سلمان حیدر کے بھائی’فیضان حیدر کی کہانی

7 جنوری2017ء
شدید سردیوں کے دن تھے اور میکال کی پیدائش کو ابھی ۲۰ ہی دن ہوئے تھے۔ صبح کے 7 بجے تھے۔ میں آفس سے چھٹیوں پر تھا اور اُس وقت اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔ اندازہ ہی نہیں تھا کہ دن کا آغاز ایک پریشان کُن خبر سے ہو گا، ایسی خبر کہ جو آنے والے تین ہفتوں میں وہ کچھ دکھائے گی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔

میری آنکھ کسی کے میرا کندھا ہلانے سے ہوئی۔ اور جاگنے پر اپنی ماں کو اپنے سرہانے کھڑا پایا۔ وہ ہرگز پریشان نہیں تھیں۔ ان کے جیسی فولادی اعصاب کی حامل خواتین کم ہی دیکھی ہیں۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ سلمان بھائی رات بنی گالہ تھیٹر سے روانہ ہوئے لیکن گھر نہیں پہنچے جبکہ بذریعہ میسج گاڑی کی کورال چوک پر موجودگی کی اطلاع دی اور اس کے بعد سے موبائل بھی آف جا رہا ہے۔ ایک لمحے کے لئے ذہن بالکل ماؤف  ہو گیا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے کسی نے چھین لی ہو۔ اگلے ہی لمحے بستر چھوڑا اور نچلی منزل پر واقع اپنے والدین کے کمرے میں پہنچا۔ امی اور ابّی اسلام آباد جانے کے لئے سامان باندھ رہے تھے۔ میں نے ان دونوں کو موٹروے تک چھوڑا جہاں سے وہ عمّو جان کے ہمراہ اسلام آباد روانہ ہوئے۔ اس سامان کے باندھنے میں ہم تینوں میں سے کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا کہ کتنے دن کا سامان رکھا جائے کہ نہیں معلوم اس گُتھی کے سلجھنے میں کتنا وقت لگے گا۔ اُن دونوں کو موٹروے پہنچا کر واپس پہنچا تو ذہن میں صرف یہی سوال تھا کہ آخر ایک استاد، ایک شاعر، ایک فنکار اور پڑھنے لکھنے کے شعبے سے وابستہ شخص کا ایسا کیا گناہ تھا کہ جس کی اتنی بڑی سزا دی گئی؟ ذہن خود ہی اُن سب گمشدہ ہو جانے والےافراد کی جانب جا رہا تھا کہ جن کے  رشتہ دار آج بھی اُن کی راہ تک رہے ہیں اور پھر دوسرے ہی لمحےاس خیال کو جھٹک دیتا کہ نہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی کیوں ان کو اٹھائے گا؟ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ وہ تو قلم، کتاب سے تعلق رکھنے والے شخص ہیں ان کی بھلا کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟

اس سے اگلی بات جو میرے ذہن میں آئی کہ میں یہاں فیصل آباد میں بیٹھ کر ان کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ ایک دو دوست کہ جن کی وساطت سے کبھی ایجنسیوں سے متعلق کچھ معاملات حل کروائے تھے ان کو اطلاع دی اور درخواست کی کہ زندگی اور خیریت کی حد تک ہی سہی کچھ معلومات اگر ذاتی ذرائع سےحاصل کر سکیں تو معلوم کریں۔ سب احباب نے جلد واپس رابطے کا وعدہ کیا مگر کسی ادارے کی تحویل میں ہونے کے سوال پر پنجاب کی حد تک ہر جانب سے انکار ہی سننے کو ملا۔

ایک بجے تک کوئی سراغ نہ ملنے پر ہم لوگوں نے اسےسوشل میڈیا پر لانے کا فیصلہ کیا۔ مین سٹریم میڈیا  پر  بھی  اب  اس  حوالے  سے خبریں  آنا شروع  ہو  چکی  تھیں جو کہ یقیناً شانی بھائی کے مرہونِ منت تھیں۔ ہمارے لئے اس وقت سب سے کارآمد کام کہ جو ہم مختلف شہروں میں ہوتے ہوئے بھی کر سکتے تھے وہ سوشل میڈیا پر اس خبر کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا تھا۔ وٹس ایپ گروپ میں حسن رضا اور ایلیا باجی کے مشورہ سے “ہیش ٹیگ” کا حتمی فیصلہ ہوا اور اس کے بعد ایک سوشل میڈیا کمپین باقاعدہ طور پر ٹوئیٹر اور فیس بک پر شروع کر دی گئی۔

اس موقع پر جن دو لوگوں کا نام نہ لینا زیادتی ہو گی وہ جبران ناصر اور سید علی عباس زیدی ہیں کہ جنہوں نے حسن رضا کی وساطت سے نا صرف خود مجھ سے رابطہ کیا بلکہ اس سوشل میڈیا کمپین کو بڑھانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ جبران ناصر کا خصوصی شکریہ اس لئےکہ دو دن بعد جب ہمارے مخالف میڈیا کمپین شروع ہوئی تو سب سے پہلے انہوں نے وڈیو پیغامات کے ذریعے اس جانب توجہ مبذول کروائی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا کرنے کی صورت میں خود ان کا بھی میڈیا ٹرائل کیا جائے گا انہوں نے صرف ایک فون کال پر، جو شاید میرا ان سے دوسرا باقاعدہ رابطہ تھا، وہ ویڈیو پیغام نشر کیا کہ جس میں سلمان بھائی کا کسی بھی ایسے فیسبک پیج سے تعلق جوڑنے کو غلط قرار دیا کہ جو توہین آمیز مواد اپلوڈ کرتا رہا تھا۔

اس دوران مختلف شہروں میں سول سوسائٹی/ ہیومن رائٹس کی تنظیموں/ سلمان بھائی کے دوستوں کی جانب سے مظاہروں کا اعلان شروع ہو چکا تھا۔ مگر مجھے اسلام آباد سے شانی بھائی اور عمّو جان کی جانب سے واضح ہدایات تھیں کہ ہم نے فرنٹ لائن پر آ کر کسی مظاہرے کا حصہ نہیں بننا مگر سوشل میڈیا کے ذریعے سے اس معاملے کو زندہ رکھنے میں اپنا حصہ ڈالتے رہنا ہے۔ کیوں کہ وہ دونوں حضرات اون گراؤنڈ معاملات کو دیکھ رہے تھے اور صورتحال سے مجھ سے کہیں زیادہ واقف تھے اس لئے ایک موقع پر ہمیں ان کے کہنے پر چنیوٹ میں مظاہرے کا اعلان واپس لینا پڑا۔ جس کے بارے میں میں آج بھی یہ دعویٰ  کرتا ہوں کہ اگر ہم وہ مظاہرہ کرتے تو وہ اس سلسلے میں کیے جانے والے بڑے مظاہروں میں شمار ہوتا۔ میں شکر گزار ہوں حسن فاطمی کا اور اعجاز مہدی کا کہ جنہوں نے تمام انتظامات کے باوجود اس مظاہرے کو نہ صرف منسوخ کیا بلکہ آئندہ ضرورت پڑنے پر اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔

مخالف کمپین اس شدت سے لانچ کی گئی اور عامر لیاقت حسین اور اوریا مقبول جان نے بالخصوص اور دیگر کچھ اینکر حضرات نے بالعموم ایسی فضا قائم کر دی کہ  علاوہ وہ لوگ جو ہمیں ذاتی طور پر جانتے تھےان کے ،  بہت بڑی تعداد میں دوست بھی اس پروپیگنڈہ کو حقیقت سمجھ بیٹھے اور ہمارا بیشتر وقت عوام کو اس بات پر قائل کرنے پر خرچ ہوا کہ خدارا اس جھوٹی کمپین پر یقین کر کے اغواء شدگان کے لئے آواز اٹھانا نہ ترک کیجئے اور اداروں کو اپنا کام کرنے دیں حقیقت سامنے آ جائے گی۔ مگر افسوس کہ  ہمارے ملک میں لوگ شاید حقیقت سے زیادہ ذاتی خواہشات کو خبر بنتے دیکھنا چاہتے تھے چاہے اس میں کسی بےگناہ کی جان ہی کیوں نا چلی جائے۔

افسوس صد افسوس کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں علی بھائی کو پریس کانفرنس کر کے کلمہ پڑھ کے سلمان بھائی کے مسلمان ہونے کا یقین دلوانا پڑا۔
سیاسی طور پر پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی پہلے دن سے مظاہروں میں شریک رہیں اور مدیحہ نا صرف اس حوالے سے آواز اٹھاتی رہیں بلکہ مظاہروں کے حوالے سے مقامی و مرکزی قیادت کی موجودگی پر بھی اپڈیٹ کرتی رہیں۔ شمعون ہاشمی سے واقفیت صرف نام کی حد تک تھی لیکن وہ بھی بلاتعطل رابطے میں رہے اورپاکستان میں نہ ہونے پر بھی کسی نا کسی ذریعے سے رابطے میں رہے۔
عمران بخاری، عدنان محسن اور ہما بتول کا ذکر نا کرنا زیادتی ہو گی۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جو ہمارا حوصلہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی نا صرف آواز بلند کر رہے تھےبلکہ مخالف کمپین کےجواب میں ان کا کردار ہماری کاوشوں سے کہیں زیادہ تھا۔

سوشل میڈیا پر علی ارقم، حمزہ بلوچ، آصف ناجی، کپل دیو، بدر فاروق، فرخ عباس، علی سلیمان اور بےشمار دوسرے دوستوں کا ساتھ ہمہ وقت دستیاب رہا اور یہ گالیاں تک کھانے میں بھی ہمارے شریک رہے۔
مونا باجی، ایلیا باجی، نورِ مریم، عارف امام نہ صرف دوسرے ممالک میں مظاہروں کا اہتمام کرتے رہے بلکہ فیسبک پر اور انٹرنیشنل میڈیا میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے جلد بازیابی کی کوششیں کرتے رہے۔
شانی بھائی نے بڑے بھائی ہونے کا صحیح معنوں میں ثبوت دیا اور حقیقتاً سلمان بھائی کی بخیریت واپسی یقینی بنانے کے لئے دن رات ایک کیے رکھا۔ مجھے یاد ہے وہ امی کو دلاسا دیتے تھے کہ ایک مہینے میں آپ کو سلمان واپس لا کر دوں گا۔ اور انہوں نے یہ کر بھی دکھایا۔

میں نے گمشدگی کے ۲۱ دنوں میں اپنے والدین کو روتے نہیں دیکھا۔ اور سلمان بھائی کے واپس آنے کے بعد بِلک بِلک کر روتے دیکھا۔ بھابی کا اپنے آنسوؤں کو روکنا کہ سرمد کو معلوم نہ ہو جائے کہ اس کے بابا امریکہ نہیں گئے بلکہ اپنے سچ بولنے کی سزا ایک چار x چھ کے کمرے میں کاٹ رہے ہیں۔ زندگی نے ان ۲۱ دنوں میں بے بسی، امید، آس، انتظار اور اللہ پر توکل کے وہ سبق دیے ہیں کہ جس پر بیتی ہو وہی جان سکتا ہے۔
اُس ذات کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ آج اس واقعے کے ایک سال پورا ہونے سے پہلے ہی ایف آئی اے نے سلمان بھائی اور دیگر بلاگرز کو بَری قرار دے دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس ظلم کا حساب بھی ہم انشاءاللہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے۔

خدا سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: وہ تمام لوگ جن کا تذکرہ کیا گیا یقیناً ان کے علاوہ بے شمار لوگوں نے اس سب میں اپنا کردار ادا کیا ہو گا۔ یہ وہ تمام لوگ ہیں جو بالواسطہ مجھ سے رابطے میں تھے۔ میں تہِ دل سے ان سب کا مشکور ہوں۔ ان کے علاوہ چند پسِ پردہ عناصر کی مدد بھی شاملِ حال رہی جن کا نام یہاں نہیں لکھا جا سکتا ۔ خدا ان کو ان کی کوششوں کا اجر دنیا و آخرت میں عطا کرے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply