کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، کل کے حریف آج کے حلیف ،یہ مفادات ممکنات اور مواقع کا کھیل ہے، انسانی نفسیات کی رو سے مختلف الخیال لوگ اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملا کر سیاسی گروہ اور پارٹیاں تشکیل دیتے ہیں اور پھر ملک کو چلانے اور عوام کی بھلائی کے منصوبوں پر مشتمل اپنے اپنے منشور بناتے ہیں، عوام میں ان کی تشہیر کرتے ہیں اور انہیں مقبول بنانے کے لئے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں اور سیاسی جدوجہد سے ملکی اقتدار تک رسائی حاصل کرکے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔جمہوری ممالک میں یہ ایک معمول کی مشق ہوتی ہے، پارٹیاں ایک دوسرے سے اختلاف منشور کے نکات کی بنیاد پر کرتی ہیں، شخصیات کی بنیاد پر اختلاف کو دشمنی کی حدوں تک نہیں پہنچایا جاتا۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں پارٹیوں کے منشور کی کبھی کوئی پابندی نہیں ہوتی ،سیاست دان اپنے پروگراموں کی بنیاد پر نہیں ایک دوسرے کی ذات کی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں، انتخابات کے موسم میں اپنی الیکشن مہم میں ملکی مسائل اور ان کے حل کی بات نہیں کی جاتی، بلکہ ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کی کمزوریاں اچھالی جاتی ہیں، نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اپنے مد مقابل کی نجی زندگی زیر بحث لائی جاتی ہے ،طعن و تشنیع اور ہر طریقے سے سیاسی مخالف کو برا بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام اپنے مسائل اور ان کے حل کی طرف سے آنکھیں بند کرکے اپنی پسند کے سیاست دان کے سحر میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ایک قوم کی بجائے واضح طور پر کئی گروہوں میں بٹ کر اپنی طاقت منتشر کر لیتے ہیں، ماضی میں عوام اسی فارمولہ کے تحت بھٹو اور اینٹی بھٹو گروہوں میں منقسم تھے ،یہ تقسیم ابھی چل ہی رہی تھی کہ اس میں عمران فیکٹر بھی داخل ہوگیا ،ساتھ ہی سیاسی مخالفت دشمنی اور نفرت تک پہنچ گئی، ملک میں الیکشن ہوچکے ہیں لیکن پارٹیوں کو ایسا منقسم مینڈیٹ ملا ہے کہ دوسری پارٹیوں کے اشتراک کے بغیر کوئی بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
حالات کی ستم ظریفی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو ایک دوسرے کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت بنانے کے لئے آپس میں تعاون کرتے ہوئے مشترکہ حکومت بنانے کی مجبوری لاحق ہے اور دونوں پارٹیاں اقتدار کے طاقتور عہدوں کے لئے کوشاں ہیں اور باقی ماندہ لوگ ان کی سابقہ مخالفت اور حالیہ الیکشن مہم میں بلاول کی نواز شریف کے خلاف زبان درازی کے پیش نظر چند مہینوں کے بعد ہی ان کی ساجھے کی ہنڈیا کو بیچ چوراہے پھوٹنے کی پیشین گوئیاں کرتے اور تمسخر اڑاتے دیکھے جارہے ہیں آنے والی حکومت کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات رکھنے اور قوم کا مورال بلند کرنے کی بجائے ابھی سے میڈیا کے لوگ دعوے کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ مخلوط حکومت ذیادہ دیر نہیں چلے گی بے شک ان دو پارٹیوں کی سابقہ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ یہ کبھی مل کر نہیں چلیں مگر۔۔
ملک اس وقت سنگین ترین حالات کے خوفناک گرداب میں جس بری طرح پھنس چکا ہے کیا اقتدار کی بندر بانٹ کرنے والے سیاست دانوں اور ان کا تماشا دیکھنے والوں کو کچھ اندازہ نہیں کہ اگر ان کی بے حسی اسی طرح قائم رہی تو ملک (خدا نخواستہ) کسی بڑے المیے سے دوچار ہوسکتا ہے اس گھمبیر صورت حال سے نکلنے کے لئے کیا پرانی مخالفتیں بھلا کر خلوص دل سے کوششیں اور اپنی اپنی پوری صلاحیتیں نہیں لگا دینی چاہئیں اور دور کھڑے ہوکر تماشا دیکھنے اور تمسخر اڑانے والوں کو ان حالات میں اپنے وطن کی سلامتی اور بہتری کے لئے آئندہ بننے والی حکومت کی کامیابی کی دعا نہیں کرنی چاہئیے یہ وقت آپس کی دشمنیاں نکالنے تماشا دیکھنے اور ٹھٹھہ اڑانے کا نہیں خدائے بزرگ و برتر کے حضور اپنی کوتاہیوں اور حماقتوں کی معافی مانگنے ملک کی بقا کے لئے خضوع خشوع سے دعائیں کرنے اور ایک دوسرے کا سہارا بننے کا ہے ملک ہے تو سیاست بھی ہوتی رہے گی اس وقت بھی اگر سدا کا وطیرہ نہ چھوڑا گیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور اللہ نہ کرے
ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں