میں اپنے کام سے تھکا ہارا واپس اپنے کمرے کی جانب لوٹ رہا تھا کہ اچانک میں نے سیاہ ناگ جیسی سڑک پر ایک سواری دیکھی جس پر “الایادی” لکھا ہوا تھا۔ میں نے ذرا غور سے دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے گاڑی وقت کے اُڑن کھٹولے میں بدل گئی ہو اور میں اس پر سوار کئی صدیوں پیچھے سفر کرتے ہوئے جزیرہ عرب میں پہنچ گیا ہوں۔ میں سوچ رہا تھا کہ دنیا میں بے شمار زبانیں موجود ہیں، بعض زبانوں کا سحر اور ان کی شان و شوکت صدیا ں گزر جانے پر بھی ماند نہیں پڑتی اور انہی میں سے ایک عربی زبان بھی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ میں عربی زبان سے واقف نہیں ہوں اور خوش قسمتی یہ ہے کہ مجھے چند زبانوں کے لیے ہمیشہ ایک پُراسرار اور عجیب سی کشش محسوس ہوتی چلی آئی ہے۔ میں ان زبانوں کو نہ سمجھنے کے باوجود ان کی جانب مائل ہوں جن میں عربی بھی شامل ہے۔
تو میں “الایادی” کا ذکر کر رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے یہ نام پڑھا میرا تھکا ہوا ذہن اچانک عرب کے مشہور نجرانی خطیب اور حکیم “قیس بن ساعدہ الایادی” کی جانب چلا گیا۔ جتنی دیر وہ سواری سڑک پر میرے سامنے رہی میں صدیوں پیچھے عکاظ کے میلے میں اس حکیم کا حکمت بھرا خطبہ سنتا رہا۔
یہ قیس بن ساعدہ کوئی عام شخص نہ تھا اسے نبوت سے پہلے نبی کریم ﷺ نے دیکھا تھا، جو پکار رہا تھا،
“أَيُّهَا النَّاسُ، اسْمَعُوا وَعُوا، إنَّهُ مَنْ عَاشَ مَات، وَمَنْ مَاتَ فَات، وَكُلُّ مَا هُوَ آتٍ آت، لَيْلٌ دَاج ، وَنَهَارٌ سَاْج ، وَسَماءٌ ذَاتُ أبْرَاجٍ ، وَنُجُومٌ تَزْهَر ، وَبِحَارٌ تَزْخَر ..، إِنَّ فِي السَّمَاءِ لَخَبَرا، وإِنَّ فِي الأرضِ لَعِبَرا”
اے لوگو! سنو اور یاد رکھو ، جو زندہ ہے وہ مرے گا جو مرے گا وہ دنیا سے چلا جائے گا ، جو کچھ ہونے والا ہے وہ ہو کر رہے گا ، یہ تاریک رات ، یہ روشن دن ، یہ برجوں والا آسمان ، یہ چمکنے والے تارے ، یہ موجیں مارنے والے سمندر ، یقینا ً آسمان میں کوئی خاص قوت ہے اور زمین میں عبرتیں ہیں۔
اسی کے بارے آپ ﷺ نے فرمایا کہ “خدا قیس پر رحم فرمائے، مجھے امید ہے وہ قیامت کے دن تنہا ہی ایک قوم کی جگہ اٹھایا جائے گا‘‘۔ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ وہ سواری نظروں سے غائب ہو گئی اور میرے خیال کی تمام لڑیاں ٹوٹ کر بکھر گئیں۔
خیال کی لڑی ٹوٹ جائے تو بھی کچھ لمحات کے لیے کسی ایک سوچ پر آپ کی توجہ ضرور مرکوز رہتی ہے اگر آپ اسے سنبھال سکیں تو۔۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے بھی خیال کی لڑی سے ایک موتی سنبھال لیا اور سوچنے لگا کہ عربی زبان کی شان بڑھانے کے لیے اور کس کس نے اپنا حصّہ ڈالا ہو گا۔ یوں میں جزیرہ عرب میں گھومتا چلا گیا۔ سب سے پہلے مجھے سبعہ معلقات سے واسطہ پڑا، یعنی سات شعراء کا وہ شاندار اور فصیح و بلیغ کلام جن کی مثال نہ ملنے پر ان کو کعبہ کی دیواروں پر لٹکا دیا گیا، تاکہ مشرق و مغرب سے آنے والا ہر شخص اس کے مقابل کچھ لکھنے کی ہمت کرے یا ان کی شان تسلیم کرے۔ کھنڈروں سے امراء القیس کی آواز آتی تھی، “قفانبک من ذکری حبیب و منزل” اور پھر باقی سبعہ معلقات کے شاعروں کی دلسوز شاعری سنتا ہوا میں لبید بن ربیعہ کی آواز پر رُک گیا جو کہہ رہا تھا،
” وَجَلَا السّيُولُ عَنِ الطَّلولِ كأنَّها
زُبُرٌ تُجِدّ مُتُونَهَا أقْلامُها”
سیلابوں کے بہاؤ نے کھنڈروں کو (مٹی میں گم ہونے کے بعد) ظاہر کر دیا، گویا کہ وہ کتابیں ہیں جن کی قلموں نے ان کی کتابت کو دوبارہ چمکا دیا ہے۔
یہ ایسا شعر تھا کہ فرزدق جیسے شاعر اسے سُن کر وہیں سجدہ ریز ہو گئے تھے۔ یہ سحر، یہ فصاحت و بلاغت آج بھی جوں کی توں ہے بس جاننے والے کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ کیا فقط یہی سبعہ معلقات ہی عربی کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں؟
اس سوال نے کئی بڑے بڑے لوگوں کو میرے سامنے لا کھڑا کیا۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ہی ممکن نہ تھا کہ ان میں سے کون سب سے زیادہ عربی زبان کی شان بڑھاتا ہے۔ غمگین صورت خنساء کے لاجواب کر دینے والے مرثیے، حسان بن ثابت کے قصائد، ثابت بن قیس کی فصاحت و بلاغت کہ جس کے سامنے نجرانی بھی مبہوت، سبحان بن وائل کہ جس کی فصاحت ضرب المثل تھی، “فلان اخطب من سحبان” یعنی فلاں شخص تو سحبان سے بڑھ کر خطیب ہے، ہاشم بن عبد مناف جو کہتے تھے، “اے گروہ قریش! میں تم سے اس بیت اللہ کے حق کے طور پر سوال کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنے مال میں سے بیت اللہ کی زیارت کرنے والوں کے اکرام اور تعاون کے لیے صرف حلال اور پاک مال ہی لگائے۔” ضمرہ بن ضمرہ، قیس بن عاصم، ابو العلا، متنبی سمیت کئی نام میرے سامنے تھے جنہوں نے اپنی فصاحت اور بلاغت کے بل بوتے پر عربی کو شان بخشی تھی۔ میں کسی ایک کا نام لینے سے قاصر تھا۔ مجھے ڈاکٹر طہ حسین کی بات یاد آئی جنہوں نے کہا تھا، “آپ کسی شاعر یا ادیب کے ادبیات کو سمجھ ہی نہیں سکتے اگر آپ نے صرف انھی علوم کا سہارا لیا ہو جن کا سہارا لینے کے ہم لوگ عادی ہیں یعنی علم لغت، علم الانساب، علم الاخبار اور علم النقد وغیرہ۔ اس سلسلے میں آپ کو چند ایسے علوم کا بھی سہارا درکار ہو گا جن کا بظاہر ادب سے کسی قسم کا بھی تعلق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک عربی شاعر متنبی یا ابوالعلا کو ہم پیش کرتے ہیں۔ آپ نحو، لغت،انساب اور تاریخ کے سب سے زیادہ واقف کار کیوں نہ ہوں، آپ علوم معانی بیان و بدیع پر دنیا بھر سے زیادہ قدرت اور مہارت کیوں نہ رکھتے ہوں، یہ چیزیں آپ کے لیے ابوالعلا یا متنبی کے اشعار سمجھنے میں کافی نہ ہوں گی۔ نفسیات انسانی کا مطالعہ ضروری ہو گا تاکہ متنبی کے اشعار سمجھ سکیں۔ طبیعات، مابعد الطبعیات، ہئیت، نجوم بلکہ ریاضی تک سے واقفیت ضروری ہو گی تاکہ آپ ابوالعلا کا کلام سمجھ سکیں۔” اتنی گہرائی شاید دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں تھی۔
میں اب اپنی منزل پر پہنچنے ہی والا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں ایک رسیلا اور ایسا خوبصورت کلام گونجا جس کی مثال اول الذکر کسی شخص یا کلام میں نہیں مل سکتی۔ یہ اس طرح سنائی دیا جسے جنات کو بوقت سحر پہلی مرتبہ اس کلام کی آواز آئی تھی اور وہ پکار اٹھے تھے، “انا سمعنا قرانا عجبا۔” اس کلام کے سامنے سابقہ تمام فصیح و بلیغ اور کاملیت کے دعویدار ماند پڑنے لگے اور یوں محسوس ہوا عربی کی شان اور فوقیت کی بس ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے،”
وھذا لسان عربی مبین” اور یہ (قران کی زبان) روشن عربی زبان ہے۔” اس کے سامنے سب ہیچ تھا، ایسا لگتا تھا جیسے ہر کلام، ہر فصاحت و بلاغت کا شاہ کار یہاں سجدہ ریز ہو گیا ہو۔ آواز پھر گونجی،
“هَلۡ اَتٰى عَلَى الۡاِنۡسَانِ حِيۡنٌ مِّنَ الدَّهۡرِ لَمۡ يَكُنۡ شَيۡـٴً۬ـا مَّذۡكُوۡرًا”
انسان پر کبھی ایسا وقت آیا ہے کہ نہیں، جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا؟
میں گردو پیش کو بھول گیا، میں بھول گیا کہ میں کدھر جا رہا ہوں، میں تو اسی کلام میں کھو چکا تھا۔ زبان تو یہ بھی وہی تھی جو پہلے سنتا آ رہا تھا، مگر ایسی حکمت و دانائی اور فکر ان میں محسوس نہ ہوئی تھی جو اس مرتبہ ہو رہی تھی۔ فصاحت و بلاغت تو ان سابقہ کلاموں میں بھی تھی، دانائی کا رنگ بھی تھا مگر یہ کلام تو میری روح تک م میں اُتر گیا تھا۔ ابھی غور و فکر کر ہی رہا تھا کہ پھر سے آواز سنائی دی،
“یاَيُّهَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الۡكَرِيۡمِ”
اے انسان ! تجھے کس چیز نے اپنے اس پروردگار کے معاملے میں دھوکا لگا دیا ہے جو بڑا کرم والا ہے۔
بس اس کے بعد کچھ سوچنے سمجھنے کی جیسے صلاحیت کھو بیٹھا اور کب سفر مکمل ہوا کچھ خبر نہیں، بس اتنا جانتا ہوں کہ نصف گھنٹے کے اس سفر نے مجھے صدیوں کا سفر کروا کر عربی کی شان سے آشنا کروا دیا تھا اور مجھے عربی کے حقیقی علم کی جانب متوجہ کر دیا تھا۔ یوں سمجھیے کہ “القمر مستفید من الشمس” کے مصداق عربی زبان کی شان و شوکت اسی آفاقی اور لازوال کلام پر ہی منحصر ہے جو اگر عربی میں نہ ہوتا تو پھر شاید عربی یوں روشن ہی نہ رہتی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں