انتظار حسین کی یاد ۔۔۔مستنصر حسین تارڑ/حصہ اول

یہ ان بیت چکے زمانوں کی داستان ہے، جب میں نے مذہبِ کاروبار اور عقیدہ معاش ترک کرکے صرف ادب کے صنم خانے کا طواف کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ اگر زندگی کرنی ہے تو قلم کی مزدوری کی جتنی بھی اُجرت ہو، اس پر کرنی ہے۔ میڈیا کی قلیل آمدنی پر انحصار کرنا ہے چاہے، اس میں دو چار نہیں سیکڑوں سخت مقام آجاویں۔ بے شک ایک ڈبل روٹی خریدنے کے لیے بھی دام کم پڑ جاویں، کرنا بس یہی کتّا کام ہے اور میری بیگم نے بھی یہی کہا کہ بے شک اگر تم کاروبار کے جھمیلوں میں پڑے رہو ،تو زندگی آسانیوں اور آسائشوں میں گزرے گی، لیکن تم ہمیشہ ناخوش رہوگے، میں تمھیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں، چاہے اس میں تنگی تُرشی کے دن آجائیں، میں شکایت نہیں کروں گی۔

چنانچہ ایسے بہت دن آئے، لیکن ہم اپنے فیصلے پر پچھتائے نہیں۔ کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن، بہت ایسے دن کاٹے۔ اور پھر یکدم غیب سے کچھ سامان ہونے لگے۔ دن پلٹنے اور سدھرنے لگے۔ ”التحریر“ کے خالد سیف اللہ کے توسط سے ضیاالسلام انصاری نے مجھے اپنے اس زمانے کے موقر اخبار ”مشرق“ میں باقاعدگی سے کالم لکھنے کی پیش کش کردی۔ ازاں بعد سنگ میل کے نیاز احمد کا ظہور ہوا، جنھوں نے دھڑا دھڑ میری کتابوں کے درجنوں ایڈیشن فروخت کرکے رائلٹی سے مجھے لبریز کردیا۔ رہی سہی عُسرت اور غربت کی کسر ”صبح کی نشریات“ کی آٹھ برس کی مسلسل میزبانی نے نکال دی۔ لیکن بارش کا پہلا قطرہ جس نے میری بنجر کھیتی کو ہرا کردیا ”مشرق“ کی کالم نگاری تھی۔

ایبٹ روڈ پر گلستان سنیما کے عین سامنے روزنامہ ”مشرق“ کا دفتر واقع تھا اور شاید تیسری پر واقع تھا۔ اس منزل تک پہنچنے کی خاطر سیڑھیاں چڑھتے، دھیمی مسکراہٹ والے، مجھ سے کبھی کلام کرتے اکثر نہ کرتے، ایک بے اعتنائی اور غیریت اختیار کرتے۔ کسی قدر بے رنگ سے، انتظار حسین تھے۔ اور وہ ایسا کرسکتے تھے کہ میں تو ابھی ابھی چار پانچ ابتدائی کتابوں کے ڈنڈ پیل کر، اپنے بدن پر نوجوانی کی نوخیزی کا تیل مل کر اور دنیا ختم کرنے کی مٹی چھڑک کر ادب کے اکھاڑے میں داخل ہوا تھا، جب کہ وہ بہت سے رستم پاکستان، رستم ہند وغیرہ کو پچھاڑ کر اکھاڑے میں رانوں پر ہاتھ مارتے دیگر ادبی رستموں کو چیلنج کر رہے تھے۔ تو میں اکھاڑے کے ایک کونے میں دبک گیا۔

مزید پڑھیےhttp://زبیدہ آپا کی یاد میں۔۔ سلیم مرزا

انتظار ان زمانوں میں ”لاہور نامہ“ لکھا کرتے تھے۔ان کے وہ کالم جو ادب سے متعلق ہوتے تھے ان میں ہجرت کے دکھ ہوتے تھے، کوچ کر جانے والے پرندوں کی باتیں ہوتی تھیں، جاتک کہانیاں اور نانی امّی کی سنائی ہوئی کہانیاں ہوتی تھیں۔ میرا جی، قیوم نظر، ناصر کاظمی، احمد مشتاق، سلیم شاہد، زاہد ڈار، ندرت فاطمہ، سہیل احمد خان، حنیف رامے، صلاح الدین شیخ، غالب احمد وغیرہ کے سوا اور کوئی کم ہی ہوتا تھا۔ وہ اپنی پہچان والے لوگوں کے تذکرے میں محدود رہتے تھے۔ وہ ترقی پسند مصنفین سے کسی حد تک الرجک تھے۔ چونکہ میں ترقی پسند مصنفین کا مداح اور پیروکار تھا، اس لیے میں بھی انتظار سے کچھ کچھ الرجک ہوگیا۔ مجھ میں ایک مخاصمت نے جنم لیا۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی شخص ترقی پسندی کا مخالف ہو اور اس کے باوجود وہ ایک بڑا ادیب ہو۔
ان زمانوں میں انتظار حسین کا افسانوی مجموعہ ”کچھوے“ شائع ہوا اور ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک ہفتہ وار پروگرام میں نئی کتابوں پر تبصرے کے لیے مجھے مقرر کیا گیا تھا۔ اور میں نہایت دل جمعی سے تبصرے اس لیے کرتا تھا کہ مجھے فی تبصرہ دو سو پچیس روپے کی خطیر رقم کا چیک عنایت کیا جاتا تھا۔ ورنہ میں کہاں کا دانا تھا۔ پرکھ پڑچول کا ماہر نقاد تھا۔ میں نے ”کچھوے“ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ذہنی بساط کی محدودگی میں کچھ توصیف تو کی، لیکن کچھ دل کی بھڑاس بھی نکالی اور کہا: ”کچھوے“ کے افسانوں کو ایک مدت اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ یہ اسم بامسمیٰ ہیں، کچھوے کی چال چلتے ہیں۔

دو چار ہفتوں کے بعد میں حسب معمول اپنا کالم نذیر حق کی میز پر رکھنے کے لیے سیڑھیاں طے کر رہا تھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ انتظار مجھ سے آگے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہولے ہولے چڑھ رہے ہیں تو میں نے کہا انتظار صاحب!
انھوں نے رک کر سانس بحال کیا اور مڑ کر دیکھا۔ اتنی آہستگی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔ تو وہ مسکرا دیے۔ انتظار کی مسکراہٹ، قدرے جھینپی ہوئی، کہیں کہیں شرارت کا ایک شرارہ پھوٹتا ہوا۔ علم بشریات کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر پرکھ نہیں سکتا تھا اس مسکراہٹ کا بھید کیا ہے۔ وہ آپ کو پسند کرتے ہیں یا شدید ناپسند کرتے ہیں۔ آپ بیٹھے رہیے انتظار کی مسکراہٹ کی گتھیاں سلجھانے کے لیے۔ مسکراہٹ کے گھونگھٹ کے پیچھے کیا ہے۔ کبھی نہ جان پائیں گے۔تو میرے سوال پر وہ مسکرا دیے اور کہنے لگے :”بھئی! ہم تو کچھوے ہیں، بس یہی چال چلتے ہیں۔“
میں تو سناٹے میں آگیا۔ فالج زدہ سا ہوگیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ ریڈیو کے ادبی تبصرے اتنی باقاعدگی اور دھیان سے سنتے ہیں۔
انتظار بھولنے والوں یا معاف کردینے والے قبیلے کے نہیں تھے۔ گانٹھ باندھ کے رکھتے تھے اور اس گانٹھ کو یکدم تب کھولتے تھے، جب مدمقابل اپنے آپ کو برتر جان کر غافل ہوجاتا تھا۔ وہ بے خبری میں بے سرو ساماں مارا جاتا تھا۔ انتظار کے ہاتھوں پر بے خبری کے عالم میں مارے جانے والوں کے خون کے چھینٹے بہت تھے۔

ازاں بعد انتظار صاحب نے تو چھیڑ خوباں سے چلی جائے والا رویہ اپنالیا۔ ہم دونوں کسی ادبی تقریب سے باہر آرہے ہیں یا پھر کشور کے گھر سے نکل رہے ہیں تو انتظار کہتے: ”پہلے آپ….!ہم تو کچھوے ہیں، ذرا دھیرے دھیرے چلے آئیں گے۔“
”نکلے تری تلاش میں“ کا جب صادقین کا تصویر کردہ ایڈیشن شائع ہوا تو انتظار نے ”لاہور نامہ“ اس کی توصیف میں لبریز کردیا۔
”کچھوے“ کے تبصرے کو فراموش کرکے مجھے اپنی شاباشی سے نواز کر بہت شرمندہ کیا۔ اگرچہ بعدازاں وہ میری تحریروں سے بظاہر غافل ہوگئے، اپنے کالموں میں قدرے احتیاط کرنے لگے، لیکن وہ ”راکھ“ کی اس تقریب میں خصوصی طور پر شریک ہوتے جہاں میرے ناول کے بارے میں صفدر میر، احمد ندیم قاسمی، سہیل احمد خان اور احمد بشیر نے اظہار خیال کیا۔ مجھ سے کچھ کوتاہی ہوگئی۔ میں نے انتظار صاحب سے اس محفل میں شریک ہونے اور مضمون پڑھنے کی درخواست نہ کی۔ صرف اس لیے کہ میں جھجکتا تھا کہ کہیں وہ انکار نہ کردیں،ورنہ انتظار کی تحریر سے معتبرہونے سے کون کمبخت انکار کرسکتا ہے۔ ویسے دبے لفظوں میں انھوں نے شکایت کردی۔ انھوں نے اپنے انگریزی کالم میں اس تقریب کو اور ”راکھ“ کو بہت سراہا۔ اگرچہ مجھے خفیف سا شک ہے کہ انھوں نے میرا ناول پڑھا نہیں تھا۔ انھیں ضخیم ناولوں سے یوں بھی وحشت ہوتی تھی۔ بے شک وہ مجھ سے بہت غافل ہوتے لیکن ایسا تو کم ہی ہوا ہوگا کہ میرا کوئی نیا ناول شائع  ہو اور اس کی پہلی کاپی میں نے انتظار صاحب کی خدمت میں پیش نہ کی ہو۔ اور ایسا تو کبھی نہ ہوا کہ میں نے بعدازاں ان سے دریافت کیا ہو کہ انتظار صاحب! آپ نے میرا ناول پڑھا۔ اگر میں دریافت کر ہی لیتا تو یقینا اس قبیل کا جواب آتا کہ بھئی! میں نے دس بیس ورق اُلٹے ہوں گے کہ زاہد ڈار لے گیا،مسعود اشعر کے ہاں پڑا ہوگا، واپس کریں گے تو پڑھیں گے، کیوں نہیں پڑھیں گے، آخر تم ایک بیسٹ سیلر ہو۔
انتظار صاحب نے مجھے بیسٹ سیلر ہونے پر بھی کبھی معاف نہ کیا۔

جب سنگ میل والوں نے مختلف مہان ادیبوں کے شان اور شکل والے مجموعے شائع کرنے شروع کردیے، راجندر سنگھ بیدی، قرة العین حیدر، سعادت حسن منٹو، عبداللہ حسین، اشفاق احمد اور انتظار حسین تو یہ مجموعے دھڑا دھڑ مقبول ہوتے چلے گئے۔ تو نیاز احمد کے ایک یادگار لاہوری ناشتے کے دوران انھوں نے انتظار صاحب سے مخاطب ہوکر کہا۔ ”آپ کے مجموعے کا ایک نیا ایڈیشن آرہا ہے۔ آپ کی بہت مانگ ہے!“ تو میں تو بھرا بیٹھا تھا۔ میں نے کہا۔” انتظار صاحب! آخر آپ بھی تو ایک بیسٹ سیلر ہوگئے ہیں۔ یہ تو اچھی خبر نہیں ہے۔“
انھوں نے کچھ کہا نہیں، بس مسکراتے چلے گئے۔
انتظار کو میں نے تقریباً نصف صدی کی ادبی مسافتوں کے دوران ہر رنگ میں دیکھا۔ یہاں تک کہ جب ان کے بال اگرچہ تب بھی چھدرے تھے، تب بھی دیکھا۔ اس ناقابل فہم اور بھید بھری مسکراہٹ کے ساتھ مسلسل دیکھا، اکثر کشور کے ہاں، کبھی جمیلہ ہاشمی، شیخ منظور الٰہی، حجاب امتیاز علی، نثار عزیز بٹ کے ہاں اور بہت اکثر ٹی ہاؤس میں۔
وہ لاہور میں ایک مسلسل موجودگی تھے۔ کبھی کسی ادبی محفل یا گھریلو اکٹھ میں غیر حاضر نہ ہوتے۔ کسی عشق کے مارے اور اجاڑے ہوئے نے کہا تھا کہ کبھی کبھار کی یہ لُک چھپ ملاقاتیں، عشق کا مداوا تو نہیں ہیں۔ دن رات کی مسلسل رفاقت اور موجودگی ہی عشق کی تسلی اور تکمیل ہوتی ہے۔ چنانچہ انتظار صاحب ایک تسلی اور ایک تکمیل تھے۔ اگر وہ کسی محفل میں نہ ہوتے تو ایک اجاڑپن کا احساس ہوتا۔

تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
اور وہ ہمیشہ عالیہ بیگم کے ہمراہ ہوتے، شاذ ہی اکیلے آتے۔ اور عالیہ بہت سادہ، معمولی پیراہنوں میں ملبوس ایک معمولی شکل کی خاتون تھیں۔ لیکن نہایت پُر اعتماد اور ٹھسّے سے چلتی ہوئی ، محفل میں داخل ہونے والی خاتون تھیں۔ انتظار کی زندگی میں یہ طے ہے کہ وہ واحد خاتون تھیں۔ صرف وہ تھیں جن کی جانب دیکھ کر جب انتظار مسکراتے تھے تو اس مسکراہٹ میں کچھ بھید نہ ہوتا تھا۔ اُلفت، شکر گزاری اور ایک بدھ بھکشو ایسی فرمانبرداری والی محبت کی الوہی پرچھائیاں ہوتی تھیں۔ میں بھی تو کسی حد تک ایک جہاں دیدہ شخص ہوں، حیات کے کٹھن راستوں پر مسافر تو ہوا ہوں، اتنا تو جانتا ہوں کہ کہاں، کسی ایک فرد پر، کون سی محرومی کے سبب اس پر کیا گزرتا ہے۔ اس ایک محرومی کے سبب اس کی شخصیت کیسے کیسے دکھوں کو سہتی کچھ بگڑ سی جاتی ہے۔ اولاد نہ ہو تو اکثر میاں بیوی کے درمیان شک شبے کی ایک دیوار حائل ہوجاتی ہے۔ اولاد ایک دوسرے سے کچھ چاہت نہ رکھنے والے میاں بیوی کو بھی سریش کی مانند جوڑ دیتی ہے۔ اگرچہ بقول وارث شاہ….درویش اس دنیا سے جڑ نہیں سکتا کہ پتھر کو ُسریش یا گوند سے جوڑنا ناممکن ہے ۔ لیکن آپس میں کچھ ربط نہ رکھنے والے میاں بیوی کو اولاد ایک گوند کی مانند جوڑ دیتی ہے۔ کس کا دوش ہے کس کا نہیں۔ اکثر بے اولاد جوڑے ایک مجبوری اور مغائرت کی حالت میں حیات گزار دیتے ہیں، لیکن کبھی کبھیبہت کم کم یہی محرومی ان دونوں کو یوں جوڑ دیتی ہے کہ انھیں سوائے ایک دوسرے کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ محرومی سے جنم لینے والے ایک عجب حیرت بھرے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عالیہ اور انتظار کو جب ہم باہر دیکھتے تھے تو ان کی جڑت پر ہمیں رشک آتا تھا۔
تو کیا واقعی عالیہ ان کی زندگی میں پہلی اور آخری عورت تھی؟

مزید پڑھیے http://صوفی خواتین کا تذکرہ : ایک تعارف ۔ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی/قسط1

ویسے افواہوں پر دھیان نہیں  کرنا چاہیے۔ ہوا ؤں میں ،اور وہ بھی گزر چکے ایام کی سسکیاں بھرتی ہواؤں میں جو سرگوشیاں ہوتی ہیں ان پر کان نہیں  دھرنا چاہیے کہ ان افواہوں اور سرگوشیوں میں کہیں نہ کہیں کچھ حقیقت ہوتی ہے۔ داستانیں یوں ہی جنم نہیں لیتیں۔ ہومر کاٹرائے کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ ہنرخ سلمان یقین رکھتا ہے کہ سب قصے کہانیوں اور داستانوں میں کہیں نہ کہیں کوئی حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے جو دریافت کی منتظر ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہومر کی داستانوں میں بیان کردہ سمندری خزانوں اور ہیلن کے شہر ٹرائے کو ترکی میں دریافت کرلیتا ہے۔ چنانچہ انتظار کی داستانوں میں جو سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں، ان میں حقیقت کا پرتو ہے کہ نہیں۔ انتظار مائل تھے، خواہش رکھتے تھے، ایک افسانوی قربت کے تمنائی تو تھے۔ انتظار کے پہلے اور آخری عشق کی داستاں اب تو اصحاب کہف کی غار میں خوابیدہ ہوچکی۔

ویسے قرة العین حیدر اور انتظار حسین شاید دنیا بھر کے بڑے ادیبوں میں اس لحاظ سے حیرت ناک طور پر منفرد ہیں کہ دونوں کی تحریروں میں جنسی قربت یا صنف مخالف کی کشش کا کہیں کچھ اعتراف نہیں۔ عینی آپا ”کار جہاں دراز ہے“ میں اپنی حیات کے دیوان کے دیوان لکھ گئیں لیکن مجال ہے کہ ایک اقرار ہو کہ میں نے فلاں شخص کو دیکھا تو میرے دل کی دھڑکن میں ایک لمحے کے لیے خلل آگیا۔ بے شک اور بجا طور پر ان کے حسن اور تخلیقی عجوبہ روزگار دانش کے چرچے رہتے۔ ایک زمانہ ان پر جان چھڑکتا، لٹو ہوا جاتا تھا ،ان کا حسن اور تخلیق کا تکبر اپنی جگہ لیکن وہ ایک عورت تھیں، بے شک لٹو نہ ہوئیں پر کبھی نہ کبھی تو وہ کسی کو دیکھ کر بے شک ایک لمحے کے لیے ہی سہی، تھوڑی سی گھوم تو گئی ہوں گی۔ انھوں نے کبھی اقرار نہ کیا۔ شفیق الرحمن کے ساتھ لندن میں جو ملاقاتیں رہیں، ان کا کبھی تذکرہ نہ کیا۔

اور ادھر انتظار صاحب تھے، عورت کے وجود اور اس کے بدن کی کشش سے یکسر غافل۔ مجھے ان دونوں سے بس یہی شکایتیں ہیں۔ وہ دونوں میرے نزدیک جنس کے تذکرے کے بغیر بے شک مہان ادیب ہیں لیکن نامکمل ادیب ہیں۔ان زمانوں میں یہ صرف ڈاکٹر انور سجاد تھا جو انتظار سے بھڑتا رہتا تھا۔ وہ آج بھی کہیں زندہ ہے، ناتواں ہوچکا، نہ اپنے آپ کو اور نہ کسی دوست کو پہچانتا ہے، ڈراما نگار، اداکار، رقاص، اردو میں گنجلک انداز کی جدید افسانوی روایت کا بانی جس کی پیروی بہت لوگوں نے کی۔ یہ وہ زمانے تھے جب وہ ایک اداکار اور ڈراما نگار کے طور پر پاکستان ٹیلی ویژن پر راج کیا کرتا تھا۔ میں نے اس کے تحریر کردہ سیریل ”سورج کو ذرا دیکھ“ میں ایک وِلن کے طور پر اداکاری کے میدان میں شہرت حاصل کی اور اس نے بھی میرے لکھے ہوئے متعدد ڈراموں میں مو ¿ثر اداکاری کی۔

وہ ادب کا ایک نپولین، ٹی ہاؤس میں داخل ہوتا، انتظار، داخلے کی پہلی میز کی کھڑکی کے ساتھ اپنے حواریوں کے ساتھ براجمان ہوتے۔ سلیم شاہد، سہیل احمد خان، زاہد ڈار، یوسف کامران، سگریٹ پھونکتی ندرت، الطاف قریشی،مسعود اشعر، اور وہ ٹی ہاؤس میں داخل ہوتے ہی انتظار سے مخاطب ہوجاتا ۔ اپنے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہتا ”کیوں انتظار! تمہاری نانی اماں نے پچھلی شب تمھیں کوئی نئی کہانی سنائی ہے جسے تم ایک افسانے کا روپ دوگے۔ جاتک کہانیوں میں سے کس کہانی کے بارے میں ایک دقیانوسی تحریر لکھوگے۔ بے شک آئندہ زمانوں میں تمہیں تمھاری زبان کے حوالے سے نصابوں میں یاد رکھا جائے گا، لیکن ایک ادیب کی حیثیت سے نہیں۔ انتظار! جاگ جاؤ، زمانہ قیامت کی چال چل گیا، تمہیں کچھ خبر نہیں کہ افسانہ کیا سے کیا ہوگیا ہے، نانی جان مر چکیں۔“
انتظار مسکراتا رہتا، اکثر چپ رہتا۔
پھر ایک بار بولا: ”انور سجاد! میں نے تازہ ’فنون‘ میں تمھاری کہانی ’الف سے ے  تک‘ پڑھی ہے اور وہ الف سے یے تک مجھے سمجھ میں نہیں آئی۔“

انور سجاد اور انتظار کی چہلیں چلتی رہتیں۔نہ انور نے انتظار کی تحریروں کو قبول کیا اور نہ ہی انتظار نے انور کے شاہکار ناولٹ ”خوشیوں کا باغ“ کو سراہا۔
ہم دونوں سراسر مختلف مزاج اور جدا ثقافتوں سے پیوستہ شخص تھے۔ وہ یا تو انگریزی لباس زیب تن کرتے، سوٹ اور ٹائی باندھے رہتے یا پھر کھڑا پاجامہ اور کُرتا پہنتے۔ اور میں کبھی کبھار ہی سوٹ وغیرہ پہننے کا تردّد کرتا کہ انگلستان میں طویل قیام کے دوران یہی پیراہن اوڑھے رہا اور بیزار ہوگیا۔ ان دنوں یا تو میں نیلی جین اور کسی شوخ رنگ کی قیمص پہنتا یا پھر شلوار قیمص میں مسلسل قیام کرتا۔ میں نے بہت درپردہ خواہش کی کہ کبھی تو انتظار شلوار قمیص پہنیں۔ یقین کیجیے کہ وہ اس پہناوے میں بے حد بانکا لگتا۔ یہ لباس اس پر سجتا۔ لیکن وہ اپنی گنگا جمنی ثقافت میں حنوط ہوچکا تھا۔ جیسے میں پنجاب کی روایت میں آرام دہ اور پرسکون محسوس کرتا تھا۔ بے شک میں اس کے ذوق جمال، حسِ مزاح اور فقرے کی انوکھی ساخت کا شیدائی تھا لیکن ہم میں اگر کچھ مشترک تھا تو وہ پرندے تھے۔ یہ پرندے تھے جو ہمیں باہم کرتے تھے۔

کوئی ایک شام حسب معمول کشور کے گھر میں، اور یقین کیجیے لاہور میں ان زمانوں میں کوئی شام اترتی تھی تو صرف کشور کے اقبال ٹا ؤن والے گھر میں یوں اترتی تھی کہ چھن چھن کرتی تھی۔ ساجن کی گلیوں میں سے گزرنے والی ڈرچی کی جھانجھروں کی چھن چھن کے ساتھ اترتی تھی۔ اس لیے بھی کہ اکثر میری فرمائش پر اقبال بانو موسیقی کے بغیر ”پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے“ گانے لگتیں۔ آپا حجاب امتیاز علی اپنی وِگ پر کب سے براجمان مکھی سے بے خبر اپنی ایک اور زرنگار ساڑھی میں ملبوس مسکراتی رہتیں کہ انھیں سنائی کم ہی دیتا تھا۔ کوئی ایک چھم سنائی دے جاتی، دوسری چھم سنائی نہ دیتی۔ منو بھائی اور جاوید شاہین آپس میں ہکلاتے ہوئے ”گفتگو“ کر رہے ہوتے۔ کشور کے گھر میں جو رونقیں ہوا کرتی تھیں ان کا تفصیلی تذکرہ میں نے ”لاہور آوارگی“ کے باب ”لاہور کے ادبی میلوں“ کے عنوان سے درج کردیا ہے۔ تو اس شام ہندوستان سے ایشیا کے سب سے بڑے اور مہنگے مصور مقبول فدا حسین آئے ہوئے تھے اور کشور کی ایک اوڑھنی پر اور وہ زرد نہ تھی، احمد فراز کو سامنے بٹھا کر اس کا پورٹریٹ بنا رہے تھے اور ہم دونوں لان میں بیٹھے کھانا لگنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بہت دیر سے چپ بیٹھے تھے جب انتظار بولنے لگے: ”کیا واقعی اسلام آباد کے درختوں میں پرندے گھونسلے نہیں بناتے۔ سر شام راولپنڈی کو لوٹ جاتے ہیں؟“

میں ان وقتوں میں صبح کی نشریات کی میزبانی کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم تھا۔ تقریباً دس بارہ برس میرا آنا جانا لگا رہا۔ وہاں جب شام ہوتی تو میرا دل گھبرانے لگتا۔ شام کے ساتھ ایک گہری اداسی اور بے برکتی اترتی۔ ایک بنجر پن اور روکھا پن اترتا۔ اور ہر شام میں دیکھتا کہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف پرندے اسلام آباد کے بے روح آسمان پر اڑان کرتے وہاں سے ہجرت کرکے راولپنڈی کی جانب لوٹ رہے ہیں ہر شام دیکھتا۔ احمد داؤد اسلام آباد کا دانائے راز تھا۔ اس میں کوئی کہانی کار یا دوستوں کا دوست نہ ہوگا اس نے مجھے بتایا کہ تارڑ! اسلام آباد ایک مصنوعی شہر ہے، ایک ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے۔ جب اسے بسایا گیا تو اس کی ویران اور بے آب و گیاہ لینڈ اسکیپ کو ہریاول سے ڈھانکنے کی خاطر دوسرے ممالک سے جلدازجلد اگنے اور سایہ دار ہوجانے والے درختوں کے بیج درآمد کرکے انھیں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اس مردہ شہر کی زمین پر بکھیر دیا گیا۔ بے شک وہ شتابی سے قدآور اور گھنے ہوئے پر وہ یہاں کے نہیں تھے۔ ان کے پھولوں کی مہک نے لوگوں کو بیمار کردیا۔ موسم بہار میں ان اجنبی درختوں میں سے پولن کا زہر پھوٹتا ہے اور خلق خدا بیمار ہوجاتی ہے۔ تو پرندوں نے بھی انکار کردیا۔ اس بے روح شہر میں دانہ دُنکا تلاش کرو اور پھر یہاں سے فرار ہوجاؤ۔ اپنے آشیانوں کو لوٹ جاؤ۔ میں نے ”پرندوں کی واپسی“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔
”جی انتظار صاحب!“
”کیا واقعی، کیا واقعی!“ انتظار بار بار کہتے تھے۔ ان کے چہرے پر ایک ایسے بچے کی جھینپی ہوئی مسکراہٹ تھی جو کسی گھونسلے سے چڑیا کا ایک بچہ اتار لایا ہے اور وہ اس کی مٹھی کی آغوش میں پھڑپھڑا رہا ہے۔

کشور کے گھر کے اندر جانے کیا کیا ادبی ہنگامے برپا ہو رہے تھے اور باہر لان میں اس شام ہم صرف پرندوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ وہ اپنی کتھا کہتے رہے اور میں عطارکے پرندوں کا تذکرہ کرتا رہا۔ پرندے ایک فلسفہ ¿ وحدت الوجود میں پھڑپھڑاتے اڑان کرتے ہیں۔
بس اس شام یہی کچھ ہم پر اتراپرندے
انتظار حسین لارنس گارڈن کے شیدائی تھے۔
میں نے کسی تحریر میں اعتراف کیا کہ باغ جناح میں ایک گھنا شجر ہے جس کے بھیتر میں کوئی اجنبی پرندہ روپوش ہے اور میں ہر سویر اس سے باتیں کرتا ہوں۔ اس کی کوک کی نقل کرکے کوکتا ہوں اور وہ جواب میں کوکتا چلا جاتا ہے۔
انتظار میری اس تحریر سے حیرت اور انبساط سے بندھ گئے۔ کہنے لگے: ”تارڑ! کیا واقعی۔ وہ شجر ہے؟“
”ہے۔“
”مجھے اس شجر کا اتا پتا بتلاؤ  کہ کہاں ہے، اگر ہے تو؟“
تب میں نے اس شجر کے جغرافیے سے انھیں آگاہ کیا۔ قائد اعظم لائبریری بلکہ جم خانہ کلب کے دائیں جانب۔ ان دو ہیبت ناک درختوں کے جھنڈ سے ذرا ادھر جن کی شاخوں پر پتے کم ہیں اور چمگادڑیں زیادہ۔ وہاں وہ شجر ہے۔
”لیکن انتظار صاحب ! پرندے اپنے اپنے۔ اس شجر میں پوشیدہ پرندہ، میرا اپنا ذاتی پرندہ ہے۔ وہ آپ سے کلام نہیں کرے گا۔“
”پرندہ ہے بھی کہ نہیں؟“
”ویسے آپ کے افسانوں میں جتنے جانور بولیاں بولتے ہیں، ہنومان مہاراج لٹکتے پھرتے ہیں اور کتّے زرد ہوئے جاتے ہیں، تو وہ بھی ہیں کے نہیں؟“
انتظار کہنے لگے :”بہرطور کچھوے تو ہیں۔“
انڈیا انٹرنیشنل سینٹر، دلّی ادیبوں کی سارک کانفرنسہم دونوں برابر کے کمروں میں مقیم تھے۔ مجھے صبح کی سیر کی علت لاحق ہے، صد شکر کہ علت مشائخ لاحق نہیں ہے ،تو میں بے چین ہوجاتا تھا کہ کل صبح جوگرز پہن کر کدھر جاؤں گا، کدھر نکلوں گا، کہیں پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام میں دھر نہ لیا جاؤں، تو میں نے انتظار سے رجوع کیا کہ ”حضور آپ تو ادھر آتے جاتے رہتے ہیں، آپ کی’ ٹیری ٹوریُو ¿‘ ہے تو کچھ راہ نمائی کیجیے کہ ادھر کوئی گلشن، کوئی سبزہ زار، کوئی گل و گلزار ہے جس کی سیر کے لیے میں نکل جا ؤں۔“
تو انتظار کہنے لگے ”ہائیں آپ کیسے بے خبر ہیں، انڈیا انٹرنیشنل سینٹر دلّی کے سب سے پرفضا اور تاریخی باغ، لودھی گارڈن کے درمیان ایک جزیرہ ہے۔ دونوں نکل چلیں گے۔“

اگلی سویر انتظار مجھ سے پہلے اپنے کُرتے پاجامے میں نستعلیق تیار۔ اور میں شلوار قمیص اور جوگرز میں ملبوس۔ اور واقعی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کا ایک گیٹ کھولا تو لودھی گارڈن کے پتھریلے جہان میں داخل ہوگئے۔ قدیم پتھریلے ویران مقابر، کائی زدہ تالاب، مساجد اجڑی ہوئی، کسی قلعے کی سنگلاخ فصیل دھند میں سے یوں ظاہر ہوتی ہوئی جیسے ڈنمارک کے ہیلنسور قلعے کی قدیم فصیل جس پر ہیملٹ صاحب مٹرگشت کیا کرتے تھے اور فارغ اوقات میں ایک کھوپڑی کے ساتھ ”ٹو بی آر ناٹ ٹو بی“ کی بحث کیا کرتے تھے۔ لودھی گارڈن عجب سراب آمیز تصویراں تھا۔ فصیل کے پہلو میں سیکڑوں مرد و زن، بڑے بوڑھے، نوجوان اور نوخیز گھاس پر چٹائیاں بچھائے یوگا کی ورزشوں میں مشغول تھے اور ان کی یوگا ماسٹر ایک نوجوان مسلمان خاتون فاطمہ نام کی تھی۔
اگلی صبح فاطمہ سے اجازت حاصل کرکے میں بھی یوگا کرنے والوں کی صفوں میں شامل ہوگیا، اگرچہ پچھتایا بہت کہ ذرا سے جھکنے سے ہڈیاں کڑکڑانے لگتیں اور گھٹنوں میں سے ٹخ ٹخ کی آوازیں آنے لگتیں جو ٹخنوں تک چلی جاتیں۔ میں یہ عذاب اس لیے سہتا رہا کہ دشمن ملک ہے یہاں پسپائی اختیار کی تو وطن کی ناموس پر حرف آتا ہے۔ لال قلعے پر جھنڈا پھر کبھی لہرائیں گے فی الحال تو اس سر نگوں ہوتے بدن کو سر نگوں نہ ہونے دیا جائے۔ انتظار ایک فاصلے سے میری حالت زار سے لطف اندوز ہوتے نہایت کمینگی سے مسکراتے تھے، مسجد میں کہنے لگے: ”آپ کو یوگا سے کہاں اس یوگا ماسٹر خاتون سے دلچسپی ہوگی، ورنہ کاہے کو ان بکھیڑوں میں پڑتے۔“

انھوں نے اپنے کسی سفرنامے میں اس یوگا وقوعے کا تذکرہ اپنے انداز میں کیا اور زیب داستاں کے لیے کچھ بڑھا بھی دیا۔ جیسے آج ان کے بارے میں لکھتے ہوئے میں بھی تو کچھ بڑھاتا ہوں کہ ایک نثر نگار کا پیشہ ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کے ذریعے سچ کو آشکار کرے۔
انتظارمیری عورتوں سے بہت نالاں تھے۔
کہا جاتا ہے کہ انتظار کی تحریروں میں عام طور پر عورت ایک شجر ممنوعہ ہے۔ اگر عورت نہ ہوگی تو ناقابل فہم طور پر جنس نہ ہوگی۔ کچھ لذت نہ ہوگی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک کہانی میں جو عورت ہے تو وہ بھی ان کی اہلیہ عالیہ ہیں۔ اور بیوی عورت نہیں ہوتی۔ چنانچہ قابل فہم طور پر انتظار میری ان عورتوں سے بے حد نالاں تھے، جو نہ صرف میری تحریر میں در آتی ہیں بلکہ ادبی میلوں کے دوران میرے گرد ہجوم بھی کرلیتی ہیں۔
جاری ہے۔۔

Save

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply