جانے خدا

جانے خدا
منصور مانی
وہ جو گرا دی تم نے!
وہ طوبی گھر تھی خدا کا
چھ سال کی عبادت کو
کس طرح پامال تم نے کیا؟

جانے خدا !
میں بہت کچھ نہیں جانتی تھی، جان بھی کیسے سکتی تھی صرف چھ سال کی تو تھی، ان چھ برسوں میں تھر کی گرمی بھوک نے مگر بہت کچھ سکھا دیا تھا، میں جان چکی تھی کہ جب بھوک گھر کے آنگن میں گدھ بن کر اترتی ہے تو کس طرح اخلاقیات کو نوچ نوچ کر لہو لہان کرتی ہیں، میں جان چکی تھی جب ابا تھر کی سڑک کنارے بیٹھ کر اپنا نشہ پورا کرنے کے بعد خالی ہاتھ گھر آتے، اور بھوکے پیٹ اماں کو نوچ نوچ کر کمرے میں چلنے کا بولتے تو اس کا کیا مطلب ہوتا تھا۔
میں صرف چھ سال کی تھی، مگر مجھے علم تھا کہ بھوک کیا ہوتی ہے! مجھے معلوم تھا کہ پیاس کیا ہوتی ہے، میں سار دن ننگے پیر باہر کھیلتی، دنیا میں جس چیز سے میری سب سے زیادہ واقفیت تھی وہ بھوک تھی، میرے اردگرد صرف بھوک تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کے دنیا میں بھوک کے علاوعہ بھی کچھ ہوتا ہے اور پھر ایک دن۔
مجھے بتایا گیا کہ یہ کراچی ہے، میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ سیب اور کیلا دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں ، مجھے معلوم پڑا کہ دنیا میں بھوک کے علاوعہ بھی بہت کچھ ہے، میں نے دیکھا کہ لوگ کس طرح کھاتے ہیں ، میں نے بہت جلد سیکھ لیا کہ دنیا میں کیا کیا موجود ہے، آپ تو جانتے ہیں غریب کا بچہ بچپن میں ہی بوڑھا ہو جاتا ہے، اس پر معصومیت کبھی نہیں آتی،تو بس میں نے بھی بہت جلد سیکھ لیا کے کس طرح کورنگی میں واقع شادی گھروں کے باہر کھڑے رہہ کر چند چیزیں بیچ کر چار پیسے اور شادی کا کھانا مفت حاصل کیا جا سکتا ہے، میں صرف چھ سال کی تھی، مجھے معلوم ہو گیا تھا کے دنیا میں صرف پیٹ کی بھوک ہی نہیں ہوتی، میں خوب سمجھتی تھی کہ اشارے کب گندے اور مضحکہ خیز بن جاتے ہیں۔
آپ نے کبھی پنجاب چورنگی پر ٹریفک سگنل پر اُس لڑکی کو دیکھا ہے جو ننگے پیر چھوٹا سا ڈوپٹہ باندھے آپ کی گاڑی کا شیشہ صاف کرنے کے لیے تیزی سے آپ کی جانب آتی ہے میری ہم عمر ہی تو ہے وہ، آپ تو اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیتے ہیں اور گاڑی تھوڑا آگے بڑھا لیتے ہیں، مگر کچھ ہیں جو اُسے جھڑکتے نہیں، اُسے پاس بلا لیتے ہیں اور کبھی کبھی چند لمحوں کے لیے گاڑی میں بھی بیٹھا لیتے ہیں!
نہیں نہیں آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، آئیں لذت کشید کریں، میں آپ کو بتاتی ہوں، کے اُس دن کیا ہوا،
اُس دن میرے پیر میں نئی چپل تھی، نئی سے مراد مجھے تو پرانی ہی ملی تھی مگر میرے لیے نئی تھی، وہ پہلا دن تھا جب میں اردگرد دیکھنے کے بجائے صرف اپنے پیروں کو دیکھتے ہوئے چل رہی تھی!
میں ابھی تھوڑی دور ہی چلی تھی کہ ایک ہاتھ میرے منہ پر آ کر جم گیا، مجھے چرس کی شدید بدبو محسوس ہوئی،میں سمجھ گئی کہ مجھے کوئی پکڑ کر لے جا رہا ہے،
میری آنکھ کھلی، مجھے معلوم تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، مگر میں صرف چھ سال کی بچی تھی، یہ نہیں معلوم تھا کے یہ سب کس قدر وحشت ناک ہو گا، وہ چھ ہاتھ تھے!
میری آنکھیں دھندلا گئی تھیں، احساس مر چکا تھا، مگر مجھے کان میں کہیں سے پانی بہنے کی آواز آ رہی تھی، پھر مجھے ایک آواز سنائی دی ، کسی نے مار کے ڈال دیا ہے، میرے دماغ میں موجود بھوک کا تصور مکمل ہو چکا تھا، میں جس جگہ پڑی تھی وہ ایک گندہ نالہ تھا، میں بھی تو گندی ہو چکی تھی!
میرا بدن بری طرح مجروح تھا، گلا کان تک کٹ چکا تھا، کلائی ادھڑی ہوئی تھی، سول اسپتال میں ،اُس دن میں ایک المیہ تھی، اور میڈیا پر چند دن کی ریٹنگ!

اس بچی کا گینگ ریپ ہوا ہے، کئی لوگوں نے اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے، زیادتی کیا ہوتی ہے میں نے سن رکھا تھا، اجتماعی زیادتی کیا ہوتی ہے میں بدن پر جھیل کر آئی تھی!
ڈاکٹرز نے میرا علاج بہت جانفشانی سے کیا، مجھے ٹراما سینٹر میں شفٹ کیا جا چکا تھا، مجھ سے کئی لوگ ملنے آتے تھے ، مجھے بچی سمجھ کر بہلانے کی کوشش کرتے تھے، مگر وہ نہیں جانتے تھے میں بچی کہاں تھی اب!

میرے ماں باپ میرے غم میں نڈھال تھے، اس بات پر بھی افسردہ تھے کے حکومت نے ہماری داد رسی نہ کی، نہ کوئی امداد کا اعلان نہ کوئی ، پیسا!

وہ بھی کیا کریں، جس ملک میں لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہ ہوں وہ کسی کے عزت لٹوانے پر جرمانے کہاں سے بھرتا پھرے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

دن ویسے ہی گزر رہے ہیں جیسے پہلے گزرتے تھے، معصومیت تو پہلے بھی نہیں تھی آپ تو جانتے ہیں غریب کا بچہ کچھ بھی ہو معصوم نہیں ہو سکتا، بہت کچھ پہلے جانتی تھی مگر اب بہت کچھ جان چکی ہوں، اب میں جانتی ہوں کہ درد کب حد سے گزرتا ہے، میں جانتی ہوں جب کوئی تیز دھار چیز آپ کے گلے کو کاٹتی ہے تو وہ ایک لمحے کا درد کیسے صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے، اب میں جانتی ہوں ، عزت زندگی مستقبل سے بے کار چیز ہیں اصل چیز صرف آپ کا حال ہے وہ لمحہ جس میں آپ جی رہے ہوتے ہیں، میں مگر ایک ہی لمحے میں مقید ہو چکی ہوں وہ لمحہ جب وہ چھ ہاتھ میرے سمت بڑھے تھے!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply