اٹھارہ ماہ کے دوران پونے سولہ پارے حفظ کرنے کے بعد ہم پر عقدہ کھلا کہ صوبہ سرحد کے مدارس میں حفظ کی پختگی پر تو توجہ زیادہ دی جاتی ہے مگر تجوید اور تلفظ کو نظرانداز کیا جاتا ہے,سو ہمیں بعض خیرخواہوں نے لاہور یا فیصل آباد جانے کا مشورہ دے دیا ۔ پشتو کہاوت ہے کہ جب ماتم ہی کرنا ہے تو پھر ننگے سر ہی بہتر ہے ۔ اس کے مصداق ہم نے فیصلہ کیا کہ جب تکالیف برداشت کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں تو پھر صوبہ سے دوریا ضلع سے دور ۔
گھر میں مشورہ کرکے مجھے فیصل آباد بھیجنے کا فیصلہ ہوا ۔ اس فیصلے کی وجہ دارالعلوم فیصل آباد میں علاقے کے ایک طالب علم کی موجودگی بنی ۔۔ سو مجھے اس کے ساتھ بھیج دیا گیا ,سوات آکراس نے جلدی واپس آنے کا کہہ کر مجھے علیگرامہ نامی گاWں کی ایک مسجد میں چھوڑدیا ، کہ وہ اپنے دیگر ساتھیوں کو لیکر ابھی آرہا ہے اور پھر سب شام کی گاڑی سے فیصل آباد چلیں گے ۔
اس کی حالت ابوزید سروجی کی ہوئی’أحَيٌّ هو فيُتَوقَّع ام أودع اللحدالبلقع۔۔۔۔ تین یا چار روز تک بندہ نہ بندے کی ذات۔۔ اُدھر اپنا حال یہ ہے کہ انتظار کی اذیت میں بھوک کا ستم بھی شامل ہوگیا ۔ پورا دن مسجد میں گزارا ،کسی مسلمان نے یہ پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ اس طالب نے کھانا کھایا ہے یا نہیں ۔ گاؤں تھا ،اجنبی ماحول تھا ۔۔ نہ ہوٹل کی خیر خبر تھی اورنہ ہی ہوٹل میں اکیلا کھانا کھانے کا کبھی تجربہ ہوا تھا ۔ سو عشا پڑھ کر بھی جب کہیں سے رزق کا سبب نہ بنا ۔ نمازی الصلوات پڑھ کر الطیبات سے لطف اندوز ہونے کے لئے گھروں کو چلے گئے اور جاتے جاتے مسجد کے اکلوتے مرکزی دروازے کو باہر سے تالا لگا نا نہ بھولے ۔۔ بند مسجد کے حجرے میں اکیلے تنہا بیٹھ کر کچھ دیر کے لئے جی بھر کر رویا اور پھر حجرے میں پڑی ہوئی ایک ٹھوکری میں کچھ باسی روٹیاں پڑی تھیں جنہیں شائد اس حجرے میں رہائش پذیر طالب علم عید کی چھٹیوں سے قبل چھوڑ کر گئے تھے ۔ ان سوکھی روٹیوں کو جھاڑ پونچھ کر کھانے لگا ۔ پینے کے لئے مسجد میں پانی تھا مگر نمک اورسرکے کی جگہ گالوں پر بہتے ہوئے بے بسی کے آنسو سے کام لیا ۔ اس معاملے میں اہل محلہ سے شکوہ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ میں نے کسی سے بولا نہیں اور وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید گاؤں میں کسی کا مہمان ہوں ۔
دوسرے روز دوپہر کے قریب ایک پہاڑی علاقے کے ایک قاری صاحب جو مسجد کے امام تھے، پہنچ گئے اور آتے ہی مجھ سے مختصر تعارف پوچھنے کے بعد بالٹی پکڑادی کہ جاؤ اور وظیفے مانگ کر لاؤں۔۔
دوچار گھروں سے وظیفے جمع کئے مگر بدقسمتی یہ تھی میرے سر پر کالے رنگ کی ٹوپی دیکھ کر کئی لوگوں نے وظیفہ دینے کے بجائے ڈانٹا کہ چنڑے ہوکر تم نے کالی ٹوپی سر پر رکھنے کی جسارت کیسے کی ہے ۔
چنڑے صرف سفید ٹوپی پہن سکتاہے۔ یہ لوگوں کی تنگ نظری تھی یا میری غلطی۔۔۔ فیصلہ کرنا تو قاضی کاکام تھا اور میں ٹھہرا ایک چنڑے ۔ ویسے بھی قضاۃ چنڑوں کے حق میں فیصلے کرتے ہی کب ہیں۔
علیگرامہ کی اس خوبصورت اورکشادہ مسجد کے قاری صاحب کو شاید یہ مروت چھو کر بھی نہیں گزری تھی کہ یہ ایک مسافر اور غریب الدیار طالب علم ہے اور اس مسجد کے حجرے میں مختصر وقت کے لئے ٹھہرا ہوا ہے ۔۔ قاری صاحب نے صبح ہوتے ہی مجھے کچھ کپڑے اور دریاں دے کر انہیں دھوکر چمکانے کا تحکمانہ حکم دے دیا ۔ اس کار خیر سے ابھی فارغ نہیں ہواتھا کہ گاوں کا ایک بڈھا آٹپکا اور مجھے تحکمانہ انداز سے مسجد کی صفائی کا حکم دے دیا۔ ساتھ میں بڑبڑانے لگا کہ تم طالب علم بھی عجیب بد مست مخلوق ہو ۔ پورا سال مسجد میں رہ کر عیاشیاں کرتے ہو ۔ عید کی چھٹیوں پر جاکر مسجد کو خالی چھوڑدیتے ہو اور صفائی ستھرائی کی پرواہ نہیں کرتے ۔۔ گاؤں کے بچے آکر مسجد میں کچرا پھیلاتے ہیں لیکن تم بے حس ہوکر خانہ خدا کی صفائی کی ذر ہ برابر بھی پروا نہیں کرتے ۔۔
مسجد کے بیچ میں ایک وسیع دالان تھا جس کے کنارے پھول اوردرمیان میں گھاس لگی تھی جس پر سردیوں کے موسم میں گاؤں کے بڈھے بیٹھ کر مسجد کے طالب علموں پر تبصرے کرتے تھے ۔۔ خیر میں صفائی کرنے میں لگ گیا اور صفائی کا دلدادہ بزرگ میرا نگران بن کر میرے کاندھے میں لاٹھی چبھو چبھو کر میری راہنمائی کرتا رہا ۔ ظلم کی انتہا یہ تھی کہ اس بے مروت قاری نے انہیں یہ بتانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی کہ بابا یہ مہمان ہے۔ خیر وقت تھا سو گزر گیا ۔ تیسرے یا چوتھے روز عصر کے وقت مسجد سے باہر نکل کر ایک نکڑ پر کھڑا تھا کہ اچانک تیز دوڑتے ہوئے میرا ہم سفر شدید مشتعل حالت میں آپہنچا ۔ نکڑ پرکھڑے دیکھ کر مجھ پر برس پڑا کہ تم باہر نکلے کیوں ہو ؟ تجھے میں نے یہ کہہ کر مسجد میں چھوڑا تھا کہ یہیں بیٹھ کر میرا انتظار کرنا ۔ اب اگر میں تجھے نہ دیکھتا تو تمھیں کہاں تلاش کرتا پھرتا، تب تک تو گاڑی بھی نکل چکی ہوتی اور ہم تیری وجہ سے تاخیر کا شکار ہوجاتے۔ چلو سامان اٹھاؤ اور نکلو ۔۔
میں سامان اٹھانے لگا اوروہ اپنے دوست امام مسجد سے ملنے گیا ۔۔ رخصت ہوتے وقت میں بھی قاری صاحب سے ہاتھ ملانے گیا ۔ جس نے انتہائی بد دلی سے ہاتھ ملا یا اور جب میں چلنے لگا تو پیچھے سے آواز لگائی کہ جاؤ مگر تمہارے اندر خدمت کا جذبہ نہیں پایا ۔۔ اپنے اس بے حس ہم سفر کے ساتھ مسجد کی صفائی کے دلدادہ بڈھے کے اس گاؤں کی گلیوں سے گزرتے ہوئے قاری صاحب کی یہ آواز دیر تک میرا پیچھا کرتی رہی۔ جیسے آوارہ کتے روٹیوں کی چنگیر اٹھا کر گزرنے والے چنڑوں کا کرتے ہیں ۔
مینگورہ سے ایک کٹھارہ سی بس میں رات کا سفر کرکے صبح سویرے ہم فیصل آباد کے دارالعلوم پہنچ گئے ۔ جو شاید پہاڑی چوک کے گردونواح میں واقع تھا ۔ داخلے ابھی شروع نہیں ہوئے تھے ۔۔ مگر دور دراز کے طالب علم پہنچ رہے تھے ۔ اس دارالعلوم کے طلبہ کو بے حد خدمت گزار پایا ۔ دوپہر کا کھانا ہو یا شام کا ۔۔۔ کمر سے رومال باندھ کر سینکڑوں روٹیاں لانے اورسالن کی بڑی بڑی بالٹیاں لیکر طالب علموں کی خدمت کرنے میں وہ کمال چستی کا مظاہرہ کررہے تھے ۔۔ تقریبا ًتمام طالبعلموں میں تہجد اور نوافل کا بے حد اہتمام تھا ۔
دو تین روز بعد داخلے شروع ہوگئے ۔ہم بھی نہا دھوکراورسورہ یاسین کا ورد کرتے ہوئے ہال میں پہنچ گئے ۔ تاہم وہاں پہنچ کر ایک عجیب منظر پایا ۔۔ ہال کے اندر انتہائی بد انتظامی کا ماحول تھا ۔ داخلے کا مروجہ طریقہ فارم یادرجہ وائس جائزے کا کوئی تصور اور انتظام نہیں تھا ۔ ایک ہال نما کمرے میں لائن سے رکھی ہوئی تپائیوں کے پیچھے ممتحن حضرات براجمان تھے ۔ کمرے میں حفظ سے دورہ حدیث تک کے طلبہ بے ترتیب کھڑے تھے اور ہر کوئی آگے بڑھ کر ممتحن کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ دھکم پیل اورشدید گرمی اورحبس کے اس ماحول میں مجھ جیسے ناتواں اور کمسن طالبعلموں کے کچلے جانے کا شدید خطرہ تھا ۔ کبھی ٹوپی گری ۔۔کبھی پیر پر کسی نے پیر رکھا ،گرنے کا توخطرہ نہیں تھا ۔۔کیونکہ زمین دکھائی دے گی تو اس کی کشش کسی کو کھینچ سکے گی ۔۔ ممتحنین کی نظرکرم جس پر پڑتی اسے بٹھاتے اور وہیں پر جائزہ لیکر داخلے کی کارروائی شروع کرتے ۔چند منٹ میں داخلہ ہوجاتا مگر ان چند منٹ کے لئے طویل انتظار کی مصیبت جھیلنی پڑتی جو کئی گھنٹوں سے کئی روز تک بھی طویل ہوسکتی تھی ۔۔
چونکہ بڑے مدارس میں داخلے کا مجھے تجربہ نہیں تھا اس لئے میں فیصلہ نہ کرسکا کہ یہ طریقہ کار درست ہے یا نہیں ۔۔ مگر اس کے کئی سال بعد جب کراچی کے جامعہ فاروقیہ میں داخلہ لینے گیا تب پتہ چلا کہ وہ طریقہ کار کسی بھی طورپر درست نہیں تھا اور ان منتظمین کو جامعہ فاروقیہ یا دارالعلوم کراچی سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ خیر اس بے ترتیبی کے باوجود مجھے داخلہ تو مل گیا مگر مجھ پر انکشاف ہوا کہ میرا ہمسفر پڑھائی چھوڑ کرواپس گاؤں جانے کا ارادہ کرچکا ہے،لیکن میری ذمہ داری کا طوق اس کے گلے میں لٹکا ہوا ہے ۔اس کا حل اس نے بالآخر مجھے مدرسے میں ہونے والی مارپیٹ اور فیصل آباد میں پڑنے والی شدید گرمی کے قصے سنا سنا کر نکال ہی دیا ۔یہ پینترا کامیاب ہوگیا ۔اورمیرا ننھا سا دل موم بن کر اس بڑے دارالعلوم کی درودیوار سے کہیں دور بھاگ جانے کے لئے مچلنے لگا ۔ اسے اپنی کامیابی پر کتنی خوشی ہوئی یہ تو نہیں معلوم مگر مجھے آج تک اس پر پچھتاوا محسوس ہورہا ہے تاہم میں لاہور جانے پر تیار ہوا ۔۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں