20 نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جس کا آغاز 1990 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد ہوا۔ جس کا مقصد تعلیم ، صحت ، تفریح اور ذہنی تربیت کے علاوہ بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بے گھر بچوں کو دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا ، چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا شامل ہیں۔ اس حوالے سے بچوں کے عالمی دن کے موقع پر تعلیمی اداروں میں بچوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسف بھی اس دن کو منانے کے لیے خصوصی اقدامات کرتا ہے۔ پوری دنیا میں اس دن کے حوالے سے تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
مگر اس بار بچوں کے حقوق کا عالمی دن ایک ایسے وقت میں منایا گیا۔ جب “مہذب دنیا” کے غیر مہذب کردار کی وجہ کم و پیش 23 لاکھ آبادی پر مشتمل فلسطین جس کی نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے ایک وحشت ناک صورتحال سے دوچار ہے۔ یعنی فلسطین کے ساڑھے گیارہ لاکھ بچے جن کی عمریں 15 سال سے کم ہیں۔ انسانی حقوق تو در کنار جانوروں جتنے حقوق سے بھی محروم ہیں۔ جن کے لیے تعلیم صحت اور تفریح تو دور کی بات ہے زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔ جن کا ایک ایک لمحہ موت سے لڑتے ہوئے گزرتا ہے۔ جو ملبے کے ڈھیر میں آنکھ بند کرتے ہیں ، بموں کی گھن گرج میں آنکھ کھولتے ہیں ، بارود کی بو میں سانس لیتے ہیں۔ جو نہ تو پناہ گزین کیمپوں میں محفوظ ہیں اور نہ ہسپتال میں انہیں کو جان کی امان دیتا ہے۔ نہ تو ان کے سکول باقی ہیں اور نہ ہی ان کے گھر بچے ہیں بس ہر طرف ملبے کے ڈھیر ہیں یا خون میں لت پت لوگ ۔ غزہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل اور بچوں کا قبرستان بن چکا ہے اور دنیا بچوں کے حقوق کا عالمی دن منا رہی ہے۔
عرب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے۔ کہ ” 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت میں ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے نا صرف رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا بلکہ عالمی جنگی قوانین کے تحت دوران جنگ محفوظ قرار دیے جانے والے ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشا۔ اور متعدد قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے دنیا سے چلے گئے۔ فلسطینی حکام کے مطابق غزہ میں اب تک اسرائیلی حملوں میں 5500 معصوم بچے شہید ہو چکے ہیں۔ ہر 10 منٹ بعد ایک بچہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ظلم صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ بمباری کے نتیجے میں اب تک 1800 بچے ملبے تلے دبے ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جن میں اکثریت کے شہید ہونے کا خدشہ ہے۔ مگر اس تباہ کن صورتحال کے باوجود اسرائیل کی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔ اور بچوں کی سسكیاں اور آہ و زاری ظالم فوج کے پتھر دل کو نہیں پگھلا سکی۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے حملوں میں 9 ہزار کے قریب فلسطینی بچے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جن میں زیادہ تر بچے زندگی بھر کے لیے معذور ہوئے ہیں وہیں یہ حملے ان ہزاروں بچوں کے ذہنوں پر تکلیف دہ نقوش چھوڑ رہے ہیں جس کا مداوا شاید یہ دنیا کبھی نہیں کر پائے گی۔ ” مگر یہ دنیا بچوں کے حقوق کا عالمی دن منا رہی ہے۔
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ سب مغرب کا دہرا معیار ہے۔ ایک طرف وہ انسانی حقوق کے چیمپین ہیں بلکہ وہ انسانوں ہی نہیں جانوروں کے حقوق کے بھی علمبردار ہیں۔ پاکستان کے چڑیا گھر میں 35 سال تک زندگی گزارنے والے ہاتھی “کاون” کی ساتھی ہتھنی 2012 میں فوت ہوگئی تو کاون کو دنیا کا تنہا ترین ہاتھی قرار دے کر اسے کمبوڈیا منتقل کرنے کی مہم چلائی گئی جس میں امریکی گلوکارہ شیر بھی پیش پیش تھیں۔ اور بلآخر 2020 میں کاون ہاتھی کو کمبوڈیا منتقل کر دیا گیا۔ مگر یہاں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے غزہ میں معصوم بچوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔ ظلم جبر بربریت کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔ دانستہ طور پر بچوں کو نشانہ بنا کر فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔ مگر پوری دنیا میں کہیں سے بھی ان معصوم بچوں کے حقوق کے لیے موثر آواز نہیں اٹھائی جارہی۔ مگر دکھ تو اس بات کا ہے مغرب اگر ظالم کے ساتھ کھڑا ہے تو مسلم ممالک کی بے حسی اور خاموشی نے انہیں بھی اسی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کے حکمران سوائے مذمت کے کوئی ایک حرف بھی نہیں کہہ سکے۔
اسرائیلی جارحیت کے 15 روز بعد وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا تو محض ایک اعلامیہ جاری ہوا اور پھر خاموشی۔ 35 روز بعد او آئی سی سربرہان مملکت کا اجلاس منعقد ہوا تو بے نتیجہ ختم ہوا جس میں کوئی ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے جا سکے یہاں تک کچھ مملک نے اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات اٹھاتے ہوۓ تیل کی سپلائی بند کرنے کی تجویز دی تو بعض عرب ممالک نے اس کی مخالفت کر دی۔ حیرت تو اس بات پر ہے ایک طرف اسرائیل نے غزہ میں ایندھن کی سپلائی ہی نہیں ادویات اور غذائی ضرورت کی اشیاء روک کر لاکھوں فلسطینی بچوں کو تڑپنے اور سسکنے پر مجبور کر رکھا ہے اور دوسری طرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سخت اٹھانے سے انکار کر دیا گیا۔ انہی وجوہات کی وجہ سے اسرائیل کو شہہ ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کی صیہونی جارحیت مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور اس کا شکار معصوم بچے ہیں جو کہ فلسطین کا مستقبل ہیں۔ اسرائیل دانستہ طور پر فلسطین کا حال اور مستقبل آگ ، خون اور بارود میں جھلسا رہا ہے۔ اور دنیا بچوں کے حقوق کا عالمی دن منا رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے جب تک فلسطین کے بچوں کے حقوق پامال ہوتے رہیں گے ، جب تک فلسطین کے بچوں پر ظلم جبر اور وحشت و بربریت کے پہاڑ ٹوٹتے رہیں گے، جب تک فلسطینی بچوں کے گھر اور سکول ملبے کا ڈھیر بنتے رہیں گے اور جب تک فلسطینی بچے ہسپتالوں میں تڑپتے اور سسکتے رہیں گے اس وقت تک بچوں کے حقوق کا کوئی بھی دن بے وقعت ، بے معنی اور بے مقصد ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں