زائرین کی کثرت اور کچھ منظم کرنے کے واسطے حرم کی انتظامیہ نے ریاض الجنہ میں داخلے کو ایک ایپ سے منسلک کر دیا ہے ۔ یہ نسک ہے جو مناسک سے نکلا ہے ۔ اس پر اپنے پاسپورٹ ، ویزے کی معلومات درج کر کے آپ یہاں داخلے کا حق رکھتے ہیں ۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ بنا دھکم پیل کے آپ یہاں اپنی باری پر آ سکتے ہیں لیکن مجھے نہیں یقین کہ ناخواندہ افراد اس سبب کسی آزار سے محفوظ رہ پائیں ۔ کیونکہ ہر کوئی موبائل ایپ اور سمارٹ فون نہیں رکھتا اور نہ ہی ہر کوئی اتنا خواندہ ہوتا ہے ۔ اب اس کا متبادل کیا ہے ؟ میرے علم میں نہیں لیکن اس پہلو کو انتظامیہ کی نگاہ میں ہونا چاہیے ۔
میری نسک پر بکنگ نمازِ مغرب کے فوراً بعد کی تھی سو میں نماز پڑھ کر اس طرف چل دیا ۔ وہاں لمبی لائن لگی ہوئی تھی لیکن زیادہ وقت انتظار نہ کرنا پڑا ۔ قطار کے آخر میں ایک سپاہی موبائل پر بکنگ کی تصویر دیکھ رہا تھا اور لوگوں کو آگے بھیج رہا تھا ۔ تھوڑا آگے دو احاطے بنے ہوئے تھے جن میں ہم کو بند کر دیا گیا ۔ ایک نوجوان سب میں نائیلون کے بنے لفافے بانٹ رہا تھا جو جوتے رکھنے کے لیے تھے ، کہ مقام ادب تھا جہاں کے ہم اب مسافر تھے ۔ اور ایک نوجوان آب زمزم پلا رہا کہ بہترین میزبانی تھی ۔
اب انتظار تھا کہ اندر گئے زائرین کا جی بھرے اور ہم جائیں ۔ دعاؤں مناجات میں یہ وقت گزر رہا تھا اور ساتھ ساتھ شوق بھی سوا ہو رہا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں اذن ہوا کہ آئیں حضور عشق میں آپ کی پیشی ہے ، اور ہم کہ بے تاب لپکے ۔ زائرین قطار اندر قطار ، وفور شوق سے ریاض الجنہ کی جانب چلے جا رہے تھے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة”(رواه البخاري :1196ومسلم :1391)
”میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے”۔
یہاں پر نوافل ادا کرنا ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے سو انتظامیہ میسر جگہ کے اندازے سے اتنے اتنے افراد کا گروہ اندر بھیجتی ہے کہ وہ سہولت سے اپنی اپنی عبادت کر سکیں ۔
میں اندر پہنچا تو ہزار خیال جی میں تھے لیکن وہ جب سامنے آئے تو کچھ بھی نہ کہا گیا ۔ میں نے دو نفل پڑھے اور ایک ستون کی اوٹ میں بیٹھ گیا کہ مجھے اس ہجوم میں بھی تنہائی کی تلاش تھی ۔ وہ تنہائی کہ جس میں میرے حضور کے سوا کوئی دوسرا نہ ہو ۔ سعدی نے کہا تھا :
میانِ عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست
تو خود حجابِ خودی حافظ از میاں بر خیز ¢
ایسا سکوت چاہیے تھا کہ جہاں آپ اپنے سانس کی آواز بھی سن سکیں ۔ ایک ستون کی اوٹ میں بیٹھ کے میں نے دو نفل پڑھے اور بیٹھ گیا ۔ دیکھ رہا تھا کہ وہاں پہ اکثر حجاج مسلسل نفل ادا کر رہے تھے لیکن میں نے دو نفل پڑھے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے ۔پھر میں جتنی دیر وہاں بیٹھا رہا ، باتیں ہی کرتا رہا ۔ میں کہ ڈیڑھ ہزار سال پیچھے جا چکا تھا۔ یہ بجلی کے قمقمے ، یہ سنگ و آہن کی تعمیرات ، یہ سب خوبصورت طرز تعمیر ، انتہائی قیمتی غالیچے ، سب کھو چکے تھے اور میں سب سے ماوراء وقت کی لہروں کے دوش پر سفر کرتا ہوا ڈیڑھ ہزار سال پیچھے ایک کچی مسجد میں جا بیٹھا تھا ۔
مجھے یہ ذوق و شوق کی تعمیر سے زیادہ اس کچی مسجد کی تلاش تھی ، وہ کچی مسجد کہ اس میں کہیں بلال کے قدموں کی چاپ آئے ، کہیں کسی بات پر عمر کی پرجوش آواز بلند ہو ، کسی کونے سے ابوبکر کا حلم مہربان ہو کے سایہ فگن ہو ۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)
مجھے تلاش تھی اس محبوب کے وجود سے بکھرتی نکلتی مہکتی خوشبو کی کہ جو میرے اندر کے ماحول کو بھی معطر کر دے ۔ میں اس کچی مسجد میں جا بیٹھا کہ جیسے میرے بائیں ہاتھ ستون اب کھجور کے تنے کی صورت میں ایستادہ تھا اور میں وہاں تنہا بیٹھا ہوا تھا ۔
میں اس خوشبو کو آج اپنے اندر سموئے جاتا تھا کہ جس کے ذکر سے ہمارے دل روشنی پاتے ہیں ، ہماری روح نمو پاتی ہے ۔
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو.
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیں تو ہو.
مجھے اپنے دوست یاد آ رہے تھے ، مجھے اپنے عیال یاد آ رہے تھے اور اپنا آپ یاد آ رہا تھا جو سب پیچھے چھوڑ آیا ۔ میں صدیوں کی مسافت طے کر کے اتنی دور چلا تو آیا لیکن اب اس کچی مسجد میں پہنچ کر ، اپنا وجود ایک دم جیسے اجنبی سا ہو گیا ۔ اپنے گناہوں کا احساس ندامتوں کی چادر بن کر میرے گردا گرد لپٹے جا رہا تھا ۔ میں نے سوچا وآپس نکل جاؤں میں اس کرم کے کہاں قابل تھا کہ یہاں چلا آیا ۔ پھر جیسے مہربان نرم پروا نے مجھے سمیٹ لیا کہ
” چل پاگل تو اتنا بھی نہیں جانتا کہ تو کہاں آیا ہوا ہے ” ۔
یہ تو وہ تھے کہ جب طائف میں پتھر مارے گئے اور جسم لہولہان تھا ، سر کی چوٹی سے بہتا لہو پاؤں کی ایڑی تک جا پہنچا ، ایسے میں پہاڑوں کے فرشتے آئے اور کہا :
” سرور کائنات آپ کہ اس کائنات کی زینت ہیں ، آپ ایک بار حکم تو کیجئے اس بستی کو اس کے مکینوں سمیت انہی دو پہاڑوں کے بیچ میں دفن کر دیں گے ”
لیکن اس بہتے لہو کی لالی سے بھی اس روز محبت کی خوشبو پھوٹی تھی ، یہ کہا اور آگے کو چل دیے کہ :
” نہیں مجھے یقین ہے ایک روز یہاں سے تکبیر و تحلیل کی آوازیں بلند ہوں گی ، اللہ میری اس قوم کو ہدایت دے ، دراصل یہ مجھے جانتے نہیں ”
نرم مہربان خوشبو نے مجھے سب غم بھلا دیے ، میں جو ابھی ابھی فقیر تھا ، تہی دامن تھا اور خالی جیب تھا ، پل بھر میں امیر ہو گیا ، میری جھولی بھر گئی ۔
میرے ہاتھ بلند تھے کہ جب اس دیالو کی بارگاہ میں ہوں کہ جس کے حبیب نے اس چھوٹے سے ٹکڑے کو جنت کا باغیچہ قرار دیا تو میں بھی کیوں نہ اپنا دامن بھر لوں ۔ میں اپنے لیے مانگ رہا تھا ، میں اپنے اہل و عیال کے لیے مانگ رہا تھا ، میں اپنے یاروں کے لیے مانگ رہا تھا ۔ اپنے ہندی دوستوں کے لیے مانگ رہا تھا کہ جو مجھ سے بچھڑے اور دور ہیں ۔ سارے نفل پڑھ رہے تھے اور میں نے تمام وقت میں ہاتھ بلند کیے ۔ صرف اپنی خالی دامن کو بھرنے کی فکر کی ، میرے پرلے درجے کا لالچی ثابت ہوا ، مکمل حریص ، بھلا کیوں نہ ہوتا ۔
کافی وقت بیت چکا تھا ۔ یقیناً سپاہیوں کو فکر تھی کہ باہر بھی لوگ انتظار کر رہے ہیں ، سو انہوں نے آوازیں لگانا شروع کر دیں کہ اب سب لوگ باہر جائیں ۔ میں کہ ایک ستون کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا سو مجھے کچھ وقت زیادہ مل گیا حتی کہ خود مناسب سمجھا کہ اٹھنا چاہیے کہ پچھلوں کا بھی حق ہے ۔ لیکن اب میں خالی ہاتھ نہیں جا رہا تھا کہ ہفت اقلیم کے خزانے میرے دامن میں تھے ۔
سامنے مصلئ رسول تھا ، میں کچھ دیر وہاں کھڑا رہا ۔ ترکوں کے دور کی تعمیرات کو سعودی حکومت نے برقرار رکھا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہاں اتنے رنگ تھے کہ میرا جی تھوڑا سا الجھا ۔ مکہ میں شاہ فہد کا طرز تعمیر یاد آ رہا ہے کہ جس میں سادگی اور وقار تھا ۔جتنی دیر میں ریاض الجنہ میں بیٹھا رہا یہ احساس بھی طاری رہا کہ کاش یہاں پہ سارا کچھ بہت سادہ سا ہوتا ۔ اس میں کچھ قدامت ہوتی بھلے ساتھ کچھ سہولیات کی جدت بھی ہوتی ۔ میں نے کچھ تصاویر لیں اور اسی ارادے سے لی کہ اپنا یہ نکتہ نظر دوستوں کے سامنے رکھوں گا ۔ ممکن ہے کہ آپ بھی اس کی تائید کریں ۔
باہر نکلنے کا راستہ اس چھوٹی سی محراب کے ساتھ والا دروازہ مقرر کیا گیا تھا جس کو عموماً لوگ مصلیٰ رسول اللہ کہتے ہیں ۔ جبکہ مصلیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ محراب نہیں بلکہ محراب کے دائیں ہاتھ چھوٹے سے ستون پر سیاہ رنگ کی پٹی بنی ہوئی ہے ۔ جس پر مصلیٰ رسول اللہ لکھا ہوا ہے ، دراصل یہی وہ مقام ہے کہ جہاں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر زمانوں کے اماموں کی امامت کیا کرتے تھے ۔ میں نے وہاں کھڑے محافظ کو کہا کہ ازراہ کرم تھوڑا سا پرے ہٹ جائے کہ میں نے اس مقام کی اپنے موبائل سے تصویر بنانی ہے ۔ عموماً ان کو اس طرح کی فرمائشوں کی عادت نہیں ہوتی سو اس کے لیے تھوڑی سی حیرت کا سامان تھا ، لیکن اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے میری بات کو تسلیم کیا اور اپنا مقام چھوڑ دیا ۔ میں نے سہولت سے وہاں کھڑے ہو کر اس مقام کی تصویر بنائی ۔
دروازے سے باہر نکلے تو ہمیں بائیں طرف جانے کا حکم ہوا ، سب حاجی بائیں طرف کو ہی باہر نکل رہے تھے ۔ کچھ ہی قدم آگے ہمارے ساتھ ساتھ رسی کی بنی ایک رکاوٹ چلنا شروع ہو گئی ۔ اب ہم دیوار سے قریباً چار فٹ کے فاصلے پر چل رہے تھے یہ وہ جالیاں آ گئیں کہ جن کے پیچھے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم محو اصطراحت ہیں ۔ آپ کی قبر مبارک ہے اور آپ کے پہلو میں آپ کے یار لیٹے ہوئے ہیں ۔
وہاں رکنا اور ٹھہرنا مشکل ہوتا ہے اور مسلسل وہ آپ کو چلا رہے ہوتے ہیں ۔ جو بات کرنی ہے چلتے چلتے کرنی ہے ، یہ آپ کا کام ہے کہ اپ نے ان چند لمحوں کو کیسے صدیوں پہ پھیلانا ہے ۔ میں نے سلام کیا ، درود پیش کیا اور جیسے چہرہ چھپا لیا اپنے گناہ گار ہونے کا احساس کہاں سر اٹھانے دیتا ہے۔
یہ سیدہ عائشہ کا حجرہ تھا ، میری ماں کا گھر تھا ۔ رسول بیمار ہوئے تو اپنی بیویوں سے چاہا کہ اب کسی ایک گھر میں قیام کرے اور من کی چاہت تھی کہ وہ عائشہ کا گھر ہو ۔ وہ رسول کی اپنی عائش کا گھر ہو ۔ بیبیاں بھی رسول کی بیویاں تھیں اور اللہ نے ان کو رسول کی بیویاں بنایا ہی اس لیے تھا کہ عقل و فہم و شعور میں بھی وہ اس زمانے میں یکتا تھی ، سو انہوں نے رسول کی خواہش پر صاد کیا اور سیدہ عائشہ صدیقہ کا گھر رسول کو خوش آیا ۔
بیماری زیادہ ہو گئی ۔ سیدہ کے بستر پر آپ نیم دراز تھے ۔ سیدہ بیٹھی ہوئی تھی اور آپ نے ان کے وجود سے اپنے جسم اطہر کی ٹیک لگائی ہوئی تھی ۔ سیدہ کے گھر میں مختلف اصحاب موجود تھے کہ کسی کے ہاتھ میں مسواک دکھائی دی ۔ رسول اطہر کہ پاکیزگی کا آپ استعارہ تھے ، اس خرابی طبع میں بھی ہاتھ کے اشارے سے مسواک طلب کی ۔ سیدہ نے اپنے دانتوں سے چبا کر نرم کی اور رسول اطہر و مطہر کو دی ۔ سیدہ ناز کیا کرتی تھیں کہ میں وہ خوش نصیب کہ جس کا لعاب وہ آخری شے تھی جو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جزو بدن ہوئی ۔
میں روضے کی ان جالیوں کے سامنے چلتا چلتا چند قدموں میں صدیوں کی مسافت طے کر چکا تھا ۔ خمار بارہ بنکوی کا مصرع ہے
اک پل میں اک صدی کا مزہ ہم سے پوچھیے
میں صدیوں کا مسافر تھا ، رسول دنیا سے رخصت ہوئے تو اصحابِ رسول کے مابین اس بات پر تبادلہ خیال ہوا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے ۔ اس پر زمانے کے صدیق نے کہا کہ رسول نے فرمایا تھا کہ
” انبیاء جہاں وفات پاتے ہیں وہی جگہ ان کی ابدی قیام گاہ ہوتی ہے” ۔
سیدہ عائشہ کے نصیب کھل گئے کہ رسول رخصت ہو کے بھی ان کے گھر سے رخصت نہ ہوئے ، سیدہ عائشہ کے حجرہ پاک میں رسول مکرم کو دفن کیا گیا ۔ اس کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر کی وفات ہوئی تو انہوں نے ام المومنین اور اپنی بیٹی سے خواہش ظاہر کی کہ ان کی تدفین یہاں کی جائے ۔ سیدہ کے باپ تھے اور رسول کے یار غار ، کسی کو کیا انکار ہوتا ۔۔۔۔۔
کہ مدتوں یہ عالم رہا اور اسی عالم رسول دنیا سے رخصت ہوئے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پہ یہ کلمہ ہوتا تھا :
” میں آیا میرے ساتھ ابوبکر آیا اور میرے ساتھ عمر آیا ”
” میں گیا ، میرے ساتھ ابوبکر گیا میرے ساتھ عمر گیا ”
” میں بیٹھا ، میرے ساتھ ابوبکر بیٹھا میرے ساتھ عمر بیٹھا ”
کس روز یہ جدا ہوئے تھے کہ اب جدا ہوتے ۔ سو اب ابوبکر بھی اس گھر کے مکین ہوئے ۔ ادھر سیدہ عائشہ نے دل میں چاہت پال لی کہ چلو ان کے خاوند ، مجازی خدا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے والد مکرم یہاں ہیں تو دم رخصت میں بھی ادھر ہی رہ جاؤں گی ، لیکن فیصلے تو اوپر ہوتے ہیں ۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ پر حملہ ہوا زخمی ہوئے سارا مدینہ آنسوؤں میں ڈوب گیا ۔ طبیب نے دودھ پلایا تو گلے سے اترا انتوں سے نکل گیا ۔ پیٹ کٹا ہوا تھا، سب سیانے جان گئے کہ عمر کا دم رخصت ہے ۔ پھر زخمی زخمی عمر بن خطاب نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو کہا کہ:
ام المومنین عائشہ صدیقہ ہاں جائیو ، اور جا کے سلام کہیو …اور کہنا کہ :
سیدہ ! دم رخصت ہے اور عمر بن خطاب کا جی چاہتا ہے کہ اپنے دوستوں کے ساتھ جا بسرام کرے ، انہی کے قدموں سے قیامت کے روز اٹھے ۔۔
علم کے امام ، تقوے کے پہاڑ ، لائق ترین باپ کے لائق ترین فرزند ،عبد اللہ بن عمر چہرے پر ہزار غم سجائے حکم کی تکمیل کو چل دیے ۔۔
“بات سنو ! ہاں بات سنو … یہ نہ کہنا کہ امیر المومنین نے کہلا بھیجا ہے ، کہنا ” عمر نے ایسا کہا ہے ..”
ہاں کہنا ! آقا کے پہلو میں ، ایک کونے میں اس فقیر کو بھی جگہ مل جائے تو عمر پر عمر بھر کا احسان رہے گا ”
عبد اللہ گئے ….. دیکھا کہ مومنوں کی ماں ، سیدہ کائنات ، نبی کی عزت اور ناموس ، آسمان دنیا میں سب سے زیادہ ذی علم خاتون، خاتون جنت ، سیدہ عائشہ رو رہی تھیں –
ہاں مدینے میں خبر عام ہو چلی تھی کہ کوئی دم جاتا ہے مسافر رخصت ہونے کو ہے ،
قافلہ شوق کی رخصت کا بگل بج چکا ..سو اسی غم میں آج مومنوں کی ماں بھی رو رہی تھیں –
عبد اللہ بن عمر نے جا کے عرض گذاری …سیدہ نے روتے روتے بس اتنا کہا :
“آقا دنیا سے رخصت ہوئے ، میرے ہادی میری مہدی رخصت ہووے ، ان کے پیچھے میرے والد ابوبکر بھی رخصت ہوئے … دوست تھے دوست رہے قیامت کو ساتھ اٹھیں گے ۔۔دل تھا کہ میں بھی انہی کے پہلو میں جا کے سو رہوں گی یہ ایک بندے کی جگہ میں نے اپنے لیے رکهی ہوئی تهی ۔۔ہاں میرے عظیم خاوند جب رخصت ہوے تو ان کا سر میرے سینے پر تھا اور وجود میری گود میں ..ہاں نا ، میرا جی تھا نا کہ اس محبت کے قرض کو وصول کیا جاتا کہ قیامت کا قیام ہوتا ، میرے حضور اپنی قبر اطہر سے اٹھتے ، اب کے ان کا پہلو ہوتا ان کا وجود ہوتا ، اور مجھے ان کا سہارا ہوتا …لیکن کیسے روک سکتی ہوں عمر کو ..ہاں کیسے منع کر سکتی ہوں ۔
ہاں ہاں آقا کہا کرتے ….. میں گیا میرے ساتھ ابو بکر گیا ، عمر گیا ..میں نکلا میرے ساتھ ابوبکر نکلا ، عمر نکلا ….اس ساتھ کو بھلا میں کیسے توڑوں …. جائیے جا کے اپنے والد کو ، ہمارے امیر کو کہیے کہ آقا کا پہلو آپ کا ہوا … ”
عبد اللہ واپس پلٹے ، دیکھا والد ایسے امید وا نظروں سے منتظر کہ جیسے زمانے میں ان سا فقیر کوئی نہ ہو ..ہاں آقا کا پہلو مل جائے تو زمانے بھر کی فقیری قبول ہے یہ دو گھڑی کی فقیری کی بھلا کیا بات ہے-
خبر نہیں خوش خبری تھی۔ ایک دنیا کی جان جس کے رعب کے سبب حلق میں اٹکی ہوتی تھی آج اس کی جان سیدہ عائشہ کے جواب کے انتظار میں حلق میں آ چکی تھی ..بیٹے نے ، فرمان بردار بیٹے نے آ کے خبر سنائی :
“اماں نے آپ کی بات کو قبولیت دے دی ہے ”
صدیوں کی اس مسافت سے میں واپس آیا اور محبتوں کی ان چادورں میں خود کو لپیٹے مسجد سے نکل دیا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشق اور معشوق کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے اے حافظ تو خود اپنے لیے اپنا پردہ ہے سو درمیان سے اٹھ جا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں