گولی مار بھیجے میں

اکتوبر 2014 کی بات ہے۔ بلوچستان کے محکمہ داخلہ نے ایک خفیہ مراسلہ جاری کیا تھا جو صوبے میں داعش کی سرگرمیوں سے متعلق تھا۔ اس مراسلے میں واضح طور پر اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ داعش، اہل سنت والجماعت اور لشکر جھنگوی کے بعض عناصر کے ساتھ مل کر ملک میں دہشت گردی کی بڑی کاروائیاں کر سکتی ہے۔ تب ڈاکٹر مالک صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے جو اس سے قبل بھی صوبے میں داعش کی سرگرمیوں سے متعلق خبردار کر چکے تھے۔ لیکن مراسلے کے منظر عام پر آنے اور ذرائع ابلاغ میں اس کے تذکرے کے بعد عجیب بات یہ ہوئی کہ وزیر اعلیٰ نے اپنے سابقہ بیان کی تردید کرتے ہوئے صوبے میں داعش کی موجودگی کے امکانات کو یکسر مسترد کردیا۔ جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی اپنے ایک بیان میں بلوچستان میں داعش کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ پاکستان میں اس تنظیم کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن ابھی چوہدری صاحب کے بیان کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی جب کالعدم عسکریت پسند تنظیم جنداللہ نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ داعش کے ایک وفد نے بلوچستان میں ان کی قیادت سے ملاقات کی ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب ملک کے مختلف شہروں سے داعش کے حق میں وال چاکنگ اور پمفلٹس کی تقسیم سے متعلق خبریں اخبارات کی مسلسل زینت بن رہی تھیں۔ اس کے باوجود داعش کی پاکستان میں سرگرمیوں سے متعلق وضاحتوں اور تردیدوں کا سلسلہ جاری رہا اور آئی ایس پی آر کے اس وقت کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اطمینان دلایا کہ “پاکستان کے لیے داعش کوئی خطرہ نہیں” جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اپنے دورہ امریکہ میں اس عزم کا اظہار کیا کہ “پاکستان اور افغانستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے۔”
ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے یقین دہانیاں اور دعوے اپنی جگہ، حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے چند مہینوں کے دوران افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے جتنے بھی بڑے واقعات ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری داعش اور اس سے منسلک دہشت گرد تنظیموں نے قبول کی ہے جن کی زد میں آکر اب تک دونوں ہمسایہ ممالک کے سینکڑوں معصوم عوام اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران افغانستان میں عورتوں اور بچوں سمیت درجنوں مسافروں کو بسوں اور گاڑیوں سے اتار کر قتل کرنے سمیت کابل، جلال آباد اور مزار شریف میں دہشت گردی اور قتل و غارت کے جتنے بھی بڑے واقعات ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری داعش اور اس کی ذیلی تنظیموں نے ہی قبول کی ہے جبکہ سول ہسپتال کوئٹہ ، پولیس اکیڈمی کوئٹہ، خضدار کے قریب واقع شاہ نورانی کے مزار، مال روڑ لاہور اور سہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خود کش حملے سمیت پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے تمام بڑے واقعات کا سہرا بھی انہی تنظیموں نے اپنے سر باندھا ہے۔ جس سے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس داعش اور اس کی اتحادی تنظیموں کی کاروائیوں میں نہ صرف تیزی آئی ہے بلکہ ان واقعات نے پاک افغان تعلقات کو بھی ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔
یاد رہے کہ دہشت گردی کے یہ سارے واقعات اس وقت رونماء ہوئے جب پاکستان میں ضرب عضب جاری و ساری تھا اور حکمران مسلسل اس بات کے دعوے کر رہے تھے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہے گا۔ اگرچہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی اور عوام کو ایک بڑے عرصے کے بعد کسی حد تک سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے کئی مہینے قبل اس کے بارے میں جو غیر ضروری ڈھنڈورا پیٹا گیا، اس کی وجہ سے دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد یا تو زیر زمین چلی گئی یا پھر سرحد پار کرکے افغانستان منتقل ہوگئی جہاں انہوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کرلیں۔
افغان ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں داعش کا سب سے مضبوط ٹھکانہ ننگر ہار صوبے میں قائم ہے جہاں کی مقامی آبادی آئے روز ان دہشت گردوں کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق ننگرہار کے بعض اضلاع میں داعش کے جنگجو کئی عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے ہیں اور ان سے بزور نکاح کرلیا ہے۔ ان واقعات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ دہشت گرد نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کی سالمیت کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے سرحد کے آرپار موجود دہشت گردی کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے مل کر اور مکمل اخلاص کے ساتھ کام کریں۔ دونوں ممالک کو یہ تاثر بھی زائل کرنا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کے مفادات اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کی خاطر اپنے منظور نظر گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ انہیں نہ صرف ایک دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا سلسلہ ترک کرکے عدم مداخلت کی پالیسی اپنانی ہوگی بلکہ مل جل کر علاقے کو دہشت گردی سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ دونوں ممالک یونہی اپنے اپنے مطلوب افراد کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے رہیں گے جبکہ قاتل دونوں اطراف کے عوام کے کشتوں کے پشتے لگاتے رہیں گے۔
یاد رہے کہ یہ دہشت گرد فکشن فلموں میں دکھائے جانے والے ان زومبیز(Zombies) کی طرح ہیں جو اپنی ٹوٹی ہوئی کمر، باہر کو نکلی ہوئی آنکھوں اور مڑے تڑے ہاتھ پاؤں کے ساتھ اس وقت تک انسانوں کو بھنبھوڑتے رہتے ہیں جب تک ان کے بھیجے میں گولی نہیں اتاری جاتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت ان شخصیات اور مدارس پر سختی سے ہاتھ ڈالے جو نہ صرف ان دہشت گرد گروہوں کو افرادی قوت مہیا کرتے ہیں بلکہ ان کی کھلے عام پشت پناہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے قتل و قتال کی بے شرمانہ توجیہ بھی کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی مصلحت کی پرواہ کئے بغیر دہشت گردوں کے غیر ملکی سرپرستوں، ان کی فنڈنگ کے ذرائع اور داخلی سہولت کاروں سے متعلق عوام کو درست معلومات فراہم کرے۔ اس کے علاوہ حکمرانوں بالخصوص وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب کو کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقاتوں اور نین مٹکوں کا سلسلہ بھی ترک کرنا ہوگا تاکہ عوام اس کنفیوژن سے نکل سکیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں یا کافر کافر کھیلنے والے ان کے قاتلوں کے ساتھ؟

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply