آسمان اتنا نیلا کہ ایسا پہلے کبھی نہ تھا اوردھوپ اتنی تیز کہ آنکھیں کھل نہیں پا رہیں۔ زمین سفیدچادر تانے سوئی پڑی ہے ۔ درختوں کی ٹہنیاں برف کے بوجھ سے جھکی ہوئی ہیں۔ٹین کی چھتوں سے ہولے ہولے برف گر رہی ہے۔گھروں کی چمنیاں دھواں اُگل رہی ہیں۔ کہیں پراٹھے، کہیں سے حلوے کی خوشبوآرہی ہے۔ چڑیوں کی چوں چوں سے دل کا بوجھ ہلکا ہو رہا ہے۔ کوّے کی کائیں کائیں بھی آج بھلی معلوم ہو رہی ہے اورمیناؤں کی بولی پوری مجھے سمجھ آرہی ہے۔ فطرت کے اس حسین منظر کو آج میں شاید تیس برسوں بعد دیکھ رہا ہوں ۔ تیس برس پہلے یہی سب کچھ تھا۔ فرق اتنا ہےکہ تب ہمارا مکان کچا تھا ۔ اس کے برآمدے میں لکڑی کی ایک ہی کرسی تھی۔ چارپائی پر “لوئی “بچھی تھی اور چھت کی “چالیوں “میں چڑیوں کے گھونسلے تھےاور کچے فرش پر چھت کے ٹپکنے سے جابجا سوراخ ہو چکے تھےاور میں لکڑی کی کرسی پر اکڑوں بیٹھا سوچ رہا تھا، آنے والے کل کو زندگی کیسی ہو گی؟
آج میں اُس کل کی آغوش میں پکے مکان کے مرمریں فرش پر پلاسٹک کی کرسی پہ اکڑوں بیٹھا سوچ رہا ہوں، کیا یہی وہ کل تھا جس کی جستجومیں مَیں نے اک عمر جاگ کر گزاری ہے؟ تو مجھے اپنی زندگی ایک کہانی سی لگی ہے۔جسے میری دادی ایسی ہی سرد رُتوں کی کالی راتوں میں کُھردری اون کی لوئی اور نرم روئی کے لحاف میں لیٹ کر سناتی تھی۔ آج جب میری دادی نہیں رہی تو مجھے رہ رہ کر یہ احساس ہو رہا ہے کہ کہانی سنانے کا فن بھی نہیں رہا۔ سردیوں کے اندھیرے کمرے کی اکلوتی چھوٹی کھڑکی سے جھانکتے سورج کی کرنیں اور دادی اور دادی کا وہ فن مجھے کتنا یاد آرہا ہے! لیکن پھر یہ سوچ کر میں دل کو تسلّی دیتا ہوں کہ کہانی لکھنے کا فن پیدا ہو رہا ہے۔ ہم اپنے ماضی سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں ہمارے لیے بہت کچھ ہماراا پنا تھا۔ اور ہم آج اپنے حال سے اس لیے مایوس ہیں کہ ہمارے پاس اپنا کچھ بھی نہیں رہا۔یہی “بسواس ” ہے، یہی پریشانی، یہی غم ہے۔ اسی غم کو فن کی مختلف اصناف میں پرونے والے لوگ ہی دراصل اپنے روشن کل کی بنیادیں مہیا کرنے والے ہوتے ہیں۔ فن ،تاریخ ،ثقافت ا و رقوم کے ایسے ہی خدمت گاروں میں ، پہاڑی میں ایک بڑا نام ڈاکٹر صغیر خان کا ہے۔ جس نے پہاڑی میں دیگر اصناف کے ساتھ جدید پہاڑی کہانی کی بنیاد بھی رکھی۔
“بسواس” ڈاکٹر صاحب کا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ گیارہ افسانوں پر مشتمل یہ کتاب میں نے دو ہی نشستوں میں پڑھ لی تھی۔ اور ارادہ تھا کہ اس خوبصورت تخلیق کے شایان شان اس کی رونمائی کروائی جائے۔ لیکن میری سُستی کی وجہ سے یہ کام نہ ہو سکا ۔اور پچھلے دو ماہ سے میں افسوس اور ندامت کے باعث اس پر کچھ لکھ بھی نہیں سکا۔اس سے قبل “کھٹی بٹی ” اور “ست برگے ناں پُھل”کے نام سے ڈاکٹر صاحب کےپہاڑی افسانوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔”کھٹی بٹی “کو اگر جدید پہاڑی کہانی کا آغاز کہا جائے تو”ست برگے ناں پُھل” اور “بسواس” اس سمت میں اٹھنے والے اگلے قدم ہیں۔ اس کے افسانے مختصر ہیں اورکھٹی بٹی کے مقابلے میں زیادہ آسان زبان میں لکھے گئے ہیں۔یوں قاری کے لیے انہیں پڑھنا دشوار نہیں رہا۔یہ افسانے ہماری روز مرّہ کی انفرادی زندگی کی بھر پور عکاسی کر رہے ہیں۔انسانی زندگی کے دو اہم پہلوؤں “محبت اور معاش “کے ساتھ ہماری غلامی اور احساس ِمحرومی ان افسانوں کا محور ہیں۔ جنہیں بہت ہنر مندی کے ساتھ کہانیوں میں پرویا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا مشاہدہ بہت گہراہے۔انہوں نے بڑی باریک بینی سے دیکھا ہےاور حقیقت کے رنگوں سے لکھا ہے۔ انہوں نے جزئیات کوبھی جگہ دی ہے اوربیان میں اختصاربھی ایسا کہ کہانی کے کسی پہلو میں تشنگی نظر نہیں آتی۔ مختصر اور مکمل لکھنا مشکل کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال مہارت کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہے۔
افسانہ اور ناول ادب کی وہ اصناف ہیں جو کسی بھی معاشرے کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یوں کامیاب ادیب وہی ہوتا ہے جو اپنے سماج کی حقیقی ترجمانی کر سکے۔ نہ تو وہ کہانی میں مصنوعی رنگ بھرے نہ کسی رنگ پہ ملمع سازی کرے۔ڈاکٹر صغیر اس پیمانے پر پورا اترتے نظر آتے ہیں۔ تاریخ اور فکشن میں ایک بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ تاریخ میں تخیل کی گنجائش نہیں ہوتی۔جبکہ فکشن میں تخیل کا کسی حد تک عمل دخل رہتا ہے۔دراصل تخیل بھی آسمان سے اتری ہوئی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ وہ بھی زندگی سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کا تعلق ماضی یا حال سے بھی ہو سکتا ہے اور مستقبل سے بھی۔ مستقبل کے حوالے سے ادیب جو سوچتا ہے ، اس کی تحریریں اسے وجود عطا کر دیتی ہیں۔یوں دراصل ادیب یا شاعرمعاشرے کی رہنمائی کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن پہاڑی ادب چونکہ اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں ہے اور ایک ایسے وقت میں جب پہاڑی زبان اپنی قبولیت کے ابتدائی مراحل طے کر رہی ہو، پہاڑی کے ادیب کو اپنے معاشرے کی صحیح عکاسی میں ہی کئی ایک مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔جس میں سب سے بڑی مشکل اردو کے قاری کو پہاڑی کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسے دودھ پیتے بچے کی سی ہے جسے آ پ چُوری کھلانے کی کوشش کر رہے ہوں۔
ڈاکٹر صغیر صاحب نے “بسواس” میں اپنی صلاحیتیں بچوں کو چُوری کھلانے پر بھی لگائی ہیں۔ یوں وہ دوہری مشقت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ پہاڑی میں افسانہ لکھ رہے ہیں جواز خود ، کسی بھی مشکل کو خاطر میں لائے بغیر بھی ایک مشکل کام ہے۔ دوسرے یہ کہ انہیں پہاڑی کو آسان بنانا پڑ تا ہے۔ ایسی اَن تھک کوششوں کے روادار اس وقت تک ڈاکٹر صغیر کے علاوہ کوئی نظر نہیں آ رہا۔”بسواس” کے مطالعے کے دوران مجھے احساس ہوا ہے کہ ہمارا آج کا معاشرہ بیس یا تیس سال پہلے کے معاشرے سے نہ صرف ظاہری طور پر بلکہ سوچ ،فکراور رویوں کے اعتبار سے بھی کافی مختلف ہے۔رشتوں اور تعلق کے معاملے میں آج کا نوجوان گوکہ اب بھی جذباتی ہے لیکن پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ حقیقت پسند ہے۔ لوگ پہلے کی طرح چھوٹے بڑے حوادث کو اپنے سینے سے لگا کر زندگی پر بوجھ بننے کی بجائے آگے بڑھنے کے عمل کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے ہمارے معاشرے کی نفسیات، اس کے رحجانات اور ترجیحات کو واضح کرنے میں پہاڑی افسانوں کو میڈیم کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ لیکن انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان کے دو افسانے “اُڈاری” اور” دواا جنم ” تخیلاتی تخلیق کا بہترین نمونہ ہیں۔ان دونوں افسانوں کا تعلق ہمارے وطن کی تقسیم سے ہے۔ اس میں ایک کہانی ایک ایسی چڑیا کی ہے جو وطن کے اُس پار جاتی ہے۔ وہاں کے شہروں، لوگوں اور ان کی زندگی کو دیکھتی ہے ۔ اور دونوں اطراف میں پائی جانے والی مماثلت کو دیکھ کر خوش بھی ہوتی ہے اور تقسیم پر پریشان اور غمزدہ بھی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ آر پار جانے کی اسی کوشش میں وہ ایک دن سیز فائر لائن پر ماری جاتی ہے۔اسی طرح “دواا جنم ” ایک مچھلی کی کہانی ہے جو کشن گنگا سے اپنا سفر شروع کرتی ہے اور منگلا ڈیم تک پہنچ کر شکار ہو جاتی ہے۔یہ کہانیاں لکھ کر ڈاکٹر صاحب نے ثابت کر دیا ہے کہ گوکہ پہاڑی زبان کا دامن بیان کے حوالے سے تنگی کا شکار ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اس میں اتنی گنجائش ضرور موجود ہے لکھنے والا اپنے ہنر سے اس تنگی میں ہر طرح کی گنجائش پیدا کر سکتا ہے۔یہ دونوں کہانیاں ہماری غلامی اور تقسیم کے دکھ کو بیان کرتی ہیں اور مزاحمتی و تحریکی ادب میں ایک خاص مقام کی حامل ہیں۔
“بسواس”کے سبھی افسانے اپنے پس منظر اور کلائمیکس کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی پہاڑی نظموں اور غزلوں کے مجموعے بھی چھپ چکے ہیں۔ جبکہ پہاڑی میں اور بھی کئی لوگوں نے اچھی شاعری کی ہے۔ لیکن نثر میں ڈاکٹر صاحب حرف اول ہیں۔ افسانہ، ناول، سفر نامہ اور اب پہاڑی خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب “لِیکاں” کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ بیس پچیس سال کی مدت میں سترہ کتابوں کی تصنیف کوئی آسان کام نہیں ہے۔اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ایک مصروف سماجی زندی گزارتے ہوئے ڈاکٹر صاحب اتنا کام کیسے کر پائے ہیں؟ میں برآمدے میں پلاسٹک کی کرسی پر اکڑوں بیٹھایہ سوچ رہا ہوں اور سامنے پڑی برف دیکھ رہا ہوں۔ جس میں ڈاکٹر صغیر راستہ بناتے ہوئے جا رہے ہیں۔ اور میں سوچ رہا ہوں ، یہ ذرا اور آگے نکل جائیں تو میں بھی ان کے فُٹ پرنٹس پر اپنے سفر کا آغاز کروں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں