• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • وی وی آئی پی موومنٹ کے دوران شہریوں کو تکلیف سے بچایا جائے،چیف جسٹس

وی وی آئی پی موومنٹ کے دوران شہریوں کو تکلیف سے بچایا جائے،چیف جسٹس

کراچی: وی آئی پی موومنٹ از خود نوٹس کیس  کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وی وی آئی پی موومنٹ چاہے کسی کی بھی ہو شہریوں کو  تکلیف سے بچایا جائے۔

ہفتے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے وی وی آئی پی موومنٹ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کرتے ہوا کہ خواجہ صاحب بتائیں کہ شہریوں کے حقوق کیا ہیں، ؟ سڑکوں کو بند کرنے سے متعلق شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس پر آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ وی وی آئی پیز کیلئے قوانین موجود ہیں۔

سماعت کے دوران آئی جی سندھ سے مکالمے میں چیف جسٹس نے کہا آئی جی صاحب میں بھی تو وہ وی آئی پی ہوں، میرے لئے تو سٹرک بلاک نہیں ہوتی،آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ کہیں سڑکیں بند نہیں ہوتیں، صرف موومنٹ کیلئے انتظامات کئے جاتے ہیں، ہم صرف 2منٹ کیلئے ٹریفک بند کرتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کیس نمٹا تے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ انتظامات ضرور کریں مگر شہریوں کو کم سے کم تکلیف نہ ہوں،وی وی آئی پی موومنٹ چاہے سیاسی رہنماؤں کی ہو یا کسی اور کی ،شہریوں کو تکلیف سے بچایا جائے،آپ ایسے انتظامات کریں جس سے شہریوں کو تکلیف نہ ہوں۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آپ حلف نامہ جمع کرائیں کہ مستقل سڑکیں بلاک نہیں ہوتیں،ہم آپ کے حلف نامہ کا جائزہ لیں گے، شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے، جس کے بعد عدالت نے ازخود نوٹس نمٹادیا۔

میڈیا سے گفتگومیں اے ڈی خواجہ کاکہنا تھاکہ وی وی آئی پی موومنٹ  کے دوران کم سے کم وقت تک ٹریفک کو روکا جائے گا، ووی آئی پی نقل وحرکت کے دوران سرکوں کی بندش پر سماعت تھی،غیرقانونی پارکنگ ہٹانےسے متعلق کوئی ہدایت نہیں ملی ساتھ ہی آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عہدہ چھوڑنے کا عندیہ دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ جانے کیلئے تیارہوں لیکن احکامات ملنے کے بعد جاؤں گا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply