موٹیویشنل سپیکر/محمد سعید ارشد

مچھلیاں ہمیشہ سے ہی انسان کی محبوب غذا رہی ہے۔ انسان تب بھی مچھلیوں کا شکار کرتا تھا جب وہ غاروں میں رہتا تھااور سارا دن جنگلوں میں شکار کرتا تھا اور مچھلیاں اب بھی انسانوں کی پسندیدہ غذا ہے کہ جب انسان جدید نظام زندگی میں ڈھل چکا ہے اور سائیکل سے لیکر ہوائی جہاز تک بنا چُکا ہے۔ شاید یہ بات آپ کیلئے حیران کن ہو کہ مچھلیوں کی اب تک پینتیس ہزارسے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں ، یعنی اگر ہم روز ایک نئی قسم کی مچھلی کھائیں  تو ہم شاید90سال  تک ان کو کھا سکتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ پھل بھی اس میں شامل ہیں ۔ اس وقت دنیا میں 7500 قسم کا سیب موجود ہے یعنی اگر ہم روز ایک نئی قسم کا سیب کھاتے ہیں تو ہم 20 سال تک ان کو کھا سکتے ہیں۔ سیب اور مچھلیوں کی تمام اقسام اپنے ذائقے،ساخت اور سائز میں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ایک ہی پھل یا جانور کی اتنی ساری اقسام پیدا فرمائیں، اوراللہ تعالیٰ کی یہ قدرت صرف پھلوں یا جانوروں تک محدود  نہیں، اس میں انسان بھی شامل ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بھی مختلف اقسام میں پیدا فرمایا ہے اور یہ انسان بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں  ،ظاہر ہے انسان ایک دوسرے سے ذائقےاورساخت میں نہیں بلکہ اپنی عادات ، جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے مختلف ہیں۔ کوئی ہر سال کلاس میں ٹاپ کرتا ہے اور کوئی ایک ہی کلاس میں کئی کئی سال نکال دیتا ہے ۔ کوئی2 من وزن اٹھالیتا ہے اور کوئی 10 کلو وزن اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔ کسی میں اللہ تعالیٰ نے سیکھنے کی صلاحیت رکھی ہے اور کسی کو بھولنے کی بیماری ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا تو انسانوں کی صلاحیتوں کے مطابق اُن کیلئے رزق کے ذرائع بھی ساتھ ہی پیدا کردیے۔ کوئی محنت مزدوری کرکے ، کوئی آٹھ گھنٹے کی جاب کرکے یا کوئی کاروبار کرکے اپنے حصے کا رزق حاصل کرتا ہے۔

مگرہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز کو شاید جاب کرنیوالے افراد سے خاص عداوت ہے۔ ان کے نزدیک صرف کاروبار کرنیوالے اور زیادہ پیسہ کمانے والے افراد ہی کامیاب ہیں ۔ کامیابی کی یہ تعریف اُتنی ہی نرالی ہے جتنی ان کے اپنے لیکچرز میں دی جانے والی مثالیں ۔ پاکستان میں رہ کر یورپی اور امریکی ارب پتیوں کی مثا لیں دیتے ہیں  کہ کیسے وہ دیکھتے ہی دیکھتے راتوں رات امیر ہوگئے اور اب دنیا کو چلا رہے ہیں۔ مثالیں دیتے وقت ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز یہ بتانا بھول ہی  جاتے ہیں کہ امریکی یا یورپی لوگوں کو جوسہولیات یا مواقع اُن کی حکومتیں  مہیا کرتی ہیں ، کیا وہی سہولیات یا مواقع پاکستانیوں کو بھی میسر ہیں؟ کیا ہمارا سسٹم بزنس  فرینڈلی ہے ؟ دبئی میں آپ ایک گھنٹے میں پراپرٹی خرید کر اپنے نام کرواسکتے ہیں اور 24 گھنٹوں کے اندر اپنی کمپنی کھڑی کرسکتے ہیں ۔کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے؟ امریکہ میں اَن گنت ادارے موجود ہیں جو نئے کاروباروں میں انویسٹ کرتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ ادارے انگلیوں پر گِنے جاسکتے ہیں۔

موٹی ویشنل اسپیکرز کا ایک اعتراض comfort zone کمفرٹ زون بھی ہے۔ یہ لوگ اپنے علاوہ کسی کو بھی کمفرٹ زون میں نہیں رہنے دینا چاہتے۔ ایک انسان جس نے 20 سال پڑھائی کرکے اور سالوں محنت کے بعد اپنا کرئیر بنایا اور اب اپنی زندگی میں اتنا سیٹل ہے کہ اس مہنگائی کے دورمیں اس کا گزارا اچھا ہو رہا ہے، بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور  اُس کیلئے آگے بڑھنے کے چانسز بھی موجود ہیں۔ لیکن ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز یہ چاہتے ہیں کہ اس انسان کو اپنے کمفرٹ زون سے نکل کر، سالوں کی محنت پر پانی پھیر کر ،کاروبار میں اپنی قسمت آزمانی چاہیے، جس میں نہ  اس کا تجربہ ہے اور نہ ہی اتنا سرمایہ۔ یہ ضروری تو نہیں کہ اپنی ملازمت میں کامیاب انسان ایک کامیاب بزنس  مین بھی بن سکتاہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں، کہ لوگوں نے اچھی بھلی ملازمت کو چھوڑا اور کاروبار میں اپنی قسمت آزمائی ،مگر وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔

ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز کو سمجھنا چاہیے  کہ پڑھائی اور رزق کا آپس میں کوئی ڈائریکٹ تعلق نہیں ہے۔ اگر رزق کا میعار اعلی ٰ تعلیم ہوتا تو اَن پڑھ انسان تو بھوکے مر جاتے۔ رزق تو خاص اللہ کی عطا ہے، وہ جسے چاہتا ہے زیادہ عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے تھوڑا عطا کرتا ہے۔ زندگی کامقصد صرف پیسہ  کمانا ، بڑا گھر بنالینا یا قیمتی گاڑیوں میں گھومنا اور اس مقصد کیلئے ہر حد کو توڑ دینا نہیں ہے۔ ایسی زندگی کی تمنا اہل یورپ تو کر سکتے ہیں جہاں صرف پیسہ  ہی ان کا سب کچھ ہے اور حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اور زندگی گزارنے کا سلیقہ اس سے بہت مختلف ہے۔ کیا کبھی ہمارے نبی کریم ﷺ نے زیادہ مال و دولت کی   خواہش کی؟ یا کبھی صحابہ کرام اجمعین نے زندگی کا مقصد مال و دولت کو بنایا۔؟ اور ویسے بھی قرآن پاک میں تو مال و دولت کو فتنہ تک کہا گیا ہے۔ ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز کو چاہیے  کہ صرف پیسے کمانے کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نیکی کرنے اور ایک دوسرے سے صلہ رحمی کا بھی درس دے دیا کریں اور ایلون مسک ، جیف بیزوس اور مارک زکر برگ کےساتھ ساتھ حضرت عمر ‏رضی اللہ   تعالی عنہ کے بارے میں بھی لوگوں کو بتایا کریں کہ جن کا بنایا ہوفلاحی نظام دنیا آج بھی فالو کررہی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply