کامیابی کا تصور۔۔عمر خالد

موجودہ دور پس جدیدیت (Post modernism) کی آماجگاہ ہے۔  انسان صدیوں سے حقیقت کی تلاش میں ہے۔ اس جستجو میں اس نے زمین و آسمان کی قلابیں ملادیں،  کائنات کا ذرہ ذرہ چھان مارا، فنون لطیفہ سے اپنی جمالیاتی حس کو تسکین پہنچانے کی کوشش کی۔ سوسائٹی میں تہذیبی شعور کے لئے اخلاقیات کی فہرست بنائی، باہمی حقوق کے تحفظ کی  خاطر نت نئے قوانین وضع کیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تاریخی سفر میں، انسان آج جس شعوری مقام پر پہنچ چکا ہے، اسے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی تشنگی (thirst) کا سامان فراہم نہ ہوسکا۔ آج انسان میں اِس خلا (Space) کا احساس کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ یہ نفسیاتی خلا (Feeling of deprivation) ایک ایسا مرض ہے جو انسانوں کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

جدیدیت (Modernism) نے عقلیت کو خدائی سنگھاسن پر بٹھا کر تین صدیاں اس کی پوجا کی ۔وہی عقلیت جس کی بنیاد کانٹ  نے اس کے زمانہ آغاز میں ڈھادی تھی۔ اس عقلیت نے مادہ( Materialism )کو اپنا مظہر عبادت ٹھہرایا،  اور سارے انسانوں کو ایک عقل پرست حیوان بنادیا۔ جس کی ساری جدوجہد کا اصل محور مادی ساز وسامان سے سجی ہوئی خوشحالی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا یہ طرز زندگی ان کے لئے آسودگی کا ضامن ہے۔ لیکن آج انسانیت اس سے بھی زیادہ کسی خوشحال، معیاری، اور جمالیاتی تسکین کے اطمینان بخش  سرے کی تلاش میں  ہے۔ چنانچہ پس جدیدیت (Post modernism) نے ایک قدم آگے بڑھ کر لوگوں کو یہ حسرت نامہ سنایا کہ ہمارے پاس کسی بھی چیز کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے کوئی معیار نہیں۔ ہر فرد کو آزادی ہے کہ اپنے علم و تجربہ کی روشنی میں، اِس لق و دق صحرا میں  جو سراب من کو بھائے اس کے پیچھے دوڑتا رہے۔

یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ زمانہ ِحال میں کامیابی  و کامرانی کے  جلی عنوان پر مشتمل لٹریچر بازاروں کی زینت بن چکا ہے ۔ موٹیوشنل پیشہ وروں کی پوری انڈسٹری وجود میں آچکی ہے۔ ان تمام کاوشوں  کے پسِ پردہ جو ذہنیت کارفرما ہے وہ اسی احساس محرومی سے پیدا ہوئی،  اور  جدید دور کے اس  طویل عرصہ میں مادی کامیابی کے سکہ بند تصور کی حکمرانی رہی۔ خواہ کیریئر اور  ٹیلنٹ کے نام سے ہو یا  دولت و عزت کے فرسودہ عنوان سے ،غرضیکہ کامیابی کا  یہی ایک تصور لوگوں کے  ذہنوں پر راج کررہا ہے۔

کامیابی ایک اضافی (Relative) چیز ہے۔ ہر شخص  عقلی، جذباتی یا شعوری سطح پر ایک مثالی طرز زندگی  کا خواہاں  ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیز اپنی ذات میں ایک حد تک فطری بھی ہے، کیونکہ انسان قدرتی طور پر معیار پسند واقع ہوا ہے۔ لیکن چونکہ کامیابی ایک اضافی شئے  ہے اور اس کی حد بندی ناممکن ہے، اس لئے  انسان  اپنی کامیابی کی  خاطر  لالچ، حرص اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں، اس دلدل کے اندر ایسا دھنستا ہے کہ زندگی کی ہر شئے  اس کی نظر میں ثانوی اور غیر اہم ہوجاتی ہے۔ اور یہ اپنے مقصد کی  خاطر  گھر بار، عزیز و اقارب، دوست  احباب  سب کی قربانیاں   دینے پر آمادہ ہوتا ہے ۔

کامیابی کے رائج تصور کے مطابق حقیقی کامیابی کا سہرا ان غیر معمولی ذہانتوں کے سر پر باندھا جاتا ہے جنہون نے کوئی کار ہائے نمایاں (Achievements) انجام دیے ہوں۔  اس ضمن میں اخلاقی  نوعیت کے سوالات غیر متعلق  (Irrelevant)  ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرکسی شخص کی (Achievements ) معمول کی ہوں، یا سوسائٹی میں رائج معیار کے مطابق اونچے عہدوں تک رسائی نہ ہو، تو خواہ  اُس شخص نے اپنی ذمہ داریوں کو کتنی ہی ایمان داری اور دیانت داری سے  انجام دیا ہو۔ سوسائٹی میں ناکام  و نامراد ہی شمار ہوگا۔   یہ وہ اسباب ہیں جو براہ راست کائناتِ انسانی پر  اثر انداز ہوئے ہیں ۔ اور اِس  احساس محرومی کی تپش  سے شاید ہی کوئی  محفوظ رہا ہو۔  معاشرہ میں طبقاتی تفریق کے لئے کوئی لکیر کھینچنے کی ضرورت نہیں ، اس نفسیاتی عارضہ نے اندرون خانہ  ہی ایسی جبر کی فضا قائم کر رکھی ہے کہ انسان خود ہی سے کسی بھی طبقہ  کی جانب اپنا انتساب کرلیتا ہے۔  دنیا میں  اس وقت آسودگی و خوشحالی سے مالا مال ریاستوں میں خودکشی کی شرح بلند ترین  سطح  پرہے۔ احساس محرومی کا یہ عفریت آدمی کی نفسیات پر ایسا حاوی ہے کہ اپنی جانِ عزیز کو گنوانا بھی بڑا آسان ہوگیا ہے۔

یہ ہے اکیسویں صدی کا خلا جہاں انسان دوپل  خوشی  کی تلاش میں سردھڑ کی بازی لگادیتا ہے۔ مگر ان مسائل کا حل کیا ہے؟ دراصل بات یہ ہے کہ انسان غیر معمولی طور پر معیار پسند ہے۔ انتہائی ذہین، صاحب ارادہ، اور ذی شعور۔ لیکن  رائج تصورات نے انسان کی پرورش کا جو ماحول فراہم کیا  اس کی مثال درحقیقت اس شیر کی سی ہے جو بکریوں کے گلہ میں پلا بڑھا ہو۔ اور اپنی حقیقت، رعب اور دبدبہ سے بالکل ہی ناآشنا ہو۔ انسانی سوچ کو وسیع تناظر  اوررائج تصورات کی تنگ پگڈنڈیوں سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔  اسے   دریافت کرنا ہوگا  کہ دنیوی زندگی ہی   کل حقیقت نہیں ،  بلکہ اُس اَبدی زندگی کے تناظر میں   مختصر دورانیہ کا سفر ہے۔ اِس سفر کی نوعیت امتحان کی ہے ۔ اس میں حقائق پوشیدہ  اور التباس کی فریب آور ، رنگا رنگ دل لبھاتی تصاویر  کا غلبہ ہے۔ ضروری نہیں کہ  ہر انسان کو اپنی جدوجہد کا ثمر  اسی دنیا میں ملے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاریخ میں ہزاروں افراد کی غیر معمولی قربانیوں کا نتیجہ انہیں اس زندگی میں حاصل نہیں ہوا ۔  لیکن خالقِ کائنات کے ہاں  کسی کی محنت کا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں ہوتا۔   کامیابی اور ناکامی  کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ انسان خدا کی اس  سکیم کا حصہ بنے جس کے تحت اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اپنے اخلاقی  وجودکو خدائی قانون کے مطابق تعمیر کرے۔ جسے فی زمانہ (Personality Development) بھی کہا جاسکتا ہے۔ جدید دور نے انسانوں کو بلند پروازی سے روکا، اور مادہ کی ڈگڈگی تھما کر اعلی حقیقتوں سے بیگانہ بنادیا۔ مگر جب وہی بچہ اس کھیل سے اکتا  گیا، تو اسے ایک نیا کھلونا پکڑادیاگیا۔ انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر خدائی  ہدایات کو اپنی زندگی سے بے دخل کردیا ہے، اور اس خلا کو پُر کیے بغیر اس کی مضطرب روح کو کبھی تسکین نہ مل سکے گی۔

Facebook Comments

عمر خالد
ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ذرہ بے نشان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply