی آبادکاری کے مسائل سے وابستہ ہے۔جہاں چار حجام ملکر کام کرتے ہیں تو حالات سازگار ہوتے ہیں لیکن جب ان میں نفاق آتا ہے تو منشی مالک بن جاتا ہے جس کو انہوں ترس کھا کر دکان میں جگہ دی تھی۔ جب منشی کے مالک بننے کی یہ روداد میں نے اس جگہ پڑھی تو بے اختیار میرے ذہن میں چوکیدار کے مالک بننے کا منظر گھوم گیا جو کہ ہمارے ملک کا ابتداء سے اب تک کا المیہ ہے۔ اس میں مماثلت تلاش کی جا سکتی ہے مگر یہ ڈاکٹر صاحبہ کا موضوع نہیں تھا اور چوکیدار کا مالک بننے کا خیال بھی میری ذہنی آوارگی تھی۔
منٹو کے انکل سام کے نام خطوط کا بھی ڈاکٹر صاحبہ نے ذکر کیا ہے جو منٹو کی دور اندیشی کو ظاہر کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ منٹو ملکی کے ساتھ بین الاقوامی حالات کے بارے میں بھی کافی باشعور تھے۔
پاکستان کا بننا ایک بڑا واقعہ تھا بلکہ یہ مسلمانوں کی جدوجہد کی جیت بھی تھی مگر اس کا نقشہ ہرگز وہ نہیں تھا جو مسلم لیگ یا مسلمان قیادت کے ذہن میں تھے۔ یوں منزل حاصل کر کے اس میں تشنگی رہی اور پھر فسادات کی وجہ سے کو قتل و غارتگری ہوئی وہ الگ المیہ تھا۔ اس لیے تو فیض احمد فیض اپنی کرب کو بیان کرتے ہوئے صبحِ آزادی والی نظم لکھی جس کا ایک شعر یہ ہے
یہ داغ داغ اجالا ،یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
فیض کی یہ پوری نظم اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ حصول منزل کے باوجود ہم نے بہت کچھ قیمتی کھو دیا ہے۔
فیض احمد فیض بعد میں راولپنڈی سازش کیس میں پکڑ لیے گئے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس کیس کی وجوہات اور اس کی ناکامی پر روشنی ڈالی ہے۔ البتہ یہ بات حتمی طور پر نہیں سامنے آ سکی کہ فیض واقعی اس سازش میں ملوث تھے کہ نہیں۔ فیض نے اس قید کے دوران کئی نظمیں اور غزلیں کہیں ان کا مجموعہ کلام دست صبا اور زنداں نامہ سامنے آیا۔ اس قید نے فیض کے کلام میں ایسا نکھار پیدا کیا کہ فیض مقبول ہو گئے۔
شوکت صدیقی کا ناول ‘خدا کی بستی’ پاکستان کے ابتدائی مسائل اور انتظامی نااہلی کو بیان کرتا ہے۔ اس کے کردار نوشا ، راجا اور شامی کی آنکھوں سے پاکستان کے سیاسی ، سماجی اور مذہبی حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔نیاز کا کردار جو کباڑ خانے کی آڑ میں چوری کا مال بیچتا ہے۔ یہ کردار ان بدعنوان افسروں اور منافقت زدہ افراد کا عکاس ہے جو پیسہ کمانے کے لئے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل جاتے ہیں ۔ ایک اور فراڈ کردار ڈاکٹر موٹو کا ہے جو تقسیم سے قبل ایک کمپاونڈر تھا مگر جب وہ مہاجرین کے ساتھ پاکستان آتا ہے تو جعلی ڈگری کی بنیاد پر یہاں ڈاکٹری کرنے لگ جاتا ہے۔ دوسری جانب سلمان کا کردار ہے جو اس نئی مملکت کے روشن مستقبل کے لیے صفدر بشیر اور احمد علی کی تنظیم میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ جہاں پاکستان کو کئی منفی کرداروں سے واسطہ پڑا تو اس کے نوجوانوں میں سلمان جیسے لوگ بھی تھے جو کہ ملک کے روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے۔
شوکت صدیقی کا دوسرا ناول جانگلوس بھی ملکی تاریخ کے اہم گوشوں سے پردے اٹھاتا ہے۔ اس کا کردار لالی جو جیل سے بھاگا ہوا ہے ایک منتشر معاشرے کا فرد ہے۔سمگلنگ، ناجائز الاٹمنٹ ، جاگیرداری سے جڑا مظلوم طبقات کا استحصال ، بیوروکریسی میں کرپشن اور منافقت اس کے بنیادی موضوعات ہیں۔ نظر آتا ہے کہ ناول کے اکثر کردار منافقت سے بھرے پڑے ہیں حتیٰ کہ لالی کی مدد کرنے والی رحم دل سکول ماسٹر بھی سمگلر کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ لالی کی زبانی یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہاں قانون فقط غریب اور کمزور کے لیے ہے جو طاقتور اور سرمایہ دار ہے اس کے لیے قانون نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ ڈاکٹر حنا جمشید صاحبہ نے منٹو اور عبداللہ حسین کے بعد شوکت صدیقی کے سیاسی شعور کی پختگی کی خصوصیت سے تعریف ہے اور لکھا ہے کہ انہوں نے بہت باریک بینی سے حالات کا جائزہ لیا اور ان کو اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے۔
پاکستان کے ابتدائی مسائل کے حوالے سے قرۃ العین حیدر کا آگ کا دریا مختلف مسائل پر روشنی ڈالی گئی بالخصوص سماجی بگاڑ کے حوالے سے ان کے ہاں کافی حساسیت پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ منٹو کا افسانہ ‘اللہ کا بڑا فضل ‘ بھی اس ہی بگاڑ پر ہے جس میں طنزیہ اسلوب میں معاشرتی زوال کو ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ منٹو ہی کا دوسرا افسانہ ‘یوم استقلال’ بھی ایک نوزائیدہ مملکت کا نوحہ ہے جس میں لوگ اپنے ذاتی فوائد کی خاطر ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک کو ایسے مسائل کا اول روز سے سامنا کرنا پڑا جہاں منفی عناصر نے اپنی منفیت سے معاشرے کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان کے ابتدائی مسائل اور بگڑتے معاشرے پر غلام عباس نے بھی قلم اٹھایا جس میں ‘سرخ جلوس’ ، ‘درد مند دل’ اور ‘لچک’ نام کے افسانوں میں بتایا گیا ہے کہ جس وطن کا خواب دیکھا تھا وہ خواب پورا ہو کر بھی ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے جس میں ایک طبقہ جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے طاقت پکڑتا جا رہا ہے۔
پاکستان کو مارشل لاء کے عفریت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اس کا ایک بازو کی جدائی بھی سہنی پڑی جس نے اس کا جغرافیہ بدل ڈالا۔ چوتھے باب میں ڈاکٹر حنا جمشید صاحبہ نے اس حوالے سے ادبی متون کی نوتاریخی قرات کے ذریعے اس دور کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔
فوجی آمریت دراصل قانون کی حکمرانی سے انکار کی ایک بھینانک صورتحال تھی۔ مقتدر اشرافیہ کا قانون سے کھلواڑ کو آگ کا دریا، اُداس نسلیں ، خدا کی بستی وغیرہ میں موضوع بنایا گیا۔ مگر ایوب خان کا مارشل لاء اس کی عملی صورتحال تھی جب سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے اپنا کام چھوڑ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ فوجی آمریت کا یہ پہلا تجربہ پاکستان کے لیے ایسا ڈراونہ خواب بن کر سامنے آیا جس کے نقوش اب بھی کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود گہرے ہیں۔ مقتدر اشرافیہ میں جب فوجی آمروں نے اپنی جگہ بنائی تو وہ اور بھی زیادہ بے رحم ہو گئی۔ اشرافیہ کا حصہ ہونے کا ان کو ایسا مزہ آیا کہ آج کی تاریخ میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہی طبقہ ہے جس کو کوئی لگام نہیں ڈال سکتا۔ ایوب خان کے خلاف حبیب جالب نے مزاحمتی نظمیں کہیں جس کی وجہ سے انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں مگر آمریت کے خلاف جالب کے موقف میں تبدیلی نہیں آئی۔ جالب کی اس دور کی مشہور نظموں میں سے چند کا ڈاکٹر صاحبہ نے ذکر کیا ہے۔ جس میں ۱۹۶۲ کے دستور کے بارے میں ہے
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا
جب ایوب خان کا مادر ملت سے صدارتی انتخابات میں مقابلہ ہوا تو اس وقت جالب مادر ملت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ماں کے نام سے ایک نظم لکھی
میں دور کھڑی دیکھوں
اور اہل ستم کھیلیں
خون سے مرے بچوں کے
دن رات یہاں ہوئی
اس سے پہلے جب رائٹرز گلڈ کا قیام عمل میں لایا تو اس پر بھی جالب نے اس پر بھی نظم کہی۔ جب انہیں اپنی انقلابی شاعری کے باعث قید میں ڈالا گیا تو سرمقتل کے نام سے انقلابی شاعری لکھی جس کو ضبط کر لیا گیا۔ اس پر انہوں نے کہا
مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اُجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
اس کے علاوہ بیس گھرانوں پر جالب نے نظم جس میں ایوب خان کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں پر تنقید کی۔ جالب کی آمریت سے یہ لڑائی ایوب خان کے بعد یحیٰی خان سے بھی جاری رہی اور اس وقت انہوں نے اپنی یہ نظم کہی
تم سے پہلے وہ جو شخص یہاں تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج اس کا سر عرشِ بریں تھا
ڈاکٹر صاحبہ نے جالب کی شاعری کو مختلف مواقع پر موضوع بحث بنایا ہے اور اس کی نوتاریخی قرات سے اس دور کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ ایسے ہی سقوط ڈھاکہ کے بارے میں جالب کا کہا گیا شعر
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
ڈاکٹر طاہرہ اقبال کا ناول نیلی بار میں بھی ایوب کے عہد کا جائزہ لیا گیا ہے بالخصوص اس کی زرعی اصلاحات اور پھر بنیادی جمہوریتوں پر بات کی ہے اور ایک گاؤں کی سطح تک لوگوں کی نفسیات اور ان کے طرزِ فکر کو بیان کیا ہے جس سے اس دور ایک جھلک کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ایوب کے مارشل لاء اور سقوط ڈھاکہ کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ کا راکھ ، انتظار حسین کا بستی قابل ذکر ہیں۔ جن کے متن کا ڈاکٹر صاحبہ نے نوتاریخی جائزہ لے کر مزید حقائق کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بارے عبداللہ حسین کا نادار لوگ ، قرۃ العین حیدر کا آخر شب کے ہمسفر اور تارڑ کا راکھ سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ادبی متون ہیں جس میں مشرقی پاکستان کے المیہ اور مغربی پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کے ہاتھوں بنگالیوں کے استحصال کو ذکر کیا گیا ہے اور بتایا کہ کس طرح جبر کے ذریعے ملک کے ایک حصے کو دبایا گیا اور ان کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ افسوسناک باب ہے اس پر ان ناولوں کے علاوہ بھی کئی اور ادبی متون لکھے گئے اور اس کے نوحے کو ذکر کیا گیا ہے۔ بلکہ اگر ان تین چار ناولوں کے متون کی مکمل نوتاریخی قرات کی جائے تو اس موضوع پر الگ سے ایک اور مقالہ کی بھی گنجائش نکل آتی ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے عروج و زوال کی داستان کو بھی اس کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ انہوں نے بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور ان کی عوامی مقبولیت اور کمال کی ذہانت کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے بھٹو صاحب کی شخصیت کا دوسرا روپ بھی پیش کیا ہے جہاں ہمیں بھٹو صاحب ایک منتقم مزاج اور غیر جمہوری سوچ کا حامل شخص جو اپنے اوپر ایک حرف تنقید سننے کا روادار نہیں۔ بھٹو صاحب کے عروج و زوال کی تصویر کشی ڈاکٹر صاحبہ نے مستنصر حسین تارڑ کے ناول راکھ اور بھٹو صاحب کے ایک جیالے خالد حسن کی کتاب ‘مقابل ہے آئینہ ‘ کو سامنے رکھ کر کی ہے گوکہ یہاں نتائج فکر سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر مجھے ڈاکٹر صاحبہ کا بھٹو صاحب کی شخصیت کے اوپر تجزیے میں کوئی خلاف حقیقت پہلو نظر نہیں آیا۔ بھٹو صاحب کے اوپر تنقید کے باوجود ان کی عوام کے دلوں میں محبت کو ذکر کیا گیا ہے پھر جب بھٹو صاحب کی پھانسی کا ذکر آتا ہے تو وہاں بھی بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کو تاریخی غلطی قرار دیا گیا ہے جس نے ہمارے معاشرے پر اور سیاسی و جمہوری تاریخ میں خوشگوار اثر نہیں چھوڑا۔ بیشک بھٹو صاحب کے مقدمے میں بہت سے خلا تھے جو کہ اس بات کی نشاندھی کرتے ہیں کہ بھٹو صاحب ایک آمر کی انتقام کی بھینٹ چڑھ گئے۔
جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء کئی حوالوں سے ہنگامہ خیز تھا۔ جہاں اس دور میں ایک عوامی لیڈر کا عدالتی قتل کیا گیا وہاں مغرب کے آلہ کار بن کر ہم ایک ایسی جنگ میں شریک ہوئے جس کے اثرات سے ملک کو چالیس سال گزرنے کے بعد نہیں بچ پا رہا۔ ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے افغان جنگ کے بارے میں بہت زبردست منظر کشی کی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ محمد علی معاویہ کا کردار کس طرح حکومتی سرپرستی میں یہاں سے لوگ افغانستان کی جنگ میں بھیجتا ہے۔ باقی آمروں کی طرح حبیب جالب کی ضیاء الحق کے ساتھ بھی لڑائی رہی اور اس پر ان کی یہ نظم آج بھی مشہور ہے۔
ظلمت کو ضیاء، صر صر کو صبا، بندے کو خدا ، کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
ضیاء کے دور میں ہی احمد فراز نے مزاحمتی شاعری کی ان کی نظم محاصرہ جس کے ان کو سخت نتائج بھگتنے پڑے مگر یہ جبر انہیں حق کی عکاسی کرنے سے نہ روک سکا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
توصبح ایک نیا سورج تلاش لاتی ہے
احمد فراز نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف اور بھی نظمیں لکھیں ان کی یہ نظمیں اس دور کے جبر کی عکاسی کرتی ہیں اور ان کی نوتاریخی قرات سے اس دور کی تاریکی کو مزید بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں کو مستنصر حسین تارڑ کے ناول راکھ اور طاہرہ اقبال کے نیلی بار میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ضیاء دور کے اور بھی واقعات کا ڈاکٹر صاحبہ نے ذکر کیا ہے جس پر مزید بات ہو سکتی ہے۔
ضیاء الحق کے طیارہ حادثے کے بعد سے لیکر مشرف کے دور پہلے تک واقعات کے بارے میں کوئی قابل ذکر ادبی متن نہیں جس پر گفتگو کی جا سکتی ہو جس طرح پہلے ادوار کے بارے میں ذکر ہے۔ البتہ پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کا ایک ایسا واقعہ تھا جس کے عالمگیر اثرات ہوئے بالخصوص مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا نیلم احمد بشیر کا ناول طاؤس فقط رنگ اس ہی المیے پر ہے۔ جس میں بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی مشکلات کو ذکر کیا گیا ہے اور اس واقعے کے بعد کس طرح ان کو مشکوک انداز میں دیکھا گیا۔ نائن الیون کے نتیجے میں امریکہ کا افغانستان پر حملے نے پھر سے ہمارے معاشرے کو براہ راست متاثر کیا، مستنصر حسین تارڑ کا ناول قلعہ جنگی اس ہی موضوع پر ہے۔ اس کے علاوہ نیلی بار میں بھی ہمیں ملتا ہے کہ ریاست نے اپنی پالیسی بدلی تو وہ لوگ جو اثاثہ تھے کس طرح بوجھ محسوس ہونے لگ پڑے۔
کتاب کے آخری باب میں ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی مباحث کا مختصر خلاصہ پیش کیا ہے۔ چونکہ مقالے کا تقاضا الگ ہوتا ہے ورنہ پہلے اور آخری باب میں ہمیں بہت سی باتوں کی تکرار نظر آتی ہے اور تھوڑی سی محنت کر کے اس میں تکرار کو نکال کر یکجا کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے ایک منفرد موضوع کا انتخاب کیا ہے اور تاریخ کو سمجھنے کا ایک نیا انداز متعارف کروایا ہے۔ اس سلسلے کو مزید جاری رہنا چاہیے اور پاکستان کی تاریخ کو غیر تاریخی مصادر سے سمجھنے کی ایک نئی روایت قائم ہونی چاہیے یقیناً اس میں بہت سی کمزوریاں آئیں گی لیکن تحقیق و تنقید کے بعد ایسے مواد زیادہ سے زیادہ معتبر ہوتے جائیں گے۔
آخر میں ایک شکایت کتاب کے فونٹ کے حوالے سے ، جو کہ باریک ہے جس کا ذکر مصنفہ سے بھی کیا اور پبلشر سے بھی تو ایک بات سامنے آئی کہ ڈاکٹر حنا نے اپنے طلباء کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو کم سے کم صفحات میں لانے کی کوشش کی تاکہ ان پر مالی بوجھ نہ پڑے۔ ان کا یہ عذر قبول مگر امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں اس چیز کا خیال رکھا جائے گا تاکہ مجھ جیسے عام قاری کو اس کو پڑھنے میں آسانی ہو۔ کتاب کی اب بھی بہت سی مباحث کو دانستہ طور پر چھوڑنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس موضوع پر جتنا زیادہ لکھا جائے وہ ممکن ہے۔
راجہ قاسم محمود
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں