پنجابی ڈھگے سے پنجابی سامراج تک

بچپن کی چند سہانی یادوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نسل در نسل لاہور میں بسنے والے ہمارےخاندان میں کچھ اُردو سپیکنگ لوگ بھی پائے جاتے تھے۔ خالص لاہوری ‘ڈھگوں’ کی اس فیملی میں ‘مسلم اشرافیہ’ کی اس ٹریس کے پائے جانے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ والد صاحب مرحوم کی ایک خالہ کی شادی بھوپال میں ہوئی تھی۔ بعدازاں وہ لوگ 1947 میں ہجرت کرکے لاہور آبسے تھے۔ ملتان روڈ پرایک بڑی سے حویلی انھیں الاٹ ہوئی۔ پچپن کی شرارتوں کی سب سے زیادہ یادیں اُسی حویلی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بہت پیار کرنے والے لوگ تھے مگر سب سے بڑے بھائی سے ہمیں بہت ڈر لگتا تھا کہ وہ نظم وضبط کے بہت زیادہ قائل تھے۔ اُن کی اس نظم و ضبط والی عادت کا بدلہ یوں لیا جاتا کہ دن بھر ہم لوگ چھپ چھپا کر حویلی کے عقبی میدان میں چھوٹے چھوٹے گڑھے کھودتے اور اُن میں پانی بھر کر اُنھیں دوبارہ مٹی سے ڈھانپ دیتے۔ ‘بڑے چچا’ شام کے وقت چہل قدمی کرنے نکلتے تو اُن کا کھلے سے پائنچوں والا پائجامہ کیچڑ میں لتھڑ جاتا۔ اِس پر وہ ‘ڈھگے’ اور ‘چڑی مار’ سے آغاز کرتے ہوئے ہمارے آباؤ اجداد کی شان میں ایسی فصیح و بلیغ قسم کی اُردو بولتے کہ پنجابی زبان کے لچر پن اور فحاشی کے بارے میں پنجابیوں کے بلند بانگ دعوؤں پر ہمارا ایمان بچپن ہی میں متزلزل ہوگیا تھا۔
کچھ ہوش سنھبالنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ ‘بڑے چچا’ تو بالکل ناریل کی طرح ہیں جو اُوپر سے بہت سخت لیکن اندر سے بالکل نرم و ملائم ہوتا ہے۔ بعد ازاں لڑکپن کے دِنوں میں اُن سے زبان وادب اور سیاست و مذہب جیسے موضوعات پرچونچیں لڑانے کا خوب موقع ملا۔ ان مباحث نے اس نیم شائستہ اور اَن گڑھ قسم کے نوجوان ڈھگے کی تہذیب و تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی مرحوم بڑے چچا محمودالحسن کا خیال آتا ہے تو بے ساختہ دِل سے اُن کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔
زمانہ طالب علمی اور پھر نوجوانی کے چند برس کراچی آتے جاتے رہنے کا اتفاق رہا۔ آخری مرتبہ 1992 میں کسی کام کے سلسلے میں کراچی جانا ہوا۔ چند روز کا قیام تھا لیکن آنکھیں وہی 1970 کی دہائی کے اواخر اور 1980 کے اوائل والا کراچی ڈھونڈتی رہیں اور بالآخر بجھے ہوئے سے دِل کے ساتھ اگلے ہی روز کا ٹکٹ کروایا اور لوٹ کے بدھو لاہور آگئے۔
ایک وقت تھا کہ انشا جی یہ بتانے کے لیےہمارے درمیان موجود تھے:
” ہم سے جس کے طور ہوں بابا دیکھو گے دو ایک ہی اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے کو تو شہر کراچی، بستی دل زدگاں کی ہے”
اورجس کسی نے انشا جی کے قصیدوں میں پایا جانے والاعروس ابللاد اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہو،اُس کا دِل تو آج کئی قسم کی لسانی، گروہی، قومیتی،فرقہ ورانہ گڑھیوں میں بٹا ہوا کراچی دیکھ کر ویسے ہی بیٹھ سا جاتا ہے۔
کراچی ہی کا مذکور کیا، اب تو یہ حالت ہوچکی ہے کہ اب شاید لاہور کے گردواطراف کے چند اضلاع سے لے کر اسلام آباد کے آس پاس تک ہی کے علاقے ایسے ہیں جہاں دل و دماغ کو تکلیف دئے بغیر سفر کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم تخت لاہور کے اس ‘کمفرٹ زون’ سے ذرا باہر نکل کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب ہم ‘ڈھگے’ نہیں رہے بلکہ گزشتہ تین چار دہائیوں میں ہمارا نام تبدیل کرکے ‘پنجابی سامراج’ بھی رکھ دیا گیا اور ہم خواب غفلت میں مگن رہے ۔ اس نام کی وال چاکنگ کم و بیش ہرجگہ ہماری منتظر ہوتی ہے ۔ پتا نہیں اصلی تے وڈا پنجابی سامراج اس نوشتہ دیوار کو کب پڑھنے کے قابل ہوگا لیکن سچی بات ہے یہ کہ قدرت کی تقسیم کے نتیجے میں پنجاب اور لاہور میں پیدا ہونے والا قلم کا یہ مزدور اس نام پرندامت بھی محسوس کرتا ہے اور مدتوں سے محو یاس بھی ہے کہ آخر اُ س سے کہاں پر کوئی بھول ہوئی ہے کہ پاکستان کہلانے والے گھرانے کے باقی بھائی بہن اُس سے اس قدر نالاں بلکہ ناراض ہیں؟ یہی نہیں بلکہ اس پردیس میں بھی جہاں کہیں کسی بنگلہ دیشی شہری کے ساتھ ملنا ہوتا ہے تو دِل ایک اَن کہے سے احساس شرمندگی سے بھر جاتا ہے۔
ذاتی طور پر ہم نے بھی اس ملک کے کروڑوں نوجوانوں کی طرح ایک پرامن، ترقی یافتہ اور سماجی و معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کا سپنا آنکھوں میں سجایا تھا اورتمام ترمشکلات اوررکاوٹوں کے باوجود اسی سپنے کو حقیقت کا روپ دینے کی جدو جہد کرتے رہے۔ ذرائع معاش کا معاملہ ہو یا پھرایک بہتر سماج کی تعمیر کی کوششیں، کبھی بھی کسی غیر قانونی اور اُصول و انصاف سے ماورا کسی اقدام کا سہارا ڈھونڈنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔پھر بھی نہ جانے کیوں بہتر مستقبل کی تصویر کے خدوخال نمایاں ہونے کی بجائے خرابی کی نت نئی صورتیں سامنے آتی چلی جاتی ہیں۔
طویل مدت تک غور و فکر کے بعد چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
آپ کا یا آپ کے ارد گرد کے افراد کا ذاتی طور پر امن اور قانون پسند ہونا کافی نہیں ہوتا۔
” شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اُس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پراُس نے کیا”
کے مصداق یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آپ کے نام پر یعنی آپ جیسی مذہبی، لسانی، قومیتی یا سماجی شناخت رکھنے والے لوگ اگر کسی بھی قسم کے ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس حوالے سے آپ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جس طرح مذہب کے نام پر دہشت گردی کے کسی واقعے پر صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا کہ “کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں کرسکتا” اسی طرح اس قسم کی باتوں سے کسی کا بھی پیٹ نہیں بھرا جاسکتا کہ” پنجاب کا عام شہری بھی اُسی طرح مظلوم و بے بس ہے جس طرح دوسری وفاقی اکائیوں کے عوام”۔
ایسے حالات میں خود کو پنجاب کے مظلوم عوام کہنے والے لوگوں کی ذمہ داری دُہری ہوجاتی ہے۔ انھیں ایسی حکمت عملی اوراقدامات کے حوالے سے دماغ سوزی کرنا ہوگی جس میں وہ پنجابی اکثریت پرمشتمل ہئیت مقتدرہ کے ہر قسم کے اچھے برے کام سے نہ صرف پوری طرح بری الذمہ ہونے کا اظہار کریں بلکہ پالیسی سازی اور وسائل کی تقسیم جیسے معاملات پر ملک کے دیگر صوبوں اور انتظامی اکائیوں کے پسے ہوئے طبقات کے ساتھ کھڑے نظرآئیں۔ ایسا کرنا یا نہ کرنا کوئی بحث طلب معاملہ نہیں،غور کرنے کا سوال یہ ہے اس کی عملی صورتیں کیا کچھ ہوسکتی ہیں؟

Facebook Comments

تنویر افضال
پاکستان اور عالمی سماج کا ہر حوالے سے ایک عام شہری۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply