یہ بچے کس کے بچے ہیں؟۔۔نادر گوپانگ

یونیسف کی  ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 14 میں سے ایک بچہ ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مرجاتا ہے، پانچ سال کی عمر تک ہر11 میں سے ایک بچے کو موت نگل جاتی ہے. کل تعداد کا 45 فیصد غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی بڑھوتری بری طرح متاثر ہو رہی ہے. پانچ سال سے کم عمر کے 62 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں. صاف پانی کی عدم موجودگی، نکاسی آب کےلئے مناسب انتظام نہ ہونے اور صفائی  ستھرائی  کے مسائل کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریاں روزانہ سینکڑوں بچوں کی موت کا سبب بنتی ہیں

جہاں تک سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کا سوال ہے، تقریبا 70 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں، جو پنجاب میں 31 لاکھ، سندھ میں 19 لاکھ، بلوچستان 5 لاکھ ساٹھ ہزار اور خیبر پختونخوا میں 4 لاکھ 80 ہزار ہیں، جن کا 55 فیصد لڑکیوں پر مشتمل ہے،

ہزاروں بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں جس میں اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے، اور زیادتی کرنے والے زیادہ تر جان پہچان والے یا رشتہ دار ہوتے ہیں. پاکستان جیسے پسماندہ معاشرے میں گھروں، سکولوں اور کام کی جگہوں پر لاکھوں بچے جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں جن میں اکثر واقعات کو تو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا ہے.

یہ پڑھیں  درندگی کیسے ختم ہوگی ۔۔محمد نذیر ناصر

اوپر بیان کئے گئے اعدادو شمار کی محدودیت کو دیکھتے ہوئے ہم بخوبی واقف ہیں کہ اصل حققائق اس سے کہیں زیادہ تلخ اور خوفناک ہیں. ان تمام مسائل کی وجوہات میں غربت، بیروزگاری، مہنگائی ، تعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی، ہسپتالوں کی شدید کمی، صحت کی معیاری سہولیات کا نہ ہونا،پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، نکاسی آب کےلئے بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی، ماحول کی آلودگی، نفسیاتی انتشار اور شعور کی کمی وغیرہ شامل ہیں.

کسی بھی معاشرے میں جب بچوں کو زندہ رہنے کےلئے خوراک  میسر  نہیں ہوگی، اس ہولناک کیفیت سے بچ جانے والوں کو تعلیم جیسی بنیادی ضرورت مہیا نہیں کی جائے گی اور اکثریت کو چائلڈ لیبر جیسی دوزخ میں جھونک دیا جائے گا، جہاں انسان کے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی معمول ہو اور لاکھوں بچے روزانہ کی بنیاد پر نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوں، وہ معاشرہ صحت مند اور باشعور نسل پیدا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ بچپن سے جو انسان اتنے گھمبیر حالات میں پروان چڑھ رہا ہو اس کی نفسیاتی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے. مذکورہ بالا بچوں میں سے ہی کچھ بڑے ہو کر سماج سے اپنا بدلہ دوسرے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، سماجی برائیوں اور دوسرے گھمبیر اقدام اٹھا کر لیتے ہیں، اب تو ہمارے سماج میں مرغیاں تک محفوظ نظر نہیں آتیں.

ایک حالیہ  خبر کے مطابق قصور میں ایک معصوم بچی کو اغوا کرنے کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر بے رحمی سے قتل کر دیا گیا، اپنی نوعیت کا یہ اکلوتا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سماج میں روزانہ کی بنیاد پر جبر اور زیادتی کی داستانیں رقم کی جاتی ہیں جن سے معاشرتی بگاڑ اور ہیجان کی کیفیت اپنا اظہار واضح طور پر کرتی ہے، اس طرح کے کسی بھی سانحے کے بعد فوری ردعمل کے طور پر مجرم کو گالیاں دے کر، ظالم، سفاک اور جانور کہنے کے بعد سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس ضمن میں قوانین کو مزید سخت کرنے کی بات کرتے ہوئے اگلے سانحے تک چپ سادھ لی جاتی ہے، لیکن کبھی بھی اس طرز کے سانحوں کی اصل وجوہات کو اپنا موضوع سخن نہیں بنایا جاتا کیونکہ اس کام سے موجودہ خونی نظام کی زوال پذ یری اور وحشت عیاں ہوتی ہے جس سے اقلیتی طبقے کے مفاد کو خطرہ لاحق ہوتا ہے.

پاکستان جیسے زرخیز اور وسائل سے مالا مال ملک میں اگر لاکھوں بچے سالانہ غذائیت کی کمی کا شکار ہو کر مر جائیں اور جدید ترین سائنسی ترقی کے باوجود صحت، تعلیم، رہائش اور صاف پانی کی سہولتوں  کو ترسیں تو اس سب میں قصوروار کون ہے؟ وہ لوگ جو اپنی بنیادی ضروریات کےلئے سسک رہے ہیں؟ وہ بچے جو اس معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں؟ وہ خواتین جو ہر لمحہ جبر کا شکار ہیں؟ وہ مزدور جو فیکٹریوں میں دن رات اپنا خون جلاتے ہیں؟ وہ انسان جو دیار غیر میں محنت کی بھٹی میں جلتے ہیں؟

کوئی  بھی نظام لوگوں سے وجود میں آتا ہے، اگر لوگ محفوظ نہ ہوں، بنیادی حقوق کے لئے تڑپ رہے ہوں، بنیادی ضروریات کی خاطر سسک رہے ہوں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود صدیوں پرانہ طرز زندگی جینے پر مجبور ہوں تو اس نظام کی جتنی بھی خوبیاں اور بڑائیاں گنوائی  جائیں اور اس کے وجود کو برقرار رکھنے کےلئے جتنی توجیہات پیش کی جائیں ایسا نظام ایک انسان کے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہی خونخوار بھیڑیاکئی  ارب لوگوں کی زندگیوں کو مال مفت دلِ  بے رحم کی طرز پہ نوچ رہا ہے. اسی سرمایہ دارانہ نظام میں چند لوگ سرمایہ کی بنیاد پر باقی ماندہ عوام کا استحصال کرتے ہیں.

میرے نزدیک اس کشت وخون اور تباہی کا ذمہ دار وہ اقلیتی طبقہ ہے جو ذرائع پیداوار پر اپنا کنٹرول ہونے کی بنیاد پر اپنے بچوں کو تو اس آگ سے ہزاروں میل دور  شاہانہ معیار زندگی سے نوازتا ہے تاکہ وہ بڑے ہوکر اپنے پرکھوں کی طرح ان زندہ لاشوں کو نوچ نوچ کر اپنے لئے سامان عیاشی حاصل کریں اور اپنی  ہوس کی آگ کو مزید بڑاھاوا دے سکیں.

یہ سب بچے جو مر رہے ہیں، بلک رہے ہیں، زیادتیوں  کا نشانہ بن رہے ہیں، اس اکثریتی طبقے کے بچے ہیں جو اپنی محنت کے بل بوتے پر وسائل فطرت کو انسانی ضروریات کی تکمیل کےلئے کارآمد بناتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ ان کی زندگیاں کسی دوزخ سے کم نہیں ہیں اور ان کے پھولوں کو آگ میں جھونکا جا رہا ہے، لیکن آخر کب تک  ایسا ممکن ہے؟ جب ہاتھ بول اٹھے تو پھر؟

Advertisements
julia rana solicitors

سارے مظلوموں سے ناطہ ہے ہمارا بیدل
سارے مظلوموں کے بچے ہیں ہمارے بچے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”یہ بچے کس کے بچے ہیں؟۔۔نادر گوپانگ

Leave a Reply