آہ زینب ! آہ زینب۔۔۔منصور ندیم

آہ زینب !یہ  تیرا  ہی قصور ہے، توکیوں جنس عورت میں پیدا ہوئی تھی، یہ تیرا ہی  قصور ہے،کہ تو اسی شہر میں پیدا ہوئی جہاں تجھ سے پہلے ایمان فاطمہ ، فوزیہ، نور فاطمہ، کائنات بتول ، عائشہ ، لائبہ اور ثنا کو بھی نوچا گیا، ہوس کا کھیل کھیلا گیا اور ایسے ہی مار دیا گیا،  جہاں انصاف کے نام پر بلند و بالا عمارتیں تو ہیں لیکن یہاں انصاف ملتا نہیں ہے، یہاں درندے اپنی نفسانی بھوک کے لئے عمریں بھی  نہیں دیکھتے،  یہاں حوا  زادیاں صرف  جنس کی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ یہ ایسا گلستان ہے جہاں پھولوں کو کچلا  جاتا ہے اور کانٹوں کو محافظ میسر ہیں۔

آہ زینب!  جب تجھے نوچا جا رہا ہوگا ، شاید اس وقت  تیری ماں حجر اسود کا بوسہ لے رہی ہوگی، جب تیری عزت سے ہوس کا کھیل کھیلا جارہا تھا،   شاید اس لمحے تیری  ماں  کعبے کا طواف کر تی ہوئی،کہہ رہی ہوگی ۔

لبیک اللھم  لبیک، لا شریک لک لبیک ، لبیک اللھم لبیک۔

یہ بھی پڑھیں  آو بیٹیاں جلا دیں۔۔۔ منصور مانی /نظم

جانے پھر کیوں رب کا قہرنہیں برسا، کیوں پہاڑوں میں زلزلہ نہیں اٹھا،پھر  کیوں سمندروں کو جوش نہیں آیا۔ پھر کیوں یہ جہاں غرق نہ ہوا۔

آہ زینب !   جب  وہ درندہ تیری  آخری ہچکی  لیتی سانسوں کو ختم کر رہا ہوگا ،شاید  تیری  ماں آقائے دو جہاںﷺ  کے در پر   درود  و سلام پڑھتی ہوگی، وہ نبی جو زمانہ جہالت میں پیدا ہونے پر بیٹیوں کے قتل کرنے والوں کو روکنے کے لئے بھیجا گیا تھا،وہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کیسے اپنے مرقد میں ضبط کے آنسو روکے بیٹھا رہا ہوگا۔وہ جو زندہ بیٹیوں کے دفنانے  کا سن کر ایسے رویا تھا کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر  ہو گئے تھے۔

آہ زینب!  میں بالکل شرمندہ  نہیں ہوں،شرمندہ تو انسان ہوتے ہیں ، ہم تو  انسانیت سے گر گئے ہیں ، ہاں میں  خوفزدہ ہوں، ہاتھ دعا کے لئے نہیں اٹھتے ، دل سے فریاد نکلتی ہے ، مجھے کسی زینب کا باپ مت بنانا، کیونکہ یہاں  کوئی زینب ، کوئی لائبہ کوئی ثنا  محفوظ نہیں ہے۔

آہ زینب ! ہم من حیث القوم اک مرض میں مبتلا ہیں ، وہ مرض  یا اُمُّ الامراض یہ ہے  کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں ؛ ذوق میں ، فہم میں ، ذہن میں ، اخلاق میں ہر معاملے میں ہم  اوسط سے بھی نیچے ہیں ۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہوا ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھوٹے پن کو دُور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے ہم بہت معمولی لوگ ہیں اور اس معمولی پن سے نکلنے کی کوئی طلب نہیں رکھتے ۔ ۔ ۔ یہی معمولی پن پیدا ہو جانا مرض  ہے، اور معمولی پن پر راضی ہو جانا موت ہے۔کیونکہ ہم ۲۰ کروڑ افراد کے ایک ایسے قبرستان میں دفن ہیں ، جس کا نام پاکستان ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

آہ زینب ! تو جہاں چلی گئی ہے ، وہاں  جزا و سزا کا قانون ہے ، مجھے یقیں ہے ، فرشتوں میں بھی کہرام بپا ہوا ہوگا،ابلیس بھی اپنی شیطانیت کے دعوے پر کانپ گیا ہوگا، زینب ہم کو معاف مت کرنا، ہم مجرم ہیں ہمیں  رب ذوالجلال کے دربار میں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردینا۔ ہم پر درد و کرب کا ویسا ہی عذاب مسلط کرنا جس سے تو گزری ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply