اورینٹل کالج ایلومنائی میٹ اپ/آغر ندیم سحرؔ

اورینٹل کالج لاہور کو قائم ہوئے تقریباً ڈیڑھ صدی کا زمانہ بیت گیا،اس طویل مدت میں مشرق کی اس عظیم دانش گا ہ نے تحقیق و تنقیداورتصنیف و تالیف کے میدان میں جو عظیم الشان روایت قائم کی اس کی اہمیت و افادیت برعظیم پاک و ہند کی تعلیمی تاریخ میں بڑی واضح اور نمایاں ہے۔اس روایت کی آبیاری میں کئی نام ور علما  اور محققین نے اپنا اپنا کردار ادا کیا،کئی نامور تلامذہ نے اس سرچشمہ علوم سے فیض یاب ہو کر ملکی و قومی زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے ۔اس ادارے کو انجمن پنجاب کی توسیع کہا جاتا ہے،انجمن پنجاب کی داغ بیل ۲۱ جنوری ۱۸۶۵ء کو لاہور میں ڈالی گئی ،جس کے مقاصد میں قدیم علوم کا احیاء،دیسی زبان کے ذریعے علوم ِمفیدہ کی اشاعت ،صنعت و تجارت کا فروغ،علمی و ادبی اور معاشرتی و سیاسی مسائل پر بحث ونظر اور صوبے کے بارسوخ،اہل علم طبقات اور افسرانِ حکومت میں رابطے کی بحالی شامل تھا۔ڈاکٹر لائٹنر انجمن کے روحِ رواں تھے،محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نے موضوعاتی مشاعروں کی داغ بیل ڈالی اور دس کامیاب مشاعرے بھی منعقد کروائے۔انجمن کے پہلے ہی سال علوم مشرق کا ایک مدرسہ بھی شروع ہوا،ڈاکٹر لائٹنرعلوم مشرق کی ایک ایسی یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے جس میں جدید علوم اور قدیم علوم کا سنگم ہواور جو یہاں کے باشندوں کی ذہنی و اخلاقی سطح کو بلند کر کے انھیں صحیح معنوں میں علم فاضل بنائے،یہی وجہ ہے انجمن پنجاب اور ڈاکٹر لائٹنر کو اورینٹل کالج کے حوالے سے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔

ایک ماہ قبل اورینٹل کالج سے برادر مشتاق احمد نے جب یہ خو ش خبری سنائی کہ اورینٹل کالج کی انتظامیہ ایک ایلومنائی میٹ اپ رکھ رہی ہے جس کا مقصد اس ادارے سے وابستہ لوگوں کو ملنے کا موقع فراہم کرنا ہے تو دل باغ باغ ہو گیا، اورینٹل کالج کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس اہم ترین دانش گاہ سے وابستگان اور محبت کرنے والے ایک چھت تلے اکٹھے ہو رہے ہیں اور یہ یقینا ایک بڑا اور شاندار اجتماع ہوگا۔اس ادارے کے درودیوار سے محبت کرنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولنے،سننے اور سمجھنے والے موجود ہیں،وہاں وہاں اورینٹل کالج سے عشق کرنے والے موجود ہیں۔اس ادارے سے وابستہ لوگ اسے درگاہ سمجھتے ہیں،ان سرخ گنبدوں میں اڑتے کبوتروں کی زبانی کتنی ہی کہانیاں سنی جا سکتی ہیں۔کیسے کیسے نابغے اس اہم دانش گاہ سے وابستہ رہے،ڈاکٹر علامہ محمد اقبال،ڈاکٹر عبادت بریلوی،ڈاکٹر سہیل احمد خان،ڈاکٹر سید عبداللہ،ڈاکٹر وحید قریشی،ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،،سجاد باقی رضوی،حفیظ تائب، ڈاکٹر خواجہ زکریا،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹرتحسین فراقی اور لمبی فہرست۔۲۴ اور ۲۵ جنوری کو ہونے والے اس عظیم اجتماع کو منیر نیازی سے منسوب کیا گیا،اس سے قبل بھی ایک ادبی میلہ منعقد ہو چکا جسے احمد مشتاق سے منسوب کیا گیا تھا۔یہ ادبی میلے بنیادی طور اورینٹل کالج سے وابستہ احباب کو ملاقات کا موقع فراہم کرنے کے لیے سجائے جا رہے ہیں،انجمن اردو،جس کا بنیادی مقصد طلباء کی علمی و ادبی نشونما ہے،اس نے اورینٹل کالج کی علمی و ادبی روایت کو آگے بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ڈیڑھ صدی بعد اس ایلومنائی میٹ اپ میں کتنے ہی اہم لوگوں سے ملاقات ہو گی،وہ طلباء جنھیں اس ادارے سے فارغ ہوئے تیس،چالیس یا پچاس سال ہو چکے،آج جب وہ ایک عرصے بعد اسی ادارے اور اسی لان میں اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ گپ شپ کریں گے تو سوچیں کتنے ہی زمانے ان کا طواف کریں گے،کیسے ایک پل میں چالیس پچاس سال سمٹ آئیں گے۔

ڈاکٹر معین نظامی،پرنسپل اورینٹل کالج داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنے دور میں ایک ایسا کام کیا جس کی ایک عرصے سے ضرورت تھی،ہمیں اس ادارے سے فارغ ہوئے سات سال ہو چکے،ہم سوچتے تھے کہ کیا کبھی ایسا موقع آئے گا کہ سب کلاس فیلوز ایک مرتبہ پھر ایک ساتھ بیٹھیں گے،کیا کبھی ایسا ہو گا کہ ہم ایک مرتبہ پھر شعبہ اردو کو جاتی لکڑی کی سیڑھیوں پر گھنٹوں بیٹھیں گے،لان میں رکھے سیمنٹ کے بینچوں سے کتنی یادیں وابستہ ہیں،سب ایک پل میں سمٹ جائے گا جب ہم ساٹھ سے ستر کلاس فیلوز ۲۴ یا ۲۵ جنوری کو اورینٹل کالج میں ملیں گے۔ مشتاق احمد(جو ایم اے میں میرا سینئر تھا) نے بہت کوشش سے اس میلے کا اہتمام کیا ہے،اس کے ساتھ ڈاکٹر شعیب احمد اور ڈاکٹر ساجد نظامی بھی۔ان احباب نے اس میٹ اپ کی کامیابی کے لیے بہت محنت کی اور یہ محنت کتنے بچھڑے دلوں کو ملانے کا کام کرے گی،کتنے ہی لوگ نصف صدی بعد مل رہے ہوں گے،اس کا کریڈٹ اس میٹ اپ کی ٹیم کو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

منیر نیازی ادبی میلے میں بین اکلیاتی مقابلہ جات،کتاب میلہ،ادبی سیشنزاور مشاعروں کا اہتمام کیا گیا ہے،اس میلے میں پاکستان بھر کی جامعات سے تشنگان علم و ادب او ر نئے قلم کار اکٹھے ہو رہے ہیں،انھیں ایک دوسرے کو سننے کا موقع مل رہا ہے،ان مقابلہ جات میں شرکت کرنے والوں کو یادگاری اعزازات سے بھی نوازا جائے گا۔اس ادبی میلے اور ایلومنائی میٹ اپ کو جو شہرت مل رہی ہے،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں سے جانے والے اس بات کے منتظر تھے کہ کب انھیں واپس بلایا جائے،اورینٹل کالج کی طرف سے بلاواکسی نعمت سے کم نہیں ہوتا،اس سے وابستہ لوگ اس بلاوے کے منتظر رہتے ہیں۔جتنا بڑا ادارہ ہو،اس سے وابستگی اتنی ہی بابرکت اور قیمتی ہوتی ہے،اورینٹل کالج بھی ایسا ہی ہے۔اس اہم میلے کے موقع پر مشتاق احمد نے ایک اور عمدہ کام کیا،اورینٹل کالج سے وابستہ شاعروں کا تعارف مع کلام بعنوان:‘‘ریت اس نگر کی’’ اور افسانہ نگاروں کا تعارف مع افسانہ‘‘نقش پائے خامہ’’کی بھی اشاعت ممکن بنائی،انجمن اردو کے پہلے رجسٹرڈ (۱۹۵۲۔۱۹۴۸ء) کی اشاعت بھی ایک علمی کارنامہ ہے۔ان کتب کے ذریعے اورینٹل کالج کی علمی روایت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہ تینوں منیر نیازی ادبی میلے کے دوران سنگ میل کے اسٹال پر موجود ہوں گی۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply