کیا پاکستان غریب ملک ہے؟

امریکا کے بقول پاکستان دنیا کا34واںغریب ترین ملک ہے اورتمام رپورٹیں واعدادوشمار بھی یہی ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان واقعی غریب ملک ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے،بھلا اس ملک کو کس طرح غریب کہا جاسکتا ہے،جو اپنے ایک شہر کراچی میں ایک نمائشی چشمہ بنائے جس کو چلانے کے لئے روزانہ1لاکھ16ہزار روپے خرچ ہوتے ہو،جس کے عوام ہر سال 8ارب کے چائے پی جاتے ہو،جس کے پاس سرکاری گاڑیوں کے تعداد2لاکھ63ہزار8سوسے زائد ہواوران پر سالانہ75ارب روپے خرچ کرتا ہو،جو بجلی کے اس شدید ترین بحران میں بھی واپڈا کے ملازمین کو53ارب کی سالانہ مفت بجلی فراہم کرتا ہو،جو اپنے وزیروں ،مشیروں،وزیر مملکت اور پارلیمانی سیکرٹریوں پرسالانہ16ارب روپے خرچ کرتا ہو،دنیا کا اربوں کا مقروض ہونے کے باوجود اپنے سیاست دانوں،جاگیردانوںاور صنعت کاروں کے125ارب سے زائد قرض معاف کر دیتا ہو۔
جس کے وزائے اعظم اپنے اپنے دور میں صرف حج و عمروں میں کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہوں،وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اپنے دور اقتدار میں ایک وفد کے ساتھ حج وعمرہ پر1کروڑ34لاکھ،چوہدری شجاعت1کروڑ52لاکھ،شوکت عزیز1کرو ڑ87لاکھ جبکہ موجودہ صدر آصف علی زرداری2کروڑ روپے خرچ کر دیتا ہو،جس کا وزیر عظم 28بلٹ پروف لگژری گاڑیاں جن کی مالیتی قیمت2ارب تھی ان میں24 کواپنے ذاتی تصرف میں رکھتا ہو4گاڑیاں صدر مشرف کو تحفے میں دے دیتا ہواور اس کے بعد آنے والے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ان قیمتی گاڑیوں کو بیچ کر رقم سرکاری خزانے میں ڈالنے کے بجائے18گاڑیوں کو حکومت و اپوزیشن ارکان میں بانٹ دیتا ہو اور خود3بلٹ پروف گاڑیوں کو اپنے ذاتی استعمال میں رکھ لیتا ہو،جواپنی ایک سابقہ وزیر اعظمہ کے قتل کی انکوائری اقوام متحدہ سے کرانے کے لئے15لاکھ ڈالرلگا دے،جس کا وزیراعظم10غیر ملکی دوروں پر17,60,16403روپے خرچ کردے اور ایک دورہ ہانگ کانگ کا منسوخ ہونے کے باوجود10,912,205خرچ کر دے،جس کے14غیر پیشہ ورانہ سفیر کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہو،جو اپنے ریٹائرڈ ہونے والے فوجی جوانوں کو ہزاورں ایکڑ ززمین سونپ دیتا ہو اور جس کی سرکاری عمارتیں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہو،جس کے صرف80سرکاری افسران 2ہزار6سو6کنال پر مشتمل رہائش گاہیں استعمال کر رہے ہو جن کی نگہداشت،مرمت اور حفاظت کے لئے30ہزار ڈائریکٹ اوران ڈائریکٹ ملازمین ہواور صرف اس کے لانوں پر12سے18کروڑروپے سالانہ خرچ ہوتا ہو۔
ان رہائش گاہوں کی مالیتی قیمت 1کھرب سے زائد بنتی ہے اور اگر صرف ان رہائش گاہوں کو فروخت کر دیا جائے اوررقم واپڈا کو دے دی جائے تو، واپڈا کو4سال تک بجلی کی قیمت بڑھانے کی ضرورت نہ پڑے۔اگر یہ رقم ہائی وے کو دے دی جائے تو وہ موٹر وے جیسی 2سڑکیں اور کراچی سے پشاور تک نیشنل ہائی وے جیسی مزید1سڑک بنا سکتی ہے۔اگریہ رقم محکمہ صحت کے حوالے کر دی جائے تو یہ محکمہ پاکستان میں ”پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز“جیسے70 ہسپتال بنا سکتا ہے۔اگر یہ رقم سول ایوی ایشن کو دے دی جائے تو یہ ادارہ پاکستان میں کراچی جیسا1 اور ائےر پورٹ بنا سکتا ہے۔اگر یہ رقم ”وارسا“ کے حوالے کر دی جائے تو وہ اس رقم سے سمندر کا پانی صاف کرنے کے12پلانٹ لگا سکتا ہے اور اگر یہی رقم پکی پکائی روٹی کے منصوبوں میں لگا دی جائے تو اس سے پاکستان کے ان غریبوں کو جو روٹی تک کھانے سے عاجز ہیں ان کو15برس تک مفت روٹی فراہم کی جاسکتی ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کرے گا کون؟بھلا ایسا ملک کوغریب کس طرح کہا جا سکتا ہے؟
پاکستان غریب ہر گز نہیں ہے،غریب ہیں تو اس کی پالیسیاں،غریب ہیں تواس کے حکمرانوں کے ذہن جو یورپی اورامریکی حکومتوں کے حکموںپر عمل در آمد کرنے کے لئے تو ہر طرح کی دلیلیں نکال لیتے ہیں اور نہیں کچھ کر سکتے توپاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے ٹھوس پالیسیاں نہیں بنا سکتے۔ ہمیں ضرورت مالی امداد کی نہیں بلکہ ایسے حکمرانوں کی ہے جن کی حکمرانی حضرت فاروق اعظم ؓ کی یاد دلا دے،جو خود تو قناعت پسند ہو لیکن اپنے عوام کی ہر وقت خبرگیری کرتے ہوںجن کو صرف یہاں بسنے والے انسانوں ہی کی نہیں بلکہ اپنے وطن اور دین اسلام کے بھی فکر ہواور اگر ایسا ہمیں ایک بھی حکمران میسر آ جائے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک طاقتور،خوشحال اورپرامن ملک کے طور پر پہچانا جائے گا۔

Facebook Comments

محمد عمرفاروق
I Am Muslim, I Am Not A Terrorist

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply