سکول کے ابتدائی سال مکمل ہوکر دوسری جماعت میں پہنچی تھی کہ اس وقت کے سرکاری اصول کے مطابق ابا جی کا تبادلہ شاہ پور سے جہلم ہوگیا گھر ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگا اور ہم جہلم چلے گئے گھر سیٹ کرکے اطمینان سے بیٹھتے ہی ابا جی سکول داخلے کے لئے مجھے لے کر گورنمنٹ گرلز سکول پہنچ گئے ،ان دنوں گورنمنٹ سکولوں کا مقام بہت بلند تھا، پرائیویٹ سکولوں کا کوئی وجود نہیں تھا گورنمنٹ سکولوں کی پڑھائی نظم و ضبط اور اصول و قواعد سب بہترین ہوا کرتے تھے، میں اور اباجی سکول کی ہیڈ مسٹریس کو ملے تو انہوں نے کہا کہ سکول کا تعلیمی سال شروع ہوئے تین ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے اب تو پہلے سہ ماہی امتحان شروع ہونے والے ہیں ہمارا اصول ہے کہ ہم اتنا لیٹ آنے والی طالبہ کو نہیں لیتے ،وہ کلاس کے ساتھ چل نہیں سکے گی ۔
ابا جی نے کہا کہ میں سرکاری ملازم ہوں دوسرے شہر سے تبدیل ہو کر آیا ہوں ،بچی گورنمنٹ سکول سے ہی آئی ہے اسے تو داخلہ ملنا چاہئیے، ہیڈ مسٹریس کا کہنا تھا کہ آپ نے دیر کردی کلاسیں شروع ہوئے تین ماہ گذر چکے ہیں، بچی کو ہم داخل کر بھی لیں تو اسے باقی کلاس کے ساتھ چلنے میں بہت مشکل ہوگی آپ یا تو اسے اسلامیہ سکول داخل کرا دیں یا گھر پر اس کو پڑھا کر سال مکمل کرا دیں اور نئے سال میں یہاں لے آئیں ہم داخل کرلیں گے،
گھر واپس آکر آس پڑوس سے کسی سکول کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے گھر سے چوتھے گھر کی لڑکیاں مدرستہ البنات ہائی سکول میں جاتی ہیں انہوں نے بتایا کہ پڑھائی اور سکول کا ماحول بہت اچھا ہے پرائمری تک لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں اس کے بعد علیحدہ برانچیں ہیں ۔ابا جی اگلے دن ہی مجھے لے کر مدرستہ البنات پہنچ گئے میرا ٹیسٹ لے کر وہاں داخل کر لیا گیا سکول گھر سے بہت دور نہیں تھا میرے دونوں چچا بھی ہمارے ساتھ رہتے تھے اور سائیکل پر سکول جاتے تھے صبح میں بھی ان کے ساتھ جاتی اور واپسی پر ہمسایہ لڑکیوں کے ساتھ پیدل ہی گھر آجاتی وہ دونوں بہنیں ساتویں اور آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھیں۔
انگریز حکومت کے دور سے گورنمنٹ سکولوں کے متوازی مدرستہ البنات اسلامیہ ہائی سکولز کا سلسلہ ہر شہر میں موجود تھا جہاں سرکاری سکولوں کے نصاب کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات سے لڑکیوں کو روشناس کرانے کا بھی اہتمام تھا یہ سکول بڑی خوش اسلوبی سے قوم کی بیٹیوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم میں اپنا قابل قدر حصہ ڈال رہے تھے سکول ٹائم صبح کی دعا سے شروع ہوتا تھا تمام بچے سکول گراؤنڈ میں جمع ہوتے ،بہت اچھی آواز کی نویں اور دسویں کلاس کی لڑکیاں باری باری دعا کرواتیں، اس کے بعد ایک دن ایمان مجمل ایمان مفصل اور چھ کلمے کہلائے جاتے دوسرے دن نماز دعائے قنوت اور مختلف مواقع پر پڑھی جانے والی دعائیں کہلائی جاتیں، جمعہ کے روز ہیڈ مسٹریس کسی اخلاقی موضوع پر چھوٹا سا درس دیتیں۔ یہ بچوں کی اسلامی و اخلاقی تربیت کا لازمی حصہ تھا چونکہ یہ روزانہ کا باقاعدہ معمول تھا اس لئے یہ سب چیزیں ہر طالب علم کو پوری طرح زبان زد ہو گئیں میں نے بھی یہ سب کچھ اسی سکول میں سیکھا جو آج تک میری زبان پر پانی کی طرح رواں ہوتا ہے بعض اوقات حسب پسند کسی چیز کے نہ ملنے میں بھی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے اور ہم اپنی لا علمی میں اس پر دُکھی ہوتے رہتے ہیں۔
بچپن کے اس دور میں گورنمنٹ سکول میں داخلہ نہ ملنا میرے حق میں بہت اچھا ثابت ہوا اور مدرستہ البنات میں پڑھنا ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جو اللہ کی طرف سے مجھے عنایت ہوئی، اس دور کی درسی اور اسلامی تعلیمات میری شخصیت کا حصہ بن کر تمام عمر مجھے فائدہ پہنچاتی رہیں اور یہ تعلیمات میں نے اپنے بچوں میں بھی منتقل کیں
شاید گورنمنٹ سکول میں داخلہ مل جاتا تو میں اس تربیت سے محروم رہ جاتی ،اس وقت گورنمنٹ سکول کے شاہانہ وقار کا حصہ نہ بن سکنے کا بڑا افسوس ہوا تھا مگر بعد کے سالوں میں دوبارہ گورنمنٹ سکول کی طالبہ بن جانے کے باوجود مدرستہ البنات کا دور میری زندگی کا یادگاروقت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ اب یہ اسلامیہ سکول موجود ہیں یا نہیں اگر ہیں تو ان کا تعلیمی معیار کیا ہے لیکن اس وقت وہ پاکستانی قوم کی تعلیم و تربیت میں شاندار کردار ادا کر رہے تھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں