ایک مرغے کی دلخراش داستان اور ہمارے 1182 عوامی نمائندے
ایک شخص نے ایک مرغا پالا تھا۔ ایک بار اس نے مرغا ذبح کرنا چاہا۔
مالک نے مرغے کو ذبح کرنے کا کوئی بہانا سوچا اور مرغے سے کہا کہ کل سے تم نے اذان نہیں دینی ورنہ ذبح کردوں گا۔
مرغے نے کہا کہ ٹھیک ہے آقا جو آپ کی مرضی۔
صبح مرغے کی اذان کا وقت ہوا تو مالک نے دیکھا کہ مرغے نے اذان تو نہیں دی لیکن حسبِ عادت اپنے پروں کو زور زور سے پھڑپھڑایا ۔
مالک نے اگلا فرمان جاری کیا کہ کل سے تم نے پر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبح کردوں گا۔
اگلی صبح اذان کے وقت مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر تو نہیں ہلائے لیکن عادت سے مجبوری ہو کرگردن کو لمبا کرکے اوپر اٹھایا۔
مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن بھی نہیں ہلنی چاہیے، اگلے دن اذان کے وقت مرغا بالکل خاموش بیٹھا رہا۔
مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی۔
اب کی بار مالک نے بھی ایک ایسی بات سوچی جو واقعی مرغے بے چارے کے بس کی بات نہیں تھی۔
مالک نے کہا کہ کل سے تم نے صبح انڈا دینا ہے ورنہ ذبح کردوں گا۔ اب مرغے کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی اور وہ زار و قطار رویا۔
مالک نے پوچھا کیا بات ہے؟ موت کے ڈر سے رو رہے ہو؟
مرغے کا جواب بڑا بامعنی تھا۔ کہنے لگا:
“ نہیں! میں اس بات پر رو رہا ہوں کہ انڈے سے بہتر تھا کہ اذان پر مرتا”۔
سبق: زندگی میں جس موقف کو صائب سمجھتے ہوۓ اس پر ڈٹ جانا چاہیے، اس پر ”درست وقت” کا انتظار مت کیجیے، ابتدا میں لیا گیا اسٹینڈ بعد کی بے شمار مصلحتوں سے بچا لیتا ہے۔مجھے اس کہانی سے تحریک شناخت کے دوہرے ووٹ کی تین نکاتی مطالبے کی مہم اور ۔مسیحیو کی وزارت شماریات کے کاغذات سے 11 لاکھ مسیحی شہریوں کی چوری کی ورادت پر آواز اُٹھانے کے لئے آگاہی مہم کے دوران جن انواع و اقسام کے قومی پارٹیوں کے ورکروں کے علاؤہ اقلیتی نمائندگان سے کی گئی لابنگ کے دوران ایک تجربہ یاد آگیا ۔ حبقوق گل سابقہ ایم پی اے و جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی مینارٹی ونگ دوہرے ووٹ کے مطالبے سے تقریبا تین سال متفق رہے ۔۔اب کا پتہ نہیں؟ ۔اور اس چوری پر بھی حیران وپریشان تھے۔اس نے ہمیشہ کہا آج بات کرتے ہیں۔پہلے کسی اور وجہ سے بات نہ کرسکے پھر ان کے ایم پی اے بننے کی آس لگی وہ مصلحت رہی ہوگی یہ ضرور کہتے رہے اسمبلی میں بات کریں گے۔۔پھر ایم پی اے بننے کے بعد بھی کوئی مجبوری رہی ہوگی ۔۔شائد بات کی بھی ہو،لیکن کبھی کسی عہدے میں حبقوق سے بڑے عہدے دار کے منہ سے یہ نہ سنا۔۔۔ ایک دو دففہ حبقوق نے میری بات پی ٹی آئی مینارٹی کے صدر ایم این اے ,جے پرکاش سے بات کروائی اس دن وہ دونوں ملتان ابو قاسم کے جلسے میں جارہے تھے۔ کہنے لگے آج شاہ محمود سے یا ابو قاسم سے بات کروائیں گے۔۔ خیر بہت دففہ اسکے علاؤہ بھی وعدے وعید کرنے کے باوجود انھوں نے متفق ہونے کے باوجود اعلیٰ پارٹی عہدے داروں سے نہ اس موضوع پر بات کی نہ انھیں سمجھایا ۔۔ حالانکہ چوری کا ذکر کرنا اور اقلیتوں کی شناخت پر نمائندے اقلیتوں کے ووٹ سے منتخب کروانے کا عندیہ دینے سے اقلیتوں سے زیادہ کسی بھی قومی پارٹی کا فایدہ زیادہ ہے ۔۔اب جب سابقہ صدر مینارٹی ونگ پی ٹی آئی ،ایم این اے صاحب کی رو،رو کر پارٹی چھوڑنے کی ویڈیو آج پھر نظر آگئی۔۔تو مجھے یاد آیا کہ اگر صرف مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کی بے ضرر سی آئینی ترمیم کی لابنگ اقلیتوں ملک قوم اور پارٹی کے مفاد میں کسی مناسب فورم پر کی ہوتی تو ساری عمر اس پر فخر تو کرتے باقی شائد پھر رونے دھونے کی نوبت بھی نہ آتی ۔۔کیونکہ جن کے پیچھے وہ لوگ ہوں جنکی شناخت پر وہ ممبر ہوں ۔ یا جن بے شناخت مظلوموں کے نام پر وہ سینٹر یا ممبران اسمبلی بنتے ہیں ۔تو انکے کیلئے نرم گوشہ انکے دل میں بھی رب ڈال دیتا ہے ۔ جو رونے دھونے پر مجبور کرتے ہیں ۔۔ ۔۔حاصل مرغ کہانی حیثیت ,حکومتی ، ریاستی ،ایوانی یا کسی بھی قسم کی سدا نہیں رہتی جانی ہی ہوتی ہے ۔جبر سے جائے یا قدرتی عمل سے اور ایسی حیثیتوں سے چمٹنے والوں کے لئے وہ جانے کا دن ذبح ہونے سے کم نہیں ہوتا ۔لہذا تاریخ میں نام لکھوانے کا کوئی موقع ملے تو ہمت کرلینی چایئے ۔ورنہ پھر مرغے کی طرح پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے ۔اس تصویر اور تحریر میں سبق تو بہت ہیں لیکن اقلیتی نشستوں پر 38اور انکے حواریوں کے لئے سھیکنے کو بہت کچھ ہے ۔سیاسیات کا ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے یقین ہے۔ رونے والے ایم این اے یا حبقوق عمران خان سے یا کسی بھی اپنے” بڑے ” لیڈر سے بات کرتے تو نہ اتنی سی بات انکے اقلیتی عہدے کوئی چھین لیتا نہ انکی ایم این اے یا ایم پی شپ سے عمران خان اتنی سی بات پر استعفی مانگ لیتا۔۔ اج کل یہ لوگ زیر عتاب ہیں اس لئے مزید کچھہ کہنا مناسب نہیں لیکن ایک نقطء ضرور ایسے دیگر کے ذہن میں بھی ہونا چاہیے ایم این اے، سینٹر ،ایم پی اے آپ کو ئی بھی بنائے لیکن جن مظلوموں کی شناخت پر آپ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں یا تھے یا آس لگائے بیٹھے ہیں اگر کسی کام کو انکے لیا اچھا سمجھتے بھی ہو تو پھر بات کرنے سے کوئی ذبح نہیں کرتا.
یہ بات آج 31.3.2024 کو اس تحریر کو ایڈیٹ کرتے ہوئے خیال آیا چند دن پہلے اقلیتی ؤ خواتین کی نشستوں پر چنے جانے والے 226خواتین و حضرات 192 ممبر قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلییز خواتین 4 اقلیتی سینٹرز 10ایم این اے ،24اقلیتی ایم پی ایز کو بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے بلکہ 1182کو ہی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ چوبیس کروڑ میں 1182 کی فہرست میں شامل ہونا ایک اعزاز ہے ۔۔چاہے آپکو کو کم لوگ منتخب کریں یا کوئی،چنتخب، کروائے یا کوئی چنے وہ کوئی بھی ہو ۔۔لیکِن آڑ جمہور کی ہی لی جاتی ہے۔لہذا یہ یاد رکھیں وطن عزیز میں جمہور کے نام پر یہ کھیل سولہویں بار کھیلا جارہا ہے ۔۔اور ہزاروں لوگ ہر چند سالوں بعد اس 1182 یا جو تعداد بھی اس وقت ہو کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں ۔لیکن 77سالوں نسل در نسل چند لوگوں کے نام زندہ ہیں۔۔ جنہوں نے جمہور کے نام کی اذان دی باقی ہزاروں لوگ تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئے ۔۔اس لئے بالعموم آج کے 1182اور بلخصوص 226سے گزارش ہے ،کہ آپ کو جس نے بھی چنا ہے ۔۔لیکن یہ یاد رکھیں آپ چنے اقلیتوں یا خواتین کی شناخت پر گئی یا گئے ہیں ۔۔لہٰذا چننے والوں شکر گزار ضرور رہے ۔۔انکے بازوں طاقت بھی بنے۔، لیکن ان تقریبا 13کروڑ کی مجموعی شناخت کی اذان بھی ضرور ایوانوں میں دیں۔جنکی شناخت کی بدولت یہ ممکن ہؤا ۔سب سے بڑا ان 13کروڑ ابادی (12کروڑ خواتین اور تقریباً ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں) کے لئے جو آواز آپ اٹھا سکتے ہیں جس سے ان مزہبی وصنفی طصبات کا شکار انسانی گروہوں کے 80فیصد معاشرتی ، سماجی سیاسی و دیگر مسائل کے حل کا خؤد کار نظام ترتیب پاسکتا ہے وہ ہے ان کے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتحابی نظام کو دوہرے ووٹ سے مشروط کیا جائے تاکہ یہ ان کے ووٹ سے منتخب ہوں جن طبقات کی یہ یوسی وارڈ کونسل سے قومی اسمبلی تک کے ایوانوں میں کرتے ہیں۔ ورنہ کئی آئے کئی گئے آپ کا نام بھی ممبران قومی یا صوبائی اسمبلی کی فہرست میں اجائے گا ،کسی سڑک پر کتبہ لگ جائے گا ۔ کسی گٹر پر ڈھکن لگانے ، کہیں آٹا بانٹنے کہیں کسی فادر پادری سے گلدستے پکڑتے یا ایسی ہی اسٹنٹ کرنے کی تصویریں تو جمح ہو جائیں گی ۔چند چرب زبان ،لاحاصل ،بے ربطِ، غیر منطقی تقریروں کے ٹوٹے بھی جمع کر لیں گے ،لیکن حقیقی تاریخ کا حصہ بننے اور لوگوں کے دلوں پر نام ثبت کرنے کے لئے کچھ انقلابی قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔۔ اور اس مسلئے پر آواز اُٹھانے کی پہل کرنا تو بڑا ہی بے ضرر آسان اور مفت عمل ہے ۔ جسکا سارا فکری ،علمی و عملی کام تحریک شناخت کے دیوانے رضآ کار دس سال کی شب روز سے انجام دے چکے ہیں ۔۔اپ کو بس تھوڑی سی فہم وفراست، تھوڑا سا جرات اظہار ،تھوڑا سا اپنے ان محسنوں کے ساتھ جنہوں نے چنا ہے، انکا بھی شکر گزار و ممنون ہونے کا احساس جنکی شناخت پر آپ کو یہ 1182کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز ملا ہے ۔۔ہونا چاہیئے۔ ورنہ اس غریب قوم کے خرچے پر مراعات و ٹی اے ڈے لینے اور دیگر پوشیدہ ذرائع سے دھن دولت جمع کرنے والے کئی آئے کئی گئے۔۔ ۔ کئی کھربوں جمع کرکے آج بھی زمانے میں رسوا ہیں ۔۔اور کئی مفلسی میں مر کے بھی جہاں میں زندہ ہیں۔ اس صورت حال کو
میرے فونو فرینڈ (دوست)
سردار ہر چند سنگھ بھاگڑی نے پنجابی شاعری میں یوں بیان کیا ہے ۔۔
کنے دھنی ہو ہو ٹر گئے کون کسے دا نا لیندا
کافکا کنج بن دی گرباںی، جے نانک ہٹی پا لیندا
ترجمہ
بہت دولت مند آئے اور گئے
کون کسی کو یاد رکھتا ہے ۔گرو نانک کی شاعری کبھی گرنتھ صاحب کے حروف نہ بنتی اگر گرو نانک بھی دوکان کھول لیتے
لازمی نہیں کہ حق کی آواز اٹھانے کے لئے آپ کو ایوان ہی درکار ہیں ۔ آپ اگر کسی موقف کو صحیح سمجھتے ہیں جرات اظہار پیدا کریں ۔۔پریس کلب ہیں ۔۔سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کھلا ہے۔۔ اپنا موقف لوگوں تک پہنچائیں ۔مجھے یہ لکھتے ہوے اچھا نہیں لگ رہا ۔۔ کہ 2013،2018اور 2023 کے الیکشن سے پہلے تقریبآ ہر جماعت کے اقلیتی ایوانوں میں پہنچنے کے شوقین لیکِن ترجیحات میں ذرا پچھلے نمبروں والے افراد رابطے میں رہے ۔ اور یہ کہتے یا تاثر دیتے رہے ۔۔”بس سر ایوانوں میں پہنچنے دیں پھر دیکھئیے گا “۔جو پہنچ گئے وہ مراعات میں دب گئے “جو نہیں پہنچے آج تک اسرے میں ہیں۔ اور چپ ہیں ۔۔اوئے بھولے بادشاہوں حق، سچ، دلیل ،منطق سے اپنے لوگوں کے لئے بات کرنے کے لئے ایوان ضروری نہیں ہیں ۔۔بس آپکی مرضی اور نیت درکار ہے ۔۔ اگر ارادہ ہے ۔۔تو قدم بڑھاؤ، فکری، دستاویزی معاونت حاضر ہے ۔۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں