پیڈوفائل رجحانات میں ڈارک ویب کا کردار۔۔اکرام بخاری

آج سے کچھ دن قبل قصور میں آٹھ سالہ معصوم بچی زینب انصاری کے ساتھ زیادتی اورپھر بے رحمانہ قتل نے جہاں پورے ملک کو غم اور غصے کی ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے وہاں کئی لوگ اس حادثے کی وجوہات اور محرکات کے حوالے سے بھی اپنی رائے کا اظہار مختلف پیرائے میں کر رہے ہیں۔ کوئی والدین کے خلاف تو کوئی سرے سے بچوں کی پیدائش کے خلاف بول رہا ہے، کوئی تربیت پہ زور دے رہا ہے تو کوئی بچوں کو سلف ڈیفنس کی ترغیب دے رہا ہے، کوئی اسے قانون اور ریاست کی ناکامی تصور کر رہا ہے تو کسی کے نزدیک یہ معاشرے میں پھیلی بے حیائی کا نتیجہ ہے۔ میں یہاں کسی کو غلط یا صحیح کہنے کا مجاز نہیں ہوں لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ اس حادثے کے حوالے سے  جس ایک چیز کا نام بہت تواتر سے لیا جا رہا ہے وہ ہے ڈارک ویب اور ڈیپ ویب۔

میرے بہت سے دوستوں نے بھی اس خدشے کا ذکر کیا ہے کہ ریپ اور تشدد کے ان واقعات کے پیچھے ڈارک ویب سے منسلک سائٹس اور افراد کا ہاتھ ہے جن کے لیے اس قسم کے حادثات پیسہ کمانے اور اپنی جنسی تسکین کو پورا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ بات غور طلب ہے اور کافی حد تک ٹھیک بھی ہے لیکن ہم میں سے اکثریت یہ نہیں جانتی کہ  یہ ڈارک ویب ہے کیا اور یہ آپریٹ یا کام کیسے کرتی ہے۔سو مجھے محسوس ہوا کہ اس بابت کچھ تحریر کیا جائے،

پہلی بات تو یہ جان لیں کہ  ڈیپ ویب اور ڈارک ویب میں فرق ہے۔ ڈیپ ویب اصل میں ایسی آن لائن سروسز ہوتی ہیں جن تک عام افراد کی پہنچ نہیں ہوتی اور گوگل کے سرچ انڈکس میں بھی ان کو  نہیں تلاشا جا سکتا، یہ کوئی بھی ایسا آن لائن ڈیٹا بیس ہو سکتا ہے جس تک رسائی کے لیے اسپیشل براؤزر جیسے کہ  “Tor Browser” یا “Captcha” ٹائپ کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کے سرچ انجن خود سےکیپچا  type  نہیں کر سکتا اِس لیے اُس براوزر کو ڈیٹا بیس تک رسائی نہیں مل سکتی۔ دنیا میں ایسی بے شمار خفیہ سروسز ہیں جو ڈیپ ویب میں چل رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیپ ویب ہمارے روزمرہ کے استعمال والے ورلڈ وائیڈ ویب سے کئی گنا زیادہ حجم رکھتا ہے .یہاں یہ بتاتا چلوں کے ڈارک ویب ڈیپ ویب کا حصہ ہے لیکن ڈیپ ویب کا حجم ڈارک ویب سے کہیں گناہ زیادہ بڑا ہے۔

ڈارک ویب کی تحلیق کے پیچھے اپنی پرائیویسی کی حفاظت کرنا تھا کیونکہ بہت سی بڑی کمپنیز اور سرچ انجنز سکیورٹی کے اداروں کے ساتھ مل کر صارفین کا ڈیٹا ان کی مرضی کے بغیر اپنے پاس محفوظ کر رہی تھیں۔ پرائیویسی کے حصول اور آن لائن سرویلنس سے بچنے کے لیے ٢۰۰٢ میں امریکن نیول ریسرچ بیس نے دی انین روٹینگ پروجیکٹ یا TOR کا آغاز کیا اور ٢٠٠٤ میں اس پروجیکٹ کو اوپن سورس کر دیا۔ اوپن سورس ہونے کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کو تمام افراد کے لئے قابل رسائی بنا دیا گیا.
انین راوٹینگ کا طریقہ کار اس لحاظ سے دلچسپ اور مختلف ہوتا ہے کہ اس میں ڈیٹا بھیجنے اور وصول کرنے والے کمپیوٹر کے درمیان بلواسطہ کوئی رابطہ نہیں ہوتا بلکہ ڈیٹا کو دنیا بھر میں موجود کمپیوٹرز اور ان کے ساتھ منسلک راوٹرز کے ذریعے سے گزار کر دوسرے سرے پہ موجود صارف تک پہنچایا جاتا ہے۔مطلب data providers کی نظر سے بچا کر ڈیٹا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا . TOR میں ڈیٹا کو تین بار انکرپٹ کیا جاتا ہے اور رینڈم سیلیکشن کے ذریعے نوڈز یا کمپیوٹرز کو منتخب کر کے ڈیٹا کو روانہ کیا جاتا ہے۔ ہر راوٹر یا نوڈ سے گزارنے سے انکرپشن کی ایک لیئر ہٹا لی جاتی ہے لیکن راوٹر کو صرف یہ انفو ہوتی ہے کہ  آگے کس راوٹر کو ڈیٹا فاروڈ کرنا ہے۔ ڈیٹا پیکٹ کے اندر کیا ہے یہ پتا نہیں چلتا جب تک کہ  وہ اپنے آخری نوڈ تک نہ  پہنچ جائے۔

ٹور پراجیکٹ آن لائن پرائیویسی کے حوالے سے بہت کامیاب ٹھہرا اور بہت سی بڑی کمپنیز نے اس پراجیکٹ کو مالی امداد بھی دی لیکن TOR نے ایک بڑے مسئلے کو جنم دیا جس نے دنیا بھر کی حکومتوں کو بھی چکرا کر رکھ دیا۔ TOR کی وجہ سے اب الیکٹرونک سرویلنس اور ڈیٹا ٹرانسفر ابزرویشن ممکن نہیں رہی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ  ڈارک ویب تک رسائی کے لیے عام URL نہیں بلکہ اس کے اپنے URLs کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے آخر میں onion کا ایکسٹینشن آتا ہے۔ ڈارک ویب کی اپنی ویب سائیٹس ہیں جہاں تک گورنمنٹ کی رسائی ممکن نہیں ہوتی کیونکہ مشکل یہ ہے کہ  کوئی بھی بندہ جو TOR کی تھوڑی بہت معلومات رکھتا ہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنی ڈارک ویب آن لائن کر سکتا ہے اس کو پکڑنا ناممکن نہ  سہی پر مشکل ضرور ہو سکتا ہے۔

یہاں سے ہمارے مضمون کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔ TOR پراجیکٹ اپنے صارفین کو ایسے ٹولز بھی فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے صارف کی شناخت مکمل طور پر چھپ جاتی ہے۔ ڈارک ویب کے بنانے کا مقصد پرائیویسی کا حصول اور اپنی ذاتی معلومات کی حفاظت تھی۔ لیکن اس کا غلط استعمال شروع ہو گیا۔ IP کے ذریعے جن سائبر کرائمز اور کریمنلز کو آسانی سے پکڑ لیا جاتا تھا TOR کے ذریعے اب ان تک رسائی ناممکن ہو گئی۔اور یوں ڈارک ویب جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بن گیا ۔ ڈارک ویب اب آن لائن دنیا کا وہ حصہ ہے جو آپ کی آنکھوں سے تو اوجھل ہے لیکن جہاں سے چرس، ہیروئن،کوکین سمیت ہر قسم کی منشیات آپ کو دستیاب ہو سکتی ہیں۔ کسی کو اغوا کرایا جا سکتا ہے، قتل کیا جا سکتا ہے، کرائے کے قاتل حاصل کیے جا سکتے ہیں، جعلی پاسپورٹ اور دستاویزات بنائی جا سکتی ہیں، چوری کے کریڈٹ کارڈز اور ہر قسم کا اسلحہ خریدا جا سکتا ہے، ایسا جنسی استحصال اور تشدد بھرا مواد جو عام ویب سائٹس پہ حکومتوں کی طرف سے عائد کردہ لاز اینڈ ریگولیشنز کی وجہ سے نہیں دکھایا جا سکتا، ڈارک ویب پہ اس کی بہت مانگ ہے، بلکہ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔

ڈارک ویب کی مقبولیت میں بِٹ کوائن جیسی کریپٹو کرنسیز کا بھی بہت بڑا کردار ہے. ڈارک ویب پہ زیادہ تر ادائیگیاں بِٹ کوائن کے عوض ہی ہوتی ہیں۔کیونکہ ایسی کرنسیز بنکنگ سسٹم سے باہر ہیں، اس لیے نہ  تو ان کو ٹریس کیا جا سکتا اور نہ  ان کی قیمت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

یہاں سے ہم مضمون کے تیسرے حصے کی طرف جاتے ہیں، جس پر معصوم زینب کے قتل کے بعد سے کافی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ  واقعی اس قتل کے پیچھے ڈارک ویب ملوث ہے۔ اگر ہاں تو پھر کیسے؟

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پیڈوفیلیا ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان جنسی کشش اور میلان کم سن بچوں کی طرف محسوس کرتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میرا ایک دوست جو جاپان میں رہتا ہے وہ پاکستان آیا تو میں گپ شپ کے لیے اس کے پاس چلا گیا باتوں ہی باتوں میں اس نے بتایا کہ  جاپان کوریا اور فار ایسٹ میں پیڈوفائل پورنوگرافی کا رجحان کافی تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس نے بتایا کہ میرے کچھ دوست اس کے شوقین بن گئے ہیں اور جب میں پاکستان آ رہا تھا تو ان کی ڈیمانڈ تھی کہ  ہمارے لیے وہاں سے پیڈوفائل پورنوگرافی کا مواد لے کر آنا، میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا  کہ  ان کے ایسا کہنے کا مقصد؟

تو دوست نے کہا کہ  ان کے مطابق پاکستان، انڈیا  اور بالٹک ریاستیں سب سے زیادہ اس مواد کی ایکسپورٹرز ہیں۔ بعد میں جب میں نے خود اس حوالے سے ریسرچ کی تو پتا چلا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ چونکہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں بچوں پہ تشدد اور جنسی طور پر حراساں کرنے والے مواد پہ سخت پابندی ہے اور اس کی سزائیں بھی بہت سخت ہیں تو پیڈوفائلز یا وہ لوگ جو بچوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں وہ گورنمنٹ کی سخت سائبر ریگولیشنز کی  وجہ سے ڈارک ویب کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں پر وہ بھاری ادائیگی کر کے ایسی ویڈیوز حاصل کرتے ہیں جن میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ہو، انھیں مارا پیٹا گیا ہو،  انھیں رلایا جائے اور بعض حالات میں اس قدر وحشیانہ تشدد کیا جائے کہ  ان کی موت ہو جائے، اور اس میں جنس کی تخصیص نہیں ہوتی، ان لوگوں کی گندی ذہنیت کی تسکین کے لیے چند ٹکوں کی خاطر اپنی انسانیت کا سودا کرنے والے ان معصوم بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور پھر ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن کا بیان نہ  زبان سے ممکن ہے اور نہ  قلم سے۔

یہ ڈارک ویب کے ذریعے سے ہی باہر نہیں بھیجی جا رہیں بلکہ ان کو لیپ ٹاپس، میموری کارڈز اور سی ڈیز کے ذریعے سے بھی باہر کے ممالک منتقل کیا جاتا ہے۔ اور یہ اب ایک باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے .
زینب ریپ اور قتل کیس کے بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ، لیکن آپ کے علم میں یہ بات ضرور ہونی چاہیے کہ ہم سب کی نظروں سے اوجھل ہمارے بچوں کی تاک میں کچھ ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو پیسے اور جنسی لذت کے لیے ان معصوم بچوں کے ساتھ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، اور اب یہ ہم سب کا فرض ہے کے ہم اپنے بچوں کو ان بھیڑیوں سے تحفظ دیں، اور یہ کیسے ہو؟؟
اس حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے لیکن مختصر کہوں تو میرے خیال میں اس پر عوام کی ایک متفق رائے ہو اور اس رائے کو قانون کی طرح نافذ کیا جائے اور اس پر نہایت سختی سے عمل کیا جائے تو اس کی روک تھام ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

اکرام بخاری
سید اکرام بخاری اباسین یونیورسٹی پشاور میں آڈٹ و فنانس کے شعبے سے منسلک ہیں، دنیا کے تمام علوم و فنون کی روح سے واقفیت حاصل کرنے کا جنون اورتجسس رکھتے ہیں کیوں کہ روحانیت کو سب سے مقدم جانتے ہیں اوراسی راہ کے سالک بھی ہیں !

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پیڈوفائل رجحانات میں ڈارک ویب کا کردار۔۔اکرام بخاری

Leave a Reply to Dr Muhammad Umer Shehzad Cancel reply