بڑوں کے آگے بولتے نہیں ۔۔توقیر کھرل

بے حسی اس قدر ہے جب تک کوئی واقعہ نیوز بلیٹن کا حصہ نہیں بن جاتا یہ ہجوم نما قوم واقعات کو معمول قرار دیکر معمولی سی اداسی کے ساتھ واقعہ کو محو کردیتی ہے۔ قصور میں ہونے والا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا روز بروز بڑھتے واقعات کی شرح اور معاشرہ جس تنزلی کی جانب رخ کئے ہوئے ہیں موثر حل کے بغیر تھمنے والے نہیں ہیں ۔سماج تعفن  زدہ ہوچکا ہے، پریشانیوں،اور ڈپریشن کے شکار نوجوان اور افراد جنسی شدت کا واحد حل جنسی تسکین ہی سمجھتے ہیں اور اس کیلئے معصوم بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار کرتے ہیں

قصور کی سات سالہ زینب کا واقعہ مجھے ایک اور معصوم 7سالہ بچی کا واقعہ یاد دلاتا ہے یہ کہانی مجھے ایک ماہر نفسیات نے کچھ ماہ قبل سنائی ۔

وہ حسب معمول گھر سے باہر ٹافیاں خریدنے گئی تھی محلہ کا ایک شخص جو سب کیلئے قابل بھروسہ تھا نے اپنے گھر میں ناپاک عمل کو انجام دیا ۔جنسی زیادتی کا شکا ربننے والی بچی کا کہنا تھا کہ اسے نہیں معلوم اس کے ساتھ کیا ہوا تھا لیکن یہ احساس ہوا تھا کہ ماں کے علاوہ کسی نے مجھے برہنہ کیا تھا، ماں تو کپڑے اتارنے کے بعد نہلاتی تھی لیکن اب میں بڑی ہوچکی تھی تو اس لئے شاذ و نادر ہی  ماں کپڑے بدلتی تھی لیکن اس مرد نے کپڑے کیوں اتارے ،جو مجھے ہی خود ہی پہننے پڑے تھے۔۔

یہ  پڑھیے:  ماں میں زینب ہوں۔۔۔سید شاہد عباس

ماہر نفسیات نے دریافت کیا ،تو آپ نے مزاحمت کیوں نہ کی؟ تو اس نے کہا کیوں کہ مجھے بچپن میں سکھایا گیا تھا کہ بڑوں کے آگے بولتے نہیں، وہ جو کہتے ہیں بس وہ خاموشی سے کرنا ہوتا ہے، اس لئے مجھے نہیں معلوم تھا میرے ساتھ کیا ہوا تھا، ہاںمیں خوف  زدہ ہوگئی تھی کہ نہ جانے کیا ہوا۔۔میں دوڑتی ہوئی گھر آئی تو میری ماں نے ڈانٹا ،دن بھر سہیلوں سے کھیلتی ہواور ایک تھپڑ بھی رسید کردیا۔وقت گزرتا گیا لیکن وہ واقعہ اس قدر خوفناک تھا کہ میرے ذہن میں بیٹھ گیا اور میری مسکراہٹ چھن گئی تھی۔ ماہر نفسیات کو اشکبار آنکھوں سے بچپن میں جنسی درندگی کا شکار ہونے والی لڑکی نے بتایا کہ مجھے اس روز سے مرد سے نفرت ہوگئی تھی۔اس واقعہ کو 20سا ل گزر چکے ہیں ۔بچپن جو ختم ہی ہوگیا تھا بلوغت کے بعد گرلز ہاسٹل میں رومیٹ لڑکی کے ساتھ پورن مووی دیکھی تو بچپن میں کیا ہوا تھاتو جانا، وہ سب برا ہوا تھا ،زخم پھر سے ہرے ہوگئے تھے ۔

بچپن میں ہونے والے واقعہ کو کئی سال گزر چکے تھے لیکن نفسیاتی طور پر اس کے روح پر بھی برے اثرات ہوئے، مرد سے نفرت کے ساتھ ساتھ جنسی تعلقات سے کوفت محسوس ہوئی تو ہمیشہ کیلئے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر دیا اور 20سال گزرنے کے باوجود مرد کو چھونا تو دور شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔فیصلوں میں بے یقینی اور خوشی کیا ہوتی ہے بچپن میں جنسی تشدد کا شکار عورت نہیں جانتی، بے دلی، اداسی ،مایوسی زندگی کا حصہ بن چکا ہے ،مذہب ،مذہبی مقدسات اس کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرد جو وقتی تسکین کیلئے کسی معصوم بچی سے جنسی تسکین حاصل کر رہا ہوتا ہے اصل میں اس پھول سی کلی کو ہمیشہ کیلئے نفسیاتی طور پر قتل کر چکا ہوتا ہے ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بڑوں کے آگے بولتے نہیں ۔۔توقیر کھرل

Leave a Reply