دوہرا معیار

کیا ہوگیا ہے؟ ہمیں ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے بھارت نے روکا ہے؟ دو وقت کی روٹی خاطر ایمان بیچنے میں امریکہ کا ہاتھ ہے؟ حادثے کے بعد زخمی، شہدا کو اٹھانے کی بجائے انکے پرس موبائل اٹھانے کا درس کس نے دیا ہے؟ مرچوں میں اینٹیں پیس کر دینا، دودھ میں بال صفا پوڈر استعمال کرنا، چینی میں تیزاب ملانا، سجھی دکھا کر کھبی مارنا، بارہ مالٹے گنتے ہوئے گیارہ کر دینا، پچاس کلو کی بوری میں پنتالیس بھرائی کرنا، بھتہ وصول کرنا، ہیجڑوں پر ظلم مظلوموں بے کسوں کا مال کھانا، برقعے، اسلامی شعائر کا غلط استعمال کرنا، بچیاں ونی کرنا، پنچائیت کے بھینٹ چڑھانا، مرضی کے کرداروں کو آگے لانا، لونڈے بازی کرنا، پلاٹ لفافے وصول کرنا کونسا وہ جرم ہے جو ہم نے نہیں کیا؟
ہم امن چاہتے ہیں مگر ایران پر حملے کے خواہاں بھی، ہم امت کو راہِ راست پر لانا چاہتے ہیں مگر تبلیغی جماعت پر پابندی لگوانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، مسلکی نفرت کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر دکان اپنی اپنی اچھی لگتی ہے چورن اپنا بیچنا چاہتے ہیں کافر کافر کے نعرے لگوانا، چندے نذر ونیاز کے نام پر مال بٹورنا، مردے کے گھر کا چالیس دن مرغ و مسلم کھانا عین ثواب سمجھتے ہیں (بھلے خود بچارا دو وقت کے لئے ترستا ہو) ہم وضو بہت احتیاط سے کرتے ہیں مگر کم تولتے ہوئے احتیاط کرنا پسند نہیں کرتے، ہم نماز تو بڑے انہماک سے ادا کرتے ہیں مگر جھوٹ بولتے ہوئے، کسی مسکین کا مال ہڑپ کرتے ہوئے احساس نہیں ہوتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے، ہم حج شوق سے کرتے ہیں مگر بھوکے ہمسائے کے حالات سے ناواقف ہیں، ہم مسجد کے ایک ستون پر 2 لاکھ خرچ کر دیتے ہیں مگر مولوی کو 2 ہزار ہی دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں بھارت مسلمانوں کو سیکولر مان لے مگر پاکستان میں سیکولر ہونے کی اجازت نہیں، ہم چاہتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ مسلمان ہوجائے مگر خود کلمہ بھی ٹھیک تلفظ ساتھ ادا نہیں کرسکتے، ہم چاہتے ہیں پوری دنیا کو ہدایت مل جائے مگر خود ہٹ دھرمی تعصب انا کا شکار ہیں، ہم چاہتے ہیں لوگ ہماری مرضی کا بولیں ہماری مرضی کا سنیں مگر خود تنقید برداشت نہیں کرتے، ہم چاہتے ہیں ملک امن کا گہوارہ ہو مگر سہولت کار بننے سے بھی باز نہیں آتے کسی نے چار پیسے کیا دکھائے ہماری رال ٹپکنے لگ گئی ہم مک و قوم بھول گئے، ہم چاہتے ہیں لوگ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کریں مگر ہم انہیں چونا لگانے سے باز نہیں آتے، ہم دوسروں کا بیانیہ تو تبدیل کروانا چاہتے ہیں مگر خود اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، ہم چاہتے ہیں مدارس کے طلباء بھی عملی میدان میں آگے بڑھیں مگر ہمیں انکا فلم دیکھنا انٹرنیٹ استعمال کرنا ایک آنکھ نہیں بھاتا، ہم آزادی صحافت کا رونا تو روتے ہیں مگر آواز دبانے کے لئے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے، ہم انڈیا ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں مگر سرمایہ کاری کرنے والوں کو انکا یار کہتے ہیں، ہم خود مختاری کا راگ الاپتے ہیں اور ہاتھ بھی پھیلاتے ہیں، ہم حقائق سے نظریں نہیں چرانا چاہتے پھر بھی حسن نثار کو گالیاں دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کوئی سب کا دکھ درد سمجھنے والا ہو مگر ابو لبابہ شاہ منصور اچھا نہیں لگتا، ہم مکالمہ چاہتے ہیں مگر رانا انعام پسند نہیں کٹر شیعہ جو ہے (خدا جانے یہ کہنے والا خود مسلمان بھی ہے یا نہیں) ہمیں سجاد علی شاہ کا اداروں پر انگلی اٹھانا اچھا نہیں لگتا مگر اداروں کو کوئی نہیں کہتا کہ اپنے کرتوت دیکھو ادارے، ریاست پہلے دہشت گرد پالتے ہیں استعمال کرتے ہیں پھینک دیتے ہیں, ملک اسحاق اور حافظ سعید مثال ہمارے سامنے ہے
ریاست کو چاہئے ماں بنے
مولویوں کو چاہئے، واپس لوٹ آئیں بہت ہوگیا اب ہم مزید کسی نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ منبر پر کچھ، فیس بک پر کچھ کہنا چھوڑیئے اصلی زندگی میں واپس آ جائیں کیونکہ دوغلی پالیسی، منافقت زیادہ دیر نہیں چلتی۔
ہمیں خود کو بدلنا ہوگا دوسروں کی رائے کا احترام کرنا ہوگا سب کو انسان تسلیم کرنا ہوگا اپنی اداؤں پر غور کرکے پاکستان کو مستحکم کرنا ہوگا قوم بن کر رہنا ہوگا کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply