زندگی راہ ہے یا گمراہ؟-یاسر جواد

ہم کردار کم اختیار کرتے ہیں، زیادہ تر کردار ہمیں اختیار کرتے ہیں۔ کردار بنے بنائے ہیں، آٹھ نمبر، نو نمبر، دس نمبر کے جوتوں کی طرح۔ جیسا کہ کچھ کردار ہیں بیوہ یا شادی شدہ ادھیڑ عمر عورتوں کے جن سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ نپے تلے انداز کے علاوہ بھی اپنی مرضی سے خوش رہیں۔ داڑھی والے سے توقع نہیں کی جاتی کہ وہ قلابازی لگائے گا یا اُستاد سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ مطالعہ کرے اور سوال اُٹھائے، پی ایچ ڈی سے توقع نہیں ہوتی کہ وہ اپنے موضوع پر کوئی بات کرے گا۔ شاعر سے خواہ مخواہ حسن پرستی کی توقع کر لی جاتی ہے۔

ماؤں اور بہنوں سے محبت کی توقع نہیں ہوتی، باپ سے یہ اُمید نہیں کی جاتی کہ وہ آرام سے بیٹھ کر کوئی حتمی رائے دیے بغیر کسی چیز کو ڈسکس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا۔ محبتوں کے دریا میں بس مقتدر لوگ ہی غوطے کھانا چاہتے ہیں اور باقیوں کی محبت کو وہ بے راہ روی یا ہوس پرستی قرار دیتے ہیں۔ یہ سب کردار بنے بنائے ہیں، جن میں ہم لوگوں کو فٹ کرتے جاتے ہیں اور خود بھی فٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ان طے شدہ کرداروں میں ہم سبھی خود کو محبوس محسوس کرتے ہیں اور اِن سے نکلنے کی ترکیب یا موقع  ڈھونڈنے میں ایک سے زیادہ زندگیاں گزار دیتے ہیں (ایک اپنی اور آس پاس والوں کی)۔ ہمیں یہ نہیں سمجھ آتی یا بہت دیر سے سمجھ آتی ہے کہ مختلف کردار اپنانے کے لیے پہلے والا کردار مٹانا ضروری نہیں۔

ایک نئی زندگی جینے کے لیے ہم پہلے والی پوری زندگی کو مٹا نہیں پاتے، اور نہ اِس کی ضرورت ہے۔ مجھے آج اچانک ایک فلم یاد آ گئی جو پلس گلوبل کی بدولت پہلی بار باقاعدہ ’’پڑھی‘‘ بھی تھی، کیونکہ VHS ٹیپس میں پلس گلوبل نے ہی سب ٹائٹلز دینا شروع کیے تھے۔ اِس سے پہلے سعودیہ کے لیے انڈین فلموں کے عربی سب ٹائٹلز دیکھ کر ہنسا کرتے تھے، مثلاً گووندے نے غصے میں کہا، ’’میرا کوئی باپ نہیں، میرا کوئی بیٹا نہیں۔‘‘ تو عربی ترجمہ خود ہی تصور کر لیں۔

وہ فلم برجز آف دی میڈیسن کاؤنٹی تھی۔ ہوا یہ کہ دو بہن بھائی مائیکل اور کیرولین اپنی متوفی ماں فرانسسکا (میرل سٹریپ) کی جائیداد تقسیم کرنے آتے ہیں اور حیران رہ جاتے ہیں کہ فرانسسکا نے وصیت کی تھی کہ اُسے جلانے کے بعد راکھ مرحوم شوہر رچرڈ کے قریب دفنانے کی بجائے ایک مخصوص پُل میں بکھیر دی جائے۔ پھر ایک سیف میں پڑی ہوئی تصاویر خطوط اور چابی ملتی ہے۔ یہ اُن کی ماں کے ایک محبوب (کلنٹ اِیسٹ ووڈ) کے خطوط تھے۔ تین نوٹ بکس، نیشنل جیوگرافک کے شمارے، پرانے کیمرے وغیرہ بھی ملتے ہیں  اور ماں کے محبوب کی تصویر بھی۔

خطوط پڑھتے ہوئے فلم فلیش بیک میں چلی جاتی ہے۔ وہ آپ خود دیکھیے گا۔ میں صرف اتنا بتا دوں کہ فرانسسکا کو فوٹوگرافر سے محبت ہو جاتی ہے اور دونوں بھاگ جانے کا بھی سوچتے ہیں۔ فرانسسکا ایک بیوی اور ماں کے کردار میں ہی رہنے کا فیصلہ کرتی ہے، وہ بچوں کی خاطر محبوب کو انکار کر دیتی ہے۔ اُسے شک ہوتا ہے کہ یہ اچانک محبت عارضی ثابت نہ ہو۔ دوسری طرف رابرٹ یعنی کلنٹ ایسٹ ووڈ بھی زندگی اور آرٹ کے نئے معنی تلاش کرتا ہے۔ شوہر کی وفات کے بعد فرانسسکا رابرٹ سے رابطہ کرنا چاہتی ہے مگر وہ نہیں مل پاتا۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ تو اُس کے شوہر سے بھی تین سال پہلے مر گیا تھا اور اُس کی راکھ بھی اُسی پُل سے پھینکی گئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سب کی زندگیاں پرتوں میں ہوتی ہیں، ہم پرتیں کھول کر دیکھنے کی بجائے مزید چھپاتے ہیں، اور آخر جب اتفاق سے ہمت مل ہی جائے تو پتا چلتا ہے کہ دیر ہو چکی ہے۔ یہ دیر کچھ پا لینے کی نہیں ہوتی، بلکہ کچھ تسلیم کرنے کی ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ زندگی راہ ہے یا گم راہ، لیکن اتنا معلوم ہے کہ یہ ایک ہی ہے۔
ملتے ہیں چند روز بعد۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply