بحیثیت افسانہ نگار ْممتاز حسینٌ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ جھنگ میں پیدا ہوۓ،اپنی راہیں خود بنانے کی تگ ودو میں نیویارک میں مستقل قیام کیا۔بحیثیت مصور، ڈرامہ نگار، شاعر، افسانہ نگار،اور فلمساز نام کمایا مگر جھنگ کی خوشبو اور مٹی کو اپنے ساتھ رکھا۔ سولہ افسانوں کے اس مجموعے میں قاری کا واسطہ مختلف کردار، تجربات، انسانی احساسات، معاشرتی تصادم سے پڑتا ہے۔ہر افسانہ زندگی کے حقائق اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
ممتاز حسین کشتیاں جلا کر لکھتے ہیں، اس لیے ان کے افسانے اور کردار معاشرے کے اس گھناؤنے روپ سے پردہ اٹھاتے نظر آتے ہیں جن پر لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ان کے افسانوں کے کردار عام لوگ ہیں جو ہمارے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں، انہی کرداروں کے منفی اور مثبت رویوں کو لفظوں میں ڈھال کر افسانہ لکھنا ایک جوکھم ہے۔ایک افسانہ نگار جب لکھنے کے عمل سے گزرتا ہے تو اس کی سوچ بسااوقات الفاظ کی بندش سے آزاد ہو جاتی ہے، تخلیق کار کی اذیت بعض دفعہ الفاظ سے بھی بیان نہیں ہو سکتی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ افسانہ دراصل لکھنے والے کے مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے، ذہن میں موجود خیال سے شروع ہونے والے افسانے کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی مشکل کو سہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
ممتاز حسین کے افسانوں کی زباں بہت سہل اور روزمرّہ کی زبان ہے۔ان کے کردار اپنے ماحول میں رچے بسے اور سانس لیتے ہوۓ محسوس ہوتے ہیں۔”کوّا بھونکتا کیوں ہے؟”جس میں کوّا اپنے ماحول، اساطیری کردار، یونانی دیوتاؤں سے ہم کلام نظر آتا ہے۔مذہبی علامات، ہابیل قابیل کا تذکرہ، اور پھر افسانے کا اختتام اس پر کہ صحیح کس کی نظر میں صحیح ہے، اور غلط، غلط کیوں ہے؟
“ممتاز” افسانہ دراصل اس حساس موضوع پر بات کرتا نظر آتا ہے جس پر ہم بات نہیں کرنا چاہتے۔اس افسانے میں ممتاز حسین نے انسانی ذات کے جذباتی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔روحانی اور جسمانی تعلق کا آغاز، اس کی انتہا اور پھر انجام کیا ہوتا ہے؟ انسانی جسم کی بھوک، اس کے فطری تقاضے پھر ان تقاضوں کو “ایک چمڑے کے ٹکڑے” کا استعارہ استعمال کرتے ہوۓ اجاگر کرنا درحقیقت مشکل امر ہے۔
“میں کہاں جاؤں” ایک حیرت انگیز افسانہ ہے۔اس میں شکنتلا کا کردار دوہری اہمیت کا حامل ہے۔شکنتلا ہندو مِتھ کے کرداروں میں بھی شامل ہے۔محض سرکس کے چند کرداروں پر بنا یہ افسانہ چند بڑے فیصلوں پر ختم ہوتا ہے۔ممتاز حسین نے افسانے کے اختتام پر جو اہم سوالات اٹھاۓ ہیں، وہی اس افسانے کو نام دینے میں مددگار رہے۔
“خدا کی دلہن”پڑھ کر ایسے بہت سے خیال ذہن میں آتے ہیں جن کا اظہار بلا شبہ دائر ہ اسلام سے خروج ہوتا ہے۔انسانی تعلقات، معاشرے کی جنسی فضا ا ور منافقت سے دور رہ کر ایک تعلق کو مذہبی ٹھیکیداروں کے سماجی رویوں کے سامنے برہنہ کرنا کسی جرات مند ا نسان کا ہی کام ہے ،مذہب کے ٹھیکیداروں کو تعلقات کی گہرائی سے غرض نہیں ہوتی۔ ہمارا مذہبی نظام بھی نرگسیت کا شکار ہے،اوراس کی زد سےکوئی مذہب یا معاشرہ محفوظ نہیں۔ محبت یا انسانی تعلقات مذ ہب نہیں تسلیم کرتا۔مذ ہب صرف اپنی محبت کا اسیر ہے۔مذہب کی پھولوں سے لدی سیج اکثر ہی ارمانوں کی چتا ہوتی ہے۔بلاشبہ یہ افسانہ انتہائی پُر اثر ہے۔حاتم اور کارمن کی محبت نے معاشرتی معیارات اور اہم اُصولوں پر سوالات اُٹھائے ہیں۔
“بے داغ” دراصل اس دنیا کے بارے میں لکھا افسانہ ہے جس پر بہت سے لکھنے والے لکھنے سے احتراز برتتے ہیں۔بالا اور پارو کے تعلقات، جنس منڈی کا ماحول افسانے کو حقیقت سے قریب تر کر دیتا ہے۔
“ایک تھی انارکلی” میں محبت، نفرت اور انتقام کا عنصر نمایاں ہے۔یہ کہانی بےشمار جہتوں اور رنگوں سے بُنی گئی ہے اور کہانی کا کلائمکس ہی انتقام اور نفرت کی گہرائی ہے۔
“گھونگھہ ” میں دراصل خودکلامی عروج پر ہے۔ گھونگھہ کے استعارے میں ممتاز حسین نےاس معاشرے کے ایک اور پہلو سے پردہ اٹھایا ہے۔ہم جنسیت پر بہت کچھ لکھا گیا مگر گھونگھے کے استعارے میں انسانی ذات اور اس کے رویوں کی عکاسی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
“اس کے آقاکی آواز”نفسیاتی اور جذباتی طور پر غلامانہ ذہنیت کی کہانی ہے، جس میں جاوید کے نفسیاتی کمپلیکس کو کُتے کے استعارے کے ذریعےاجاگر کیا گیا ہے، اور اس کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا گیا ہے۔
“کفن کھسوٹ” ایک اور معاشرتی الم کی کہانی، جس کا انجام اس معاشرے کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔
“یک چشمی بارش” کا ایک نمایاں پہلو توقعات اور عارضی تعلقات پر تفصیلات ہیں۔ رفعت اپنے تعلیم یافتہ پس منظر کے باوجود استحصال کا شکار ہے ۔ہیرے کی انگوٹھی کا استعمال ایک درمیانی نشان کے طور پر کام کرتا ہے، محبت، قربانی اور معاشرتی توقعات کا پرچار کرتا ہے۔ رفعت کی انگوٹھی کا چھوڑا گیا ہیرا متاثر کُن وعدے اور شکستہ خواہشوں کا ایک طاقتور نمائندہ بنتا ہے۔
“گلے میں گرہ، کان میں تیل”911 کے پس منظر میں لکھا افسانہ ہے، اورپی ٹی ا یس ڈی کو شامل کیا گیا ہے، جبکہ “نشان اور نشا نہ “میں مذہبی تعصبات اوراختلافا ت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔”ہوبہو” ایک آرٹس کی لا محد ود تخلیقی صلاحیت کی کہانی ہے۔
کتاب کی آخری کہانی کا عنوان “چے چمک چہرہ” ہے۔یہ افسانہ خواب کی تلاش اور غیر معمولی الہام کی قوت کا دلچسپ امتزاج ہے۔ یہ کہانی ایک فنکار اور اس کے شاہکار کی تلاش کے گرد گھومتی ہے۔وہ شاہکار جو اُسکی روح کے دروازے کھولتا ہے۔
ظہور اپنے پچھلے کاموں سے ناخوش ہو کر ایک چہرے کی تلاش میں ہے جو اُسکی روح کے دروازے کو کھول سکے،اور جو دل کی پیاس کو بجھا سکے۔خوبصورتی کی اہمیت، فنکار کی خود شناسی کے سفر، اور غیر معمولی الہام کی توانائی پر غور کرتی یہ کہانی سماجی معیاروں کا تنقیدی جائزہ لیتی ہے، اور حقیقی خوبصورتی اور اندر کی ذات کی تلاش میں غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔چ کا حرف یہاں چہرہ کی نشاندہی کرتا ہے۔
ممتاز حسین اس دور کے منٹو ہیں یا موپساں،اس کا فیصلہ آنے والا زمانہ اور محققین کریں گے۔بہر حال”لفظوں میں تصویریں” کی ہر کہانی ،ہر لفظ میں ایک جادوئی دنیا چھپائے ہوئے ہے۔ اس کے افسانے ہمیں خود میں دلچسپی لینے کا کہتے ہیں اور حیران کر دیتے ہیں۔ کتاب کا ہر صفحے بشمول تصویریں ،ایک خاص تاثر چھوڑتا ہے ۔ یہ کتاب ہر شخصیت اور ہر منظر کو زندگی بخشتی ہے۔ اس کتاب کا ہر صفحہ ایک خواب کی طرح ہے جو ہمیں حقیقت کی دنیا سے ایک اور بہترین دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں