چشمِ فلک نے ایسے مضحکہ خیز انتخابات اس سے قبل نہ دیکھے ہوں گے۔ کہیں ایک خاص جماعت کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے سے روکا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایک بار پھر تین بار کے وزیراعظم کو ادارے نے پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے لیئے راضی کر لیا ہے۔ اب تو امیدوار کیا اس جماعت کے کارکنان بھی کہتے ہیں کہ “ہماری بات ہو گئی ہے۔” حیرانی ہوتی کہ یہ سب کس منہ سے کہہ لیتے ہیں؟ 2018 میں یہی لوگ تھے جو ”ادارے“ پہ کیا کیا الزامات نہ لگاتے تھے۔ اس بار جب ”ادارے“ نے مُہرے بدلے تو ہمارے ن لیگ کے دوست بغلیں بجاتے تھکتے نہیں ہیں کہ “ہمارے ساتھ تو سب بڑی قوتیں ہیں۔” نہ جانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
ان تمام تر مضحکہ خیزیوں کے باوجود چکوال میں صورت حال انتہاٸی دلچسپ ہے۔ چکوال سے قومی اسمبلی کے لٸیے ن لیگ کے ورکرز ہوں یا سردار گروپ کے کارکنان سب ہی اندرون خانہ اپنے امیدوار سےذیادہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو پسند کر رہے ہیں۔ ن لیگ کے میجر طاہر اقبال شریف انسان ہیں اور ان کا خاصہ ہے کہ تقریر کے ساتھ وعظ و نصیحت بھی لازمی فرماتے ہیں جس سے لوگوں کی کثیر تعداد تنگ آ جاتی ہے۔ جبکہ ایاز امیر اب کی بار پنجابی میں عوام کے دل موہ لینے والی تقاریر کر کے اپنی مہم پہ گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نے اس بار انتخابی ماحول کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ پہلے ذات برادری کا ووٹ ہوتا تھا اور بڑوں کے فیصلے حرف آخر سمجھے جاتے تھے مگر اب موباٸل نے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ اگر کوٸی صاحب کسی جماعت کا جلسہ کرا رہے ہیں تو ان کے اہلِ خانہ مخالف جماعت کے حمایتی ہیں۔ ن لیگ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے جس کا ذکر کچھ دن قبل ن لیگ کے مقامی راہنما حاجی نذیر سلطان اپنی تقریر میں کر چکے ہیں۔
پھر ہماری مقتدرہ کا رویہ اب عوام کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے جو تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی کی بڑی وجہ ہے۔ چکوال میں ایاز امیر کو نہ صرف تحریک انصاف بلکہ سردار گروپ اور کہیں کہیں ن لیگ بھی اندرون خانہ ہی سہی مبینہ طور پہ بہرحال سپورٹ ضرور کر رہی ہیں۔ سردارگروپ کے روح رواں سردار آفتاب اکبر خان کے تمام ساتھی ایاز امیر کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ سردار غلام عباس کے چاہنے والوں کو یہ غم ہے کہ سردار عباس سے ٹکٹ چھینا گیا ہے اور ن لیگ کی ٹیم کے ساتھ ایاز امیر کے پرانے مراسم بھی ہیں۔
صوباٸی اسمبلی پہ چوہدری حیدر سلطان قسمت کے دھنی ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے ساتھ پورا سردار گروپ اور پوری ن لیگ کھڑی ہے۔ چکوال شہر میں انہیں جو خطرہ تحریک انصاف کے امیدوار علی ناصر بھٹی سے تھا، چوہدری نوشاد کے میدان میں آنے سے ٹل گیا ہے۔ اوپر نیچے کی سیاست گو مناقت کا عملی نمونہ ہے اورشاید یہی سیاست ہے لیکن اس کا فاٸدہ ایاز امیر اور حیدر سلطان کو خوب ہو رہا ہے۔
چوآ سیدن شاہ اور ونہار والوں نے بھی ایسا الیکشن نہ دیکھا ہوگا۔ امیدوار تو وہی پرانے ہیں مگر سپورٹران میں ”ادارے“ سر فہرست ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صاحب بہادر کے گھر چلے جاٸیں تو نوٹس واپس ہو جاۓ گا ورنہ آپ کےخلاف کرپشن کی چارج شیٹ تیار ہے۔ راجہ طارق افضل کالس محاذ پر ڈٹے ہوۓ ہیں اور تمام تر دباٶ کے باوجود مرد میدان بن کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ تنویر اسلم سیتھی گروپ مضبوط سہی لیکن اس بار راجہ رضوان الیکشن دوڑ میں نہیں ہیں جو راجہ طارق کالس کو نقصان پہنچاٸیں۔ اب تو ون ٹو ون مقابلہ ہے اور واقفان حال بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف اب کی بار اجارہ داری ختم کر کے ہی رہے گی۔ اس حلقہ میں الزام ہےکہ مہوش سلطانہ گروپ ٹکٹ نہ ملنے کا غصّہ بھی 8 فروری کو ہی نکالیں گی۔
منافقت کی یہ سیاست ہر طور تحریک انصاف کو ہی فاٸدہ پہنچا رہی ہے۔ کچھ اپنے دکھ میں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں تو کوٸی عوامی شعور کے آگے ہار مان گئے ہیں۔ فاٸدے میں تو وہ ہیں جو ہر کسی کو یقین دہانی کرا رہے ہیں بلکہ تین تین پارٹیوں کی بیک وقت مہم بھی چلا رہے ہیں۔ تصویریں ن لیگ کی، ووٹ تحریک انصاف کا اور ہمدردیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا ‘
*ہر دور کے یزید کے ساتھی رہے ہیں ہم
اور نام بھی ادب سے لیا ہے حسین کا*
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں