دونوں سیاسی قوتیں تیسری قوت کے بارے پریشان!

ایک ہیجان ہے جو انا کی مسند پہ بیٹھے افراد کو چین نہیں لینے دیتا۔ایک دوسرے کو زچ کرنے کی شعوری کوشش۔ہماری سیاسی تاریخ یہی ہے۔

پہلے پیپلز پارٹی اور نون لیگ ہوا کرتی تھیں۔نون لیگ کے کیمپ میں جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتیں عورت کی حکومت کے ناجائز ہونے کے فتوے دیا کرتیں،پیپلز پارٹی بھی الزامات کی سیاست کرتی تھی۔یہاں تک کہ ایک دوسرے کے سرکردہ سیاستدانوں پر سیاسی مقدمہ بازیاں بھی ہوئیں۔شیخ رشید اس وقت نون لیگ کے جارحانہ و دفاعی ترجمان ہوا کرتے۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان پہ کلاشنکوف کا مقدمہ بنا کر جیل ڈال دیا۔نون لیگ نے سیف الرحمان والا احتساب کمیشن بنا کر سیاسی انتقام کی حد کر دی۔ آصف علی زردای سالوں جیل میں رہے،پھر جنھوں نے مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا تھا انھوں نے ہی مرد حر بھی لکھا۔ عجیب معاشرتی تاریخ ہے ہماری۔

نئی سیاسی درجہ بندی میں نون لیگ اور پی ٹی آئی اس وقت آمنے سامنے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا معاملہ اور ہے،اس کی مفاہمت والی اور گاہے تھوڑی سی جارحانہ اپوزیشن کی وجوہات ہیں۔آج کل مگرپاکستان تحریک انصاف اور نون لیگ دونوں ایک دوسرے کے سیاسی مورچوں پر الزام تراشیوں کی گولہ باری کر رہی ہیں۔پی ٹی آئی اگرچہ شکوہ کناں ہے کہ سوائے شیخ رشید احمد کے اپوزیشن کی دیگر جماعتیں پانامہ ایشوز پر اس کی ہمنوا نہیں ہیں۔جبکہ پارلیمان میں اپوزیشن کی بڑی جماعت اور اپنا اپوزیشن لیڈر رکھنی والی پیپلز پارٹی اگرچہ اسلام آباد بند کرنے اور دھرنا دینے کے حق میں نہیں لیکن بلاول بھٹو سانحہ کارساز کے شہدا کی یادگاری تقریب سے خطاب کے دوران میں پانامہ ہی کے ایشو پر حکومت کو ایک مشروط پیشکش کر چکے ہیں۔ اگر اس پیشکش یا اس کے کسی پوائنٹ پر حکمران جماعت نے عمل نہ کیا تو پیپلز پارٹی بھی دسمبر میں لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہے۔پانامہ ایشو پہ پی ٹی آئی،جماعت اسلامی سپریم کورٹ بھی جا چکی ہیں اور پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ وزیر اعظم صاحب اور دیگر متعلقہ افراد و اداروں کو نوٹس بھی جاری کر چکی ہے۔جب کہ کیس عدالت میںہے اس کے باوجود دونوں طرف سے سیاسی حملے ایک دوسرے پر جاری ہیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ’ 2 نومبر کو احتجاج اس لیے کررہے ہیں کہ ہمارے دو مطالبے ہیں، یا تو نواز شریف پاناما لیکس میں سامنے آنے والے انکشافات پر حساب دیں یا پھر استعفیٰ دیں۔انہوں نے کہا کہ ’اداروں سے انصاف نہ ملنے کے بعد تحریک انصاف کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا اور اگر اس کے نتیجے میں کوئی تیسری قوت آگئی تو اس کے ذمہ دار نواز شریف ہوں گے‘۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’ہم 20 سال سے جدوجہد تیسری طاقت کو بلانے کے لیے نہیں کررہے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت کے میڈیا سیل نے فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جبکہ ہماری فوج ایل او سی اور سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے۔عمران خان نے مزیدکہا کہ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ 2 نومبر کا احتجاج تحریک انصاف فوج کی وجہ سے کررہی ہے اور دھرنے میں غیر ریاستی عناصر شریک ہوں گے۔‘‘

کیا یہ سچ نہیں کہ ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے،؟اگرکوئی یہ کہے کہ یا بات غلط ہے توبلا شبہ وہ زمینی حقائق سے انکار کر رہا ہے۔فوج اور حکومت پہلے ہی ایک دوسرے سے قدرے دوری پہ تھے کہ بیچ میں صحافی المیڈا کو خبر فیڈ کر دی گئی۔حکومت اس حوالے سے صحافی کوقصور وار ٹھہراتی ہے جبکہ فوج کا موقف یہ ہے کہ اس خبر کے ذریعے فوج کو بدنام کرنے اور غیر ریاستی طاقتوں کےفوج کے ساتھ گہرےتعلقات اور ان کی پشت بانی کا الزام فوج پر لگایا گیا ہے۔اس حوالے سے فوج کی اعلیٰ قیادت نے واضح بھی کیا کہ انھیں صحافی سے نہیں بلکہ خبر فیڈ کرنے والے عناصر سے مسئلہ ہے۔عسکری قیادت اس خبر سے اس حد تک پریشان ہوئی کہ کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی اس خبر پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کور کمانڈرز کی اس تشویش کو آرمی چیف نے وزیر اعظم تک پہنچایا بھی۔ اس خبر کی تحقیقات کا اعلان وزیر داخلہ نے چار دنوں کے اندر کرنے کا اعلان کیا جو حسب سابق اعلان ہی رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی دوران میں حکومتی وزرا یہ بر سر عام کہنے لگے کہ انتہا پسندی اور طالبان گری میں شہرت رکھنے والے مدارس اور ان کے زیر نگیں انتہا پسندانہ قوتیں پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے کے لیے افرادی قوت مہیا کریں گے۔ حکومت نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ غیرریاستی عناصر جو تشدد کی خوفناک تاریخ رکھتےہیں وہ اسلام آباد دھرنے میں اپنےجارحانہ رویے کا مظاہرہ کر کے خون خرابہ کریں گے۔پی ٹی آئی کا یہ اعلان کہ وہ سرکاری دفاتر کے باہر دھرنا دیں گےنیز سرکاری مشینری کو کام کرنے سے روک دیا جائے گا۔ وہ بھی بزور قوت۔قطع نظر اس سے کہ وزیر اعظم کو پانامہ ایشو پہ مستعفی ہونا چاہیے یا نہیں، جب کوئی سیاسی یا غیر ریاستی طاقت دارالحکومت میں دھرنا دے کر ریاستی و انتظامی مشینری کو جام کرنے کا اعلان کرتی ہے تو بے شک حکومت و انتظامیہ کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور نقل و حرکت کو یقینی بنائے۔یہ امر بھی واقعی ہے کہ جب المیدا کی خبر شائع ہوئی تو حکومت نے دو ہزار سے زائد شیڈول فورتھ میں شاملغیر ریاستی عناصر کے شناختی کارڈز اورپاسپورٹ معطل کر دیے۔اسمیں اگرچہ بیلنس پالیسی کے تحت کئی محب وطن اور پر امن شہری بھی دھر لیے گئے مگر یہ واقعہ بھی ہوا کہ کالعدم تنظیموں کے نمائندے اپنی معطل شہریت کے ساتھ وزیر داخلہ سے ملے اور پھر وزارت داخلہ کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ ’’مشتبہ دہشت گرد بھی ہمارے اپنے ہیں‘‘یہ سارے واقعات اور حرکیات اپنے ساتھ وجوہات رکھتی ہیں جو کسی نہ کسی طور المیڈا کی خبر اور 2نومبر کے دھرنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ حکومت ایشو پہ بات کرنے کے بجائے اتنا کہتی پائی جاتی ہے کہ عمران خان ترقی کے دشمن ہیں اور ’’سی پیک ‘‘میں عالمی سازش کا حصہ ہیں۔

سادہ بات مگر یہی ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے نشانے پر ہیں۔دو نومبر کا دھرنا اگر طاقت سے روکنے کی کوشش کی گئی تو ہنگامہ آرائی یقینی ہے کہ پی ٹی آئی پلان بی کا بھی اعلان کر چکی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی اگر اسلام آباد پہنچ کر ریاستی مشینری کو جام کرتی ہے تو بھی حالات کسی خوش کن انجام کا پتا نہیں دیتے۔سیاسی ہوائوں کا پیغام یہی ہے کہ انارکی اور طوائف المکوکی کی صورت خون بہتا ہے۔اللہ نہ کرے ایسا ہو۔البتہ اس سارے سیاسی دائو پیچ میں غیر ریاستی عناصر پھر سے ظاہری طور پر ایک فریق بن کر سامنے آگئے ہیں اور پی ٹی آٗئی و حکمران جماعت دونوں انھیں اپنانے کو بے چین ہیں۔انجام کیا ہو گا؟ قبل از وقت کہنا مشکل ہے مگر دھرنا اگر ہوا تو یہ طویل بھی ہو سکتا اور خون خرابہ ہوا تو کوئی سیاسی حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔اس کا ادراک بہر حال دونوں سیاسی جماعتوں کو ہے مگر انا دونوں جماعتوں کے لیڈروں کی بہت بلند ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply