کلام آخری ہے

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں
جناب والا
نیاز قبول فرمائیے ایک خستہ اور افسردہ دل کا نیاز! آہ
میرے مرجعِ ارمان۔ میں اُداس ہوں۔ آہ!تم سب کے لئے اُداس ہوں۔ میرا دل بے قرار ہے۔ طبیعت مضمحل ہے اور دماغ پراگندہ۔
اُٹھتے۔ بیٹھتے۔ سوتے۔ جاگتے ۔ یہ سوچتا ہوں کہ کیا اب ہم سب بچھڑ جائیں گے ۔ ہائے کسی طرح۔ کسی طور جی نہیں بہلتا۔ کاش! کہ آپ سب مجھ سے نہ ملے ہوتے۔ کاش! کہ میں آپ سب سے نہ ملا ہوتا۔ اُف! آپ کو چھوڑ کر جانے کو جی نہیں چاہتا آپ سب کو میں نے اپنے دل میں جگہ دی ہے اب چھوڑ کے جا رہا ہوں تو تکلیف ہوتی ہے جیسے میرے بدن کا کوئی حصہ مجھے سے دوری اختیار کر گیا ہو، گر یہ تکلیف کم نہ ہوئی تو میں شاید چند ہی دن کا مہمان لگتا ہوں ۔
میری کہانی تو کچھ یوں ہے کہ پیدا ہوتے ہی مدرسے کی آغوش میں چلا گیا۔ چار پانچ سال کیسے کٹے اب سوچتا ہوں تو چند لمحوں کی داستان لگتی ہے ۔ اساتذہ اور ساتھیوں کی محبت آج بھی سینے کے پہلو میں محسوس کرتا ہوں ۔ مجھے یاد ہے میں نے ہر بار جاتے جاتے ماں کے چہرے آنسووں کی لڑیاں بہتے دیکھیں ۔ آنسووں اور دعاوں کی برسات میں ماں ماتھا چوم کر سینے سے لگاتی اور رخصت کرتی ۔ والد صاحب بیگ کندھے پر اٹھائے بس اڈے تک ساتھ چلتے ۔ ماؤں کو اظہار کا سلیقہ آتا ہے وہ اپنا سب کچھ دعاوں اور آنسووں کی زباں میں کہہ ڈالتی ہیں۔ باپ ایسے نہیں ہوتے ، ان میں مردانہ رکھ رکھاو کہیں نہ کہیں ہوتا ہے۔ خدا کی قسم ہر بار ان کی آنکھوں کے کناروں میں نمی تیرتی نظر آئی مگر گاڑی چلنے تک کچھ گم سم سے ساتھ بیٹھتے ۔ گاڑیوں کی ٹائمنگ ، گاڑی کی کنڈیشن اور دیگر چیزوں پر بات کرتے ، گاڑی چلنے لگتی تو سینے سے لگاتے جیب خرچ کا پوچھتے کم تو نہیں دیا؟ جاتے ہی فون کر دینا اور پھر گاڑی چلنے لگی ….
یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی محبتوں کے سندیسے بھیجنے کا دور ختم نہیں ہوا تھا ۔ چٹھی بھیجنے کا صدیوں پرانا نظام قائم تھا ۔ کاغذ پر پوروں کی لمس محسوس ہوتی تھی ۔ کاغذ کی ہر تہہ میں ماں کا پیار بھرا نظر آتا تھا۔ کتابوں میں خشک پھولوں کے ساتھ خطوں کے تہہ در تہہ لفافے اور ورقے بھی برآمد ہوتے تھے ۔ ایسے کچھ ساتھیوں کے خطوط آج بھی کسی یاد گار کی طرح میرے پاس محفوظ ہیں ۔ برقی میسج کے دور والے کیا جانیں جگجیت کی آواز میں “چٹھی نہ کوئی سندیس ، جانے وہ کونسا دیس ، جہاں تم چلے گئے “کا اصل سرور ۔ جدید دور کی سہولیات اور تیز رفتار دنیا کی اپنی ایک شان ہے مگر
کلاسیکل محبتوں کا اپنا ایک ذوق ہوتاہے ۔یہ تو تھیں وہ باتیں جو میں صرف خود سے ہی کرتا رہتا ہوں ۔ الوداعی کا عَلم تو میں برسوں سے تھاما ہے جب میں فرسٹ ایئر میں آیا تھا تب معلوم نہ تھا کہ یہ دو سال آپ سب کی نظر ہونگے۔آپ سب سے مجھے کافی پیار ملا اور یہ یادیں سرہانے رکھ کر سوؤں گا جب تک جان میں جان ہوگی تب تک اُس کے بعد تو خود مجھے اَپنی خبر تک نہیں ہوگی۔

اِن دو سالوں سے جڑی یادیں تو بہت سی ہیں پر مختصر بیاں کرتا چلوں کہ احمد کی حرکتیں یا لطیف کی لطف سے بھری شرارتیں مجھے یاد رہیں گی ہاں یاد رہیں گی بھائی عامر اور اشفاق نے بھی ہمیشہ محبت کی نظروں سے دیکھا اور ہاں سحر تم مجھے خان یا حافظ کے نام سے بُلا سکتی ہو میں غصہ نہیں ہونگا میری طرف سے تمہیں اجازت ہے، فضا اور حنا سے بھی مجھے کوئی شکایت نہیں البتہ حنا کو شکایت ہوگی مجھ سے کہ اَن کی دوستی میں خلل پیدا کرتا ہوں، ایسی بات ہے تو بندہِ ناچیز معافی کے لئے دونوں ہاتھ باندھ کر گڑگڑا کر معافی مانگتا ہے . سائما اور پینکی نے مجھے کافی کچھ سکھایا اور میرے ہر کام آئیں اور اب ارم کے لئے بولوں گا کہ انساعزرائیل کو نہیں دیکھ سکتا پر ارم کو دیکھ لے تو یہ کمی کچھ حد تک پوری ہوجاتی ہے اور گر میرے بچے ہوئے تو اُن کو ڈرانے کے لئے ارم نام میری مدد کرے گا (میں دل و جان سے آپ سب کا مشکور ہوں اور آپ سب سے معافی مانگتا ہوں گر کوئی تلخ کلامی کی ہو تو گر کسی کا دل دُکھایا ہو تو گر کسی کو تکلیف دی ہو تو اُس سے معافی مانگتا ہوں جب تک زندہ ہیں خوش وسلامت رہیں
اب میرا عریضہ آخری منزل میں ہے۔ قلمِ حسرت رقم نے اپنا ماتم ادا کر دیا۔ زبانِ نالہ بیان اپنی داستانِ درد سُنا چکی۔ دلِ درد مند اپنے پارہ ہائے خونیں کی نمائش سے فارغ ہو چُکا۔ آنکھیں اپنے فریضۂ خوں باری سے عہدہ بر آہو گئیں۔ روحِ بیقرار اپنے ماتم کی شرح سوز و ساز پیش کر چکی۔ جذباتِ حزیں نے اپنی ہلاکتوں کے افسانے دہرا دیے۔ حسرت و تمنّا کو اپنے شیون کے اظہار کا موقع مل گیا۔ اُمید و آرزو اپنے قتل و ذبح کی سفاکانہ تاریخ کے مناظر دِکھلا چکیں۔ شبابِ سوختہ اپنی سوگواریوں اپنی ماتم گساریوں کے نقوشِ حسرت ثبت کر چکا۔ محبّت نے اپنی دردمندانہ محشر ستانیوں کا مظاہرہ کر لیا اور سب سے آخر میں۔ آہ! میں رو چکا۔ اپنے آپ کو۔ اپنے دل کو۔ اپنے دماغ کو۔ اپنے نصیبوں کو رو چُکا۔ اور رو چُکا۔ آہ:
صبح ہونے کو ہے۔ مرغِ سحر کی آواز گونج رہی ہے۔ فضائیں۔ اُس نغمۂ صبح گاہی سے لبریز ہیں۔ میری بے خواب آنکھوں میں ایک مستی کی سی کیفیت چھا رہی ہے۔ سیاہی بہت پھیکی نظر ٍآ رہی ہے۔ الغرض عجیب سوز و گداز کا سامان ہے۔ مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ دعا کے لئے یہ وقتِ خاص ہے۔ اِس لئے۔ میری درد آشنا روح۔ ہاتھ اُٹھا۔ اور شاعر اعتبار ساجد کی ہم زُبان ہو کے خدائے حسن و محبت سے دعا مانگیں کہ کوئی کسی سے بچھڑا نہ کرے

کیا ضروری ہے کہ ہاتھوں میں ترا ہاتھ بھی ہو
چند یادوں کی رفاقت ہی بہت کافی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

لوٹ چلتے ہیں اسی پل سے گھروں کی جانب
یہ تھکن اتنی مسافت ہی بہت کافی ہے

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply