پنجابی ناشتے بمقابل ناشتے کی تاریخ/منصور ندیم

ماہرین قدیمہ کے ماہرین کی رسرچ کے نتائج سے یہی پتہ چلتا ہے کہ زراعت کے آغاز کے ساتھ ہی لوگوں نے صبح کے کھانے میں اناج پر انحصار کرنا شروع کیا تھا، اور صبح کے پہلے کھانے میں وہ گندم، جو، اور دوسرے اناج کا سہارا لیتے تھے۔ خیر تو صبح کے ناشتے میں گندم اور اناج کے استعمال کا تصور اناطولیہ کے پہاڑوں سے یورپ منتقل ہوا تھا۔ فراعین مصر کے زمانے میں کسان اور غریب لوگ کام پر جانے سے پہلے روٹی اور پیاز پر مشتمل ایک وقت کھاتے تھے۔ (یعنی شائد فراعین اصلا آرائیوں کی ذریت تھے). ماضی میں دن کے کھانے کی تعداد اور اوقات وقتاً فوقتاً الگ یا ایک تہذیب یا معاشرے سے دوسرے میں مختلف ہوتے تھے اور ہیں، اس کے علاوہ کئی سماجی طبقات، خاص طور پر اعلیٰ طبقے پر بھی یہ طے ہوتا تھا۔ امیر طبقے کے رسم و رواج نے باورچی خانے کے بہت سے روایتی اوزاروں کے پھیلاؤ کے علاوہ ناشتے کے لیے بہت سی عادات کے قیام میں بھی کردار ادا کیا، جیسے کہ اسے بستر پر کھانا۔ یا Bed Tea یعنی صبح اٹھتے ہیں بستر پر چائے یا کافی پینا وغیرہ ۔
برصغیر کی عمومی پریکٹس دن میں تین بار کھانے کی ہے، دنیا میں کئی ثقافتوں میں دن میں دو سے لے کر کر پانچ بار کھانے کی ثقافت بھی ہے، کسی بھی صورت میں ناشتہ ان تین یا پانچ روزمرہ کے کھانوں میں سے ایک ہے جس کی زیادہ تر لوگ تمام براعظموں میں پیروی کرتے ہیں، اور یہ وہ کھانا ہے جو صبح کام پر جانے سے پہلے اور دوپہر کے کھانے سے پہلے کھایا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک اور ثقافتوں نے اس مقصد کے لیے ان کے تیار کردہ اور کھاتا کھانے کی اقسام کو محفوظ کر رکھا ہے۔ تاہم، دنیا کے بہت سے ممالک نے بین الاقوامی سیاحت کے شعبے کے پھیلاؤ اور ترقی کے ساتھ، اس ناشتے کو بنانے والی اشیاء کو یکجا کرنا شروع کر دیا ہے، جیسے مکھن، دودھ، چائے، کافی، روٹی یا ٹوسٹ، تلے ہوئے انڈے، جام، پینکیکس، اور مختلف قسم کے جوس، خاص طور پر اورنج جوس، ساسیجز، کریم، فرانسیسی کروسینٹس اور مٹھائیاں وغیرہ ۔
آج دنیا کی موجود تاریخ میں ناشتے کی بڑی اقسام کو برصغیر میں دیکھا جائے تو ڈیری پروڈکٹس کا تمام معاشروں میں شامل ہونا پنجابیوں کے مرہون منت ہے، ڈیری کی ہر شکل دیسی گھی، مکھن، پنیر، لسی اور دہی کا استعمال برصغیر میں پنجابیوں نے کیا ہے، ہلپنجاںی ثقافت میں دودھ کی خاص اہمیت ہے، دودھ کی دستیابی بھینس پنجابی ثقافت میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے، پنجابی تمدن میں بھینس ایک متنوع حیثیت رکھتی ہے، بھینس بخود ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہے، پنجاب کی ثقافت میں بھینس کے دودھ سے لے کر گوبر تک ہر شے قابل استعمال ہے۔ دنیا میں صنعتی انقلاب وہ اہم عنصر تھا جس نے انیسویں صدی میں ناشتے کو دن کے پہلے کھانے کے طور پر قائم کرنے میں مدد کی، برطانیہ اور یورپ بھر میں فیکٹریوں اور لیبارٹریوں کے پھیلاؤ اور لاکھوں مزدوروں اور ملازمین کو کھانے کے لیے ضرورت تھی جس سے انہیں طاقت ملتی ہے۔ صبح کام شروع کرنے سے پہلے یا کسی درجے میں زرعی زندگی میں کام کے دوران ناشتے کا آغاز ہوا۔ پنجاب میں بھی جب زرعی پیداوار سے جڑے افراد اور منڈی سے جڑے افراد کا ربط ہوا تو صبح کا پہلا ناشتہ ڈیری پروڈکٹ سے قدرے الگ بھی ہوا تو ناشتے میں گوشت کھانے کے استعمال سے “کارن فلیکس” (مکئی کے فلیکس) یا جسے بعد میں ناشتے کے سیریل کے نام سے جانا جاتا ہے کھانے کی طرف تبدیلی کا آغاز اتفاق سے انیسویں صدی کے آخر میں برطانیہ سے محسوس ہوتا ہے، مگر اصلا برصغیر میں پنجاب نے ہی صبح ناشتے میں نہاری، جسے نہار منہ کھانے کی وجہ سے شہرت ملی، بونگ پائے اور مرغ چنے وغیرہ سے بھاری بھرکم ناشتے کا تصور دیا تو زراعت سے منڈی تک کے سفر میں مزدوروں کے لئے صبح ایک بھاری بھرکم و توانائی سے بھر پور ناشتہ تھا۔
اس کے مقابل ناشتے کے دنیا بھر میں اپنی مقامی ثقافتی ناشتوں کے ریستوراں بھی ہیں، یعنی پوری دنیا میں ناشتہ مقامی تہذیب کے اعتبار سے معروف ہے، جن میں لندن کے مشہور ترین ریستوران بسیلرو یونین (برطانوی ناشتہ)، کیوان گارڈن میں بالتھزار (فرانسیسی ناشتہ)، پلم اسپلٹ دودھ (فرانسیسی ناشتہ)، پولوسٹن (فرانسیسی ناشتہ)، Aqua Chard in the Shard Tower (Continental) and Hoy Polloy At the Ace Hotel (کانٹینینٹل ناشتہ)، Won Canada Square، Bistrotheque (کانٹینینٹل ناشتہ)، Christopher’s (شمالی امریکی ناشتہ)، The Green Store (بین الاقوامی ناشتہ)، The Provider (International) ناشتہ – مرکب) اور سموک ہاؤس (برطانوی ناشتہ)۔ اس کے علاوہ میکڈونلڈز اور برگر کنگ جیسی بین الاقوامی ریستوراں کمپنیاں بھی ناشتے میں فاسٹ فوڈ پیش کرنے لگی ہیں اور بڑے شہروں کے ملازمین کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے جدید کیفے مختلف قسم کے سینڈوچ اور چھوٹے گرم کھانے فراہم کر کے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
لیکن یقین کرلیں، برصغیر میں بیکری پروڈکٹ میں بھی کیک رس اور پاپے یا رس یوں یا نان خطائی یہ سب بھی پنجابی ہیں، ڈیری پروڈکٹ کا مکمل استعمال بر صغیر میں صبح ناشتے میں پنجابیوں کی ہی ثقافت کے مرہون منت ہے، جس میں صبح ناشتے میں دودھ کا استعمال، دہی کا استعمال لسی کا استعمال، دیسی گھی کے پراٹھے، مکھن پنیر، یا ڈیری پروڈکٹ سے دوسری اشیاء جو ناشتے کے لیے بنائی جاتی ہے، انڈوں کی مختلف ڈشز بطور ناشتہ اور بھاری گوشت کے سالن مرغ چنے، بکرے یا گائے کے پائے کا سالن، اور دہلی میں منڈیوں اور فیکٹریاں کے مزدوروں کے لیے نہار منہ ایک بھاری بھرکم کھانے کے طور پر متعارف ہونے والا سستا ترین کھانا اس وقت “نہاری” بھی پنجابیوں نے ہی متعارف کروائی ہیں۔ جو اس وقت مزدوروں کے لیے کم پیسوں میں ایک بھاری بھر کا ناشتہ مہیا کرتا تھا جسے نہاری کی ایک پلیٹ کے ساتھ دو نان یا کلچے ایک مزدور کھا کر اگلے چار گھنٹے سخت مشقت کرسکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ شہری زندگی میں بعد میں اسی نہاری کو دوپہر اور رات کا کھانا بنا دیا، اور یہی نہاری اب قدرے مہنگی بھی ہو گئی ہے، پنجابیوں نے صبح ناشتے میں میٹھی سوغات میں حلوہ پوری یا چنے پوری بھی متعارف کروائی، گھی یا تیل سے تلی میدے کی یہ روٹی جسے پوری کہہ لیں، ایک مزدور کے لیے ہی بھرپور غذا ہو سکتی ہے جس نے یہ پوریاں کھانے کے بعد چار گھنٹے شدید مشقت کا کام کرنا تھا۔ گرمیوں میں ڈیری پروڈکٹ تو سردیوں میں مکئی کی روٹی اور ساگ جس میں ڈیری مصنوعات سے دیسی گھی اور مکھن بہرحال شامل رہا، نان اور کلچے کی بہتری اقسام اور چنے کا سالن پنجاب کی بنیادی ثقافت ہے۔
آج دنیا چاہے صحت عامہ کو بہتر بنانے اور ناشتے کی خوراک میں تبدیلی لا رہی ہے اب ہم خشک میوہ جات کے مرکب کے طور پر جانتے ہیں، اناج کے فلیکس اور گری دار میوے لوگوں کی ہضم کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے اور انہیں ٹھنڈا ناشتہ کرنے کے قابل بناتے ہیں، مگر مزدوروں اور عام شہریوں کے لئے اور برصغیری مزاج کو پنجابیوں نے جو صبح کے ناشتے میں ہمہ اقسام کھانے و پکوان دئیے ہیں، دنیا کی معروف ترین تہذیبوں میں بھی ناشتے میں اتنا تنوع نہیں ملے گا، جو انسان کے زرعی آغاز سے آج تک صرف پنجابیوں کے ناشتے میں اپنے اصل سے جدید دور تک مل رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply