سماج کے گَٹروں میں اچھلتے بوڑھے مینڈکو !
منہ نوچنے والے ناخنوں والی جنگلی چمگادڑو !
ہاں ہاں کیوں نہیں!
بالکل تم تو سؤر کے بچوں کی طرح نسل در نسل دھرتے جاتے ہو،
جشن منا لو، مبارکبادیں وصول کر لو، مٹھائیاں بانٹ لو
کیونکہ تمہارے بدترین دشمن آدمی کی نسل تمہارے فضلے کی گندھ سے سَڑ رہی ہے۔
آدم زاد کے پاؤں دھرنے کو زمین کا چپہ نہیں باقی چھوٹا۔
تمہارا راج ہی راج ہے
سکہ چل رہا ہے تمہارے نام کا،
تمہارے خوف سے آدم زادوں کی سانسیں ان کے پھیپھڑوں میں جم رہی ہیں،
گلیوں میں تم بھرے ہو،
شہروں میں تم بھرے ہو،
گاؤں اور قصبوں میں تم بھرے ہو،
نسلیں جننے میں تم نے جنات کو بھی شرما دیا،
تہہ خانے،کھڈے، کنویں اور سرنگیں تمہاری اولادوں سے منہ تار بھر چکیں
تو تم سارے سؤر کھلے آسمان کے نیچے۔۔
خدا اور سارے جہان کے سامنے بے شرمی اور بے غیرتی کو تمغہ ء جرات سمجھتے ہوئے
ننگ دھڑنک غُل مچانے لگے ہو۔
اس طرح ہلر بازی کرنے سے، نکڑ نکڑ فضلہ لیپ کر، حد بندیاں طے کرتے پھر رہے ہو۔
تمہارے سُموں کی آواز والی دن دیہاڑے کی پریڈ سے اٹھنے والی دھول نے سورج کو ڈھانپ کر آدھی رات کا اندھیرا چاروں اوور پھیلا ڈالا۔
ہر گزرگاہ پر تمہارے ناکے لگے ہیں،
بندہ مار گشت جاری ہیں،
جہاں جی چاہتا ہے وہاں پیشاب کی دھار مار کر، اپنی بُو کا نشان چھاپ کر سرحدیں بنا دیتے ہو اور نقارے لگاتے پھرتے ہو
“آدم بُو، آدم بُو”
“بچا ہے کہیں کوئی آدمی”
او آدم خورو!
تم انسانوں کی بستیوں میں گھس کر، ان کے در و دیوار اپنی تھوتھنیوں اور دو لتیوں سے پٹختے پھرتے ہو، ان کے گھروں میں کود کر ان کے بستروں میں گھستے ہو اور ان کے سماجی منظور شدہ ملاپ پر قہقہے لگاتے ہو۔
ان کے کھانے کے برتنوں کو چاٹتے ہو اور تھوک سے بھر دیتے ہو۔
آدم زاد جنگل اور پہاڑوں میں چھپنے کے لیے بھاگتے پھر رہے ہیں اور تم جیسے ناپاک جانور ان کے مسند اور مقامات پر اپنے نام کی تختیاں لگوا کر آگے پیچھے معزز القابات اور خطابات لگا کر حکومت کر رہے ہیں۔
گویا تم سمجھتے ہو اس طرح سے تم خشکی اور تری پر مکمل قبضہ کر لو گے اور فطرت کے مقابلے میں آن کھڑے ہو گے اور اسے للکارو گے اور اس کے اصولوں کی نقل کر کے اس کے اصولوں کو چیلنج کرو گے۔
مت بھولو کہ دریا جتنے بھی نُچ جائیں کتوں کے چاٹنے کو بہت ہوتے ہیں۔
تم دن رات چیل کوؤں کی طرح زندوں کو نوچ نوچ کر ان کے زخم چاٹتے ہو
تازہ گرم لہو کی چاٹ تمہیں مدہوش کیے ہوئے
تم سب زومبیز ہو جو خون پی پی کر زندہ رہتے ہو
تم تاڑ کرتے ہو،
گھات لگاتے ہو،
کَو (چاپ) سنتے ہو
اور پھر جھپٹ کر دبوچتے ہو
اور چیر پھاڑ کیے بنا
آدم زاد کا آدم زاد ثابت نگل جاتے ہو
ان کی نسل والے اپنے گمشدہ جاندار کی ہڈی پسلی نہیں ڈھونڈ پاتے۔
تو یہ بہادری ہے تمہاری
بہادر تو مقابل کو سنبھلنے کا موقع دیتا ہے
تلوار چھوٹ جائے تو اسے اپنی تلوار دیتا ہے
لیکن یہ پانی میں نشہ ملا کر،
پیار میں زہر دیکر،
مسکراہٹ میں نفرت بھر کر
مارنے کی جعلسازیاں تم نے خوب ایجاد کیں،
شاباش شاباش۔۔
لکیروں کو سانپ بنا کر دکھاتے ہو اور کَھمبھ (پَر) کے کوّے بناتے ہو، تمہارے سامنے کئی بار بات کھلی،
گواہ ملے،
قسم قرآن اٹھے،
ماں باپ اور اولاد کی قسمیں کھائی گئیں لیکن تم لوگوں نے خود کو خدا کی طرح دکھانے کے شوق پال لیے ہیں۔
حالانکہ رعونت کے نشے میں اپنے لیے گھیرا تنگ کر رہے ہو۔
فطرت منظم ترین اصولوں کی تحت چلی آ رہی ہے
یہ اصول مکمل اور نقص سے پاک ہیں
زیادہ ارتکاز سے کم ارتکاز کی جانب بڑھنا ہی تو ڈفیوژن ہے
اور پھر غذائی جال اور غذائی زنجیر ناحق تو نہ ہیں۔
گھاس اُگتی ہے،
اُگتی رہے، اگتی رہے تو زمین سے مریخ تک جا پہنچے،
آسمان کا رنگ نیلے سے سبز ہو جائے
لیکن پھر توازن کیسے بنے گا؟
کیا فطرت منصف نہیں ہے؟
گھاس کو کھانے کے لیے ٹڈے ہیں، ٹڈوں کو کھانے کے لیے ریپٹائلز ہیں۔
ان کو کھانے کے لیے اے ویز ہیں۔
ان کو کھانے کے لیے کارنی وورز اور اومنی وورز ہیں۔
ہر نہلے پہ دہلا دھرا ہے تا کہ کوئی بھی اپنی مقررہ حد سے تجاوز نہ کرے۔
یہاں تو ڈائینوسارز جیسے ختم ہو گئے اور کوئی آج تک یہ نہ سمجھ پایا کہ وہ ختم کیسے ہوئے۔
تم تو پھر بھی بےحد کمزور ہو
اور سن رکھو شکاری جب خود شکار ہوا تو اس کی تلفی سے جنگلوں کا خوف ہی کمزور ہوا۔
آدمیوں کے چولہوں میں پھونکیں مارتے ہو،
شعلے اٹھیں تو بجھانے بھی پہنچ جاتے ہو، اچھا تو پھر اپنے اندر کے شیطان کو تم یوں طاقت پہنچا رہے ہو؟

لکھ رکھو یہی منفی طاقت ایک دن شدید بھوک میں خود تمہیں بلیک ہول کی طرح سے نگل جائے گی۔
پتھر ڈیلھے ٹھیکر کنکر مارنا تمہارے لیے کھیل سہی لیکن یاد رکھو کہ کَھکھر (چھتے) میں کبھی وَٹا (پتھر) نہیں مارنا چاہیے۔
ورنہ منہ دیکھے بھی سگی ماں نہیں پہچان پاتی کہ کس کا جایا پھولا پڑا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں