بدایۃ الحکمہ کے ابتدائی مغالطے / حمزہ ابراہیم

علامہ محمد حسین طباطبائی کی کتاب بدایۃ الحکمہ کو مُلا صدرا کے فلسفے کے تعارف کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔ ذیل میں اس کے ابتدائی مغالطوں کی وضاحت کی گئی ہے۔

1۔ مفہومِ وجود کو بدیہی کہنا ابہام کا باعث ہے

علامہ اپنی کتاب کی ابتداء میں ہی وجود کے مفہوم کو بدیہی قرار دیتے ہیں۔ یوں وہ یہ بات قاری پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ وجود  سے جو چاہے مفہوم مراد لے لے۔ جب کوئی آپکو یہ کہے کہ کوئی مفہوم بدیہی ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات کی وضاحت اور اس کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، بلکہ آگے چل کر اس ابہام سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ بدیہی باتیں اکثر درست نہیں ہوتیں۔ مثلاً یہ بالکل بدیہی ہے کہ زمین سورج سے بڑی ہے، مگر یہ درست نہیں ہے۔ سوچنا چاہیے کہ جو شخص وجود کی تعریف اور اسکی وضاحت نہیں کر سکتا وہ اس کے بارے میں نظریہ پردازی کیوں کر رہا ہے؟

2۔ وجود کا مفہوم مشترک لفظی ہے

اگلا مغالطہ وجود کے مفہوم کو مشترکِ معنوی (univocal) قرار دینا ہے۔ یہ بالکل درست بات نہیں ہے۔ سب چیزوں کا ہونا ایک معنوں میں نہیں ہوتا کیونکہ چیزوں کے وجود کی حقیقت الگ ہوتی ہے۔ مرزا غالب کے گھر میں برتنوں یا کبوتروں کا ہونا اور معنوں میں ہے لیکن انکی شاعری میں مرثیے کا ہونا اور معنوں میں ہے۔ کسی دلیر انسان کے سینے میں شیر کا دل پایا جانا اور کسی شیر کے سینے میں شیر کا دل ہونا الگ الگ معنی رکھتا ہے۔ صورتحال اس وقت زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب کوانٹم ذرات کے وجود پر غور کیا جائے۔ وہاں وجود کا معنی بالکل وہ نہیں جو روزمرہ کی زندگی میں پائے جانے والے موجودات کیلئے ہے۔ الیکٹران کا ہونا مشاہدے سے متاثر ہوتا ہے، لیکن پتھر کے وجود پر مشاہدے کے وہ اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ علامہ کو تو ان باتوں کی خبر نہ تھی لیکن جو لوگ جدید علوم سے آشنائی رکھتے ہوں، ان کو غور کرنا چاہیے ۔ اسی طرح خدا کو اگر زمان و مکان سے ماوراء اور ناقابلِ رؤیت مانا جائے تو اسکا وجود بالکل بھی زمان و مکان میں مادی آثار رکھنے والے وجود کے ساتھ معنی کا اشتراک نہیں رکھتا۔ وجودات کی حقیقت مختلف ہو تو معنی بھی مختلف ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ مفہومِ وجود مشترکِ لفظی (equivocal) ہے۔

3۔ اصالت ماہیت کو حاصل ہے

آگے چل کر علامہ وجود کو ماہیت سے جدا قرار دیتے ہیں اور اسے اصل مانتے ہوئے ماہیت کو ذہنی اختراع قرار دیتے ہیں۔ کسی کا ہونا اسکی ماہیت کا حصہ ہوتا ہے، اس سے الگ نہیں ہوتا۔ فلاں چیز کیا ہے، اسی میں یہ سوال بھی آ جاتا ہے کہ کیا وہ وجودِ خارجی رکھتی ہے؟ ہمارا علم ماہیت کے بارے ہوتا ہے، ماہیت کو جانے بِنا کسی کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ وجود کو ماہیت پر مقدم سمجھنا علم کا دروازہ بند کرنا ہے اور صدری خیالات کو علم کا جاگزین بنانا ہے۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ علامہ طباطبائی کا نظریۂ علم بھی حقیقت کے منافی ہے۔

4۔ وجود میں وحدت اور تشکیک باطل ہے

ہم سبھی اپنے  اردگرد مختلف چیزوں کے وجود اور عدم کا احساس کرتے ہیں۔ بچہ شروع میں ہی کھلونے کے ہونے یا نہ ہونے، اور مختلف کھلونوں کے مختلف وجود سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودات مختلف ہیں۔ علامہ ایک تو وجود کی وحدت کے قائل ہیں، یعنی توحیدِ وجودی، پھر ماہیت کی اصالت کے بھی منکر ہیں۔ تو اب موجودات میں فرق کی توجیہ کیسے کریں؟ اس مخمصے سے نکلنے کیلئے انہوں نے مُلا صدرا کی طرح وجود کی تشکیک یا تنزّلات کا مفروضہ پیش کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر عدم میں تشکیک نہیں تو وجود میں کیسے ہو سکتی ہے؟ نیز اگر وجود ایک ہے، مشترکِ معنوی بھی ہے، بسیط بھی ہے اور وہ خدا ہے، تو کیا خدا میں تشکیک ہو سکتی ہے؟ تشکیک کا لازمہ ترکیب ہے۔ بساطت اور تشکیک کو ایک ساتھ فرض کرنا اجتماعِ نقیضین ہے۔

علامہ اپنی غلط بات کو منوانے کیلئے روشنی میں شدت کی مثال لاتے ہیں۔ مگر یہ قیاس مع الفارق (false analogy) ہے۔ کیونکہ روشنی مرکب ہے، ذاتاً واحد نہیں ہے۔ سورج کی روشنی سورج کا جز و ہے۔ سورج میں نیوکلیائی دھماکوں سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور اس کے اخراج سے سورج کی کمیت (mass) میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ روشنی کی شدت کا تعلق اسکے ذرات کی تعداد سے ہوتا ہے۔

یہی حال حرکت کا ہے۔ اس میں شدت و ضعف اس لیے  ہے کہ اسکو اجزاء میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ وہ خارج میں توانائی کے فرق سے پیدا ہوتی ہے اور اسے توانائی کے استعمال سے بڑھایا یا بالکل ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔ علامہ کو تو یہ سب معلوم نہ تھا، انہوں نے تو سکول کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن جو لوگ ہائی سکول میں روشنی کو منشور سے گزار چکے یا حرکت کی مساواتیں حل کر چکے ہیں، انکو غور کرنا چاہیے۔

اسے بھی پڑھئے: روشنی کے بارے علامہ طباطبائی کی غلط فہمیاں

آزمائے کو آزمانا نادانی ہے

مسلم دنیا پر مغربی اقوام کے قبضے کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی تعلیم کا شکست کھا جانا تھا۔ انتطامیہ کو چلانے والے ان پڑھ نہیں ہوتے تھے۔ وزراء اور افسران مدرسوں سے یہی صوفیانہ خیالات پڑھ کر نکلے ہوتے تھے۔ معقولات سیکھنے والوں کے دماغ انہی وحدت الوجود اور تنزلاتِ وجود کی فرضی کہانیوں نے بانجھ کر دیئے تھے۔ یہ جسے علم سمجھ رہے تھے، وہ علم نہیں تھا۔ یہ اشیاء کی ماہیت کو سمجھنے پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کے بجائے وجود کے نام پر ایک خیالی دنیا بسا بیٹھے تھے۔ برصغیر میں انگریز آئے تو فرنگی محل والے اور شاہ ولی اللہ دہلوی وغیرہ انہی چیزوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ آج بھی جو شخص اس جعلی فلسفے کو اچھی طرح رٹ لے اور اس پر سنجیدگی سے ایمان رکھتا ہو، وہ کسی علم میں آگے نہیں جا سکتا۔ غفران مآب (متوفیٰ 1820ء) نے اس فلسفے کے رد میں ”الشہاب الثاقب“ لکھی، لیکن تعلیمی مراکز کی روش پر زیادہ اثر نہ ہوا۔

اسے بھی پڑھئے: علامہ حسن زادہ آملی کے بارے میں غلو کی حقیقت

تیل کی دولت کا غلط استعمال

مسلم دنیا کی بدقسمتی ہے کہ جب مشرق وسطیٰ میں مغربی علوم کی وجہ سے تیل اور گیس دریافت ہوئے تو کچھ ممالک نے وہ سرمایہ وہابیت اور اخوانی سوچ  (islamism/totalitarianism) پھیلانے پر لگایا تو کچھ نے ملا صدرا کا فلسفہ پھیلانے پر لگایا۔ روس نے بھی مارکسی فلسفہ پھیلانے پر زور دیا۔ یہ سرمایہ جدید علوم پر خرچ نہ ہوا۔ اس کا نقصان غریب ملکوں کو ہوا کہ جن کے پاس دماغی صلاحیت کے سوا اپنی معیشت بہتر کرنے کیلئے کچھ نہ تھا۔ تیل اور گیس کی دولت والے ملکوں کے عیب تو مفت کی دولت نے چھپا لئے، مگر جن ممالک کے پاس یہ دولت نہ تھی وہ پہلے سے بھی بری حالت میں چلے گئے۔

نوجوانوں سے التماس

زندگی کے پہلے پچیس سال جذباتی لگاؤ کے شدید رجحانات اور معلومات اور تجربے کی کمی جیسی وجوہات کی بنا پر حساس ہوتے ہیں۔ ان سالوں میں جدید علوم سیکھنے چاہئیں۔ منطق بھی سیکھنا ہو تو مدرسوں والی منطق کے بجائے جدید منطق سیکھنی چاہیے۔ پہلے سائنس، معیشت یا تاریخ وغیرہ کی تعلیم مکمل کر لینی چاہئے۔ جو دینی علوم سیکھ رہے ہیں وہ بھی ادبیات اور قرآن و حدیث پر توجہ دیں۔ جوانی کو ہر صورت فلسفے اور سیاسی وابستگی سے پاک رہنا چاہیے۔ ان دونوں میں اختلاف بہت زیادہ ہے، پہلے میں نظری تو دوسرے میں عملی، لہٰذا یہ کام بڑوں کیلئے چھوڑ دینے چاہئیں۔ سیاست کے بارے میں تعلیم حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن کسی تنظیم سے عملی وابستگی درست نہیں ہے۔ اسی طرح فلسفے میں چونکہ نظری اختلاف بہت زیادہ ہے، تو اسے پڑھنے سے پہلے اتنا علم حاصل کر لیں کہ جلدی دھوکہ نہ کھائیں۔ اختلاف کے سمندر میں اترنے سے پہلے مگرمچھوں سے نبٹنے کی صلاحیت پیدا کر لیں۔ آپ کو مفت میں فلسفہ سکھانے والے کو بھی پیٹ لگا ہوا ہے، وہ کہیں سے مال لے کر ہی یہ سب کر رہا ہے۔

وقت کا درست استعمال کیا ہے؟

اپنے وقت کو مخلوقات کی ماہیت سمجھنے کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔ خدا کے وجود کے بارے فلسفہ بافی سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ نہج البلاغہ میں آیا ہے کہ:

Advertisements
julia rana solicitors

”اس بات کو یاد رکھو کہ علم میں راسخ و پختہ لوگ وہی ہیں کہ جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی ساری چیزوں کا اجمالی طور پر اقرار کرتے ہیں، اگرچہ ان کی تفسیر و تفصیل نہیں جانتے۔ یہی اقرار انہیں غیب پر پڑے ہوئے پردوں میں درانہ گھسنے سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے۔ اللہ نے اس بات پر ان کی مدح کی ہے کہ جو چیز ان کے احاطہ علم سے باہر ہوتی ہے اس کی رسائی سے اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ اللہ نے جس چیز کی حقیقت سے بحث کرنے کی تکلیف نہیں دی اس میں تعمق و کاوش کے ترک ہی کا نام رسوخ رکھا ہے۔ لہٰذا بس اسی پر اکتفا کرو اور اپنے عقل کے پیمانہ کے مطابق اللہ کی عظمت کو محدود نہ بناؤ، ورنہ تمہارا شمار ہلاک ہونے والوں میں قرار پائے گا۔“ (نہج البلاغہ، خطبہ 89 – خطبۂ اشباح، ترجمہ: مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ)

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات § دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بدایۃ الحکمہ کے ابتدائی مغالطے / حمزہ ابراہیم

  1. وجود، موجود کی صفت ہے، جو حقیقت میں موجود ہونے کا پتا دیتی ہے۔ وجود موجودات سے الگ وجود نہیں رکھتا، ایسا فرض کرنا دَور ہو گا، جو غیر منطقی بات ہے۔ خدا و خلق کی صفات کا معنی مختلف ہے۔ چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ خدا کے عالم ہونا اور مخلوق کا عالم ہونا صرف لفظی طور پر ایک جیسا ہے مگر انکا معنی الگ ہے:
    وَإِنَّمَا سُمِّیَ اللّه ُ عَالِماً؛ لاِءَنَّهُ لاَ یَجْهَلُ شَیْئاً، فَقَدْ جَمَعَ الْخَالِقَ وَالْمَخْلُوقَ اسْمُ الْعَالِمِ وَاخْتَلَفَ الْمَعْنی (شیخ صدوق، کتاب التوحید، صفحہ 188، باب أسماء الله تعالى والفرق بين معانيها وبين معاني أسماء المخلوقين)

Leave a Reply