اسرائیل اور غزہ کے درمیان تشدد کی تازہ ترین لہر، جو تقریباً ایک ماہ سے جاری جنگ نے موت اور مصائب کا ایک دل دہلا دینے والا راستہ چھوڑا ہے۔ تنازع کی انسانی قیمت حیران کن ہے۔ تنازع، اپنی گہری جڑیں تاریخی، سیاسی، اور انسانی پیچیدگیوں کے ساتھ، بین الاقوامی برادری کی دیرپا امن کی ثالثی کی صلاحیت کو چیلنج کر رہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر ثقافت امیچائی الیاہو کے حالیہ ریمارکس، جس میں غزہ پر جوہری بم کے استعمال کی تجویز نے پہلے سے بھڑکتی ہوئی آگ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ مختلف مغربی ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، لوگ تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ غزہ میں انتہائی جانبدارانہ نقطہ نظر کے ساتھ اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی وابستگی میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ۔ امریکہ، جو طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں ایک کلیدی کھلاڑی سمجھا جاتا ہے، تاہم اسرائیل اور غزہ کے درمیان ثالثی کے لیے یک طرفہ اقدامات سے جنگ کی طوالت کا باعث بنتا جارہا ہے ۔ دیرینہ اتحادی ہونے کے باوجود، امریکہ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکنے کے لئے کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا ۔
اسرائیل میں شہریوں نے بھی اپنے وزیر اعظم کے استعفا کا مطالبہ کیا ہے جس سے صورتحال میں ایک اور پیچیدگی کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ا مریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی جنگ بندی نہیں چاہتے کہ اس سے حماس کو منظم ہونے کا موقع ملے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل حملوں سے فلسطینی عوام کی نسل کشی کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے ۔ اسرائیل، غزہ تنازع ایک نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے، اسے تنازع یا جنگ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نسل کشی کا منظم منصوبہ قرار دیا جارہا ہے۔ مایوسی کے اس عمل میں مسلم اکثریتی ممالک کے حکمراں بھی شامل ہیں ، جو سیاسی مصلحت کے تحت اپنی عوام کے غم و غصے کو نظر انداز کر رہے ہیں تاہم انہیں اس امر کا خوف بھی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح عرب بہار تحریک کی طرح عوام کا رخ ان کی جانب نہ ہوجائے ۔
عرب بہار ایک سلسلہ احتجاجی مظاہروں اور سیاسی انقلابات کا نام تھا جو 2011ء میں شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے کئی ممالک میں شروع ہوا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ان ممالک میں سیاسی اور سماجی تبدیلیاں بشمول جمہوریت کی بحالی، انسانی حقوق کی حفاظت، اور معاشی عدم مساوات کو کم کرنا تھا، عرب بہار کی تحریک کا آغاز 17دسمبر 2010 کو تونس میں ہوا، جب ایک سبزی فروش، محمد بوعزیزی، اپنے آپ کو جلا کر ہلاک کر دیا۔ اس واقعے نے عوام میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں 23سال سے اقتدار میں رہنے والے صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے ہٹنا پڑا۔تونس میں کامیابی کے بعد، عرب بہار کی تحریک نے دیگر ممالک میں بھی زور پکڑا۔
25جنوری 2011 کو، مصر میں لوگوں نے صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرے شروع کیے، اور 11فروری 2011کو مبارک کو اقتدار سے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ عرب بہار کی تحریک نے لیبیا، یمن، اور اردن میں بھی سیاسی تبدیلیاں لانے میں مدد کی۔ لیبیا میں، رہنما معمر القذافی کو ایک خانہ جنگی کے نتیجے میں قتل کر دیا گیا، اور یمن میں، صدر علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے ہٹنا پڑا۔ اردن میں، بادشاہ عبد اللہ دوم نے کچھ اصلاحات بشمول آزادی اظہار رائے اور سیاست میں زیادہ شمولیت کا اعلان کیا تاہم، عرب بہار کی تحریک ہر جگہ کامیاب نہیں ہوئی۔ شام میں، صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاج کو ایک خانہ جنگی میں بدل دیا گیا، جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔ بحرین میں، مظاہرین کو حکومت کی جانب سے سختی سے کچل دیا گیا۔
عرب بہار کی تحریک نے عرب دنیا میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے لیے ایک نئی امید پیدا کی تھی۔ تاہم، اس تحریک نے کئی چیلنجوں بشمول سیاسی عدم استحکام، فرقہ واریت، اور انتہا پسندی کا بھی سامنا کیا۔ تحریک کے اثرات اب بھی عرب دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جنگ میں عرب ممالک میں عوامی سطح پر احتجاجی مظاہروں کے دبانے کے پس منظر میں ایک امکان ہے کہ عرب ممالک خوفزدہ ہیں کہ عوام کا رخ ان کی جانب عرب بہار تحریک کی طرح تبدیل نہ ہوجائے۔ عرب بہار تحریک نے کئی آمرانہ حکومتوں کو اقتدار سے ہٹایا تھا، اور عرب ممالک نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہو۔ لیکن اس کے خدشات ضرور ہیں کہ عوام اپنے حکمرانوں کی پالیسی سے سخت غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں اور حکمراں بھی اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ اگر غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کو روکا نہیں گیا تو انہیں بزور طاقت اپنی عوام کو روکنے میں سختی کرنا ہوگی جس کے نقصانات نمایاں طور پر حکومت پر پڑیں گے۔
غزہ صورتحال پر احتجاجی مظاہرے دنیا میں بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے اسرائیل کے حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے ہیں۔ تاہم، عرب ممالک میں اپنی حکومتوں میں ان مظاہروں کو سختی سے روک رہی ہیں۔ عرب ممالک کو یہ بھی خوف ہے کہ اگر وہ غزہ صورت حال پر احتجاجی مظاہروں کو روکنے میں ناکام رہے تو یہ ان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا۔ عرب دنیا میں فلسطین ایک اہم مسئلہ ہے، اور عرب ممالک کو فلسطینیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ عوام کی رائے کو دبا کر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کی حکومتوں کے لیے طویل مدت میں نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں