دیوبندیت کا بیانیہ

مکتب دیوبند الزامات کی زد میں ہے اور اسکی وجہ بھی سمجھ آتی ہے۔ مطالبہ ہے کہ یہ مکتب اپنا بیانیہ تبدیل کرے۔ جائز مطالبہ ہے۔
لیکن طالب علم کے خیال میں اس مکتب کو اپنا بیانیہ تبدیل کرنے کی بجائے اپنے اصل بیانیہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پہ یہ مکتب بہت فراخ ذہن واقع ہوا تھا۔
برصغیر کے احناف کے دوسرے گروہ المعروف بہ بریلویت سے انکا فرق یہ تھا کہ معرفت کا حق خلوت میں افشا کرنا درست اور جلوت میں بیان کرنا درست نہ ہے تاکہ عوام الناس الجھاؤ کا شکار نہ ہوں توحید کے بارے میں۔
اسی طرح ختم نبوت کے بارے میں خود بانی دیوبند کا نظریہ یہ تھا آپ پہ نبوت کے ختم کا مطلب یہ ہے کہ ان سے بہتر نبی کوئی نہیں ورنہ سلسلہ جاری ہے۔
علمائے دیوبند تصوف اور سلسلہ ہائے تصوف کے قائل رہے لیکن روحانی گدی نشینی کی موروثیت کے قائل نہ تھے۔
پھر یہ سوچ تبدیل کیوں اور کیسے ہوئی؟؟
ایک بہت ابتدائی واقعہ کا ذکر ضروری ہے جس کی یاد اور اہمیت اب اذہان سے محو ہوچکی۔
وہ ۱۹۲۳ کے قریب حجاز پہ اہل نجد کا قبضہ تھا جس کے بعد علمائے حجاز رخصت ہوئے ورنہ اس سے قبل علمائے حجاز کی رائے قول فیصل کا درجہ رکھتی تھی۔
اس وقت نجد کے وہابی آلِ شیخ کی طرف سے جنت البقیع میں مزارات کا گرایا جانا ایسا واقعہ تھا جس سے عالم اسلام ششدر اور متنفر رہ گئی بھولنے میں ہمارا ثانی شائد ہی کوئی ہو کیونکہ ہم یہ بھی بھول چکے کہ جب روضہ رسول گرانے کی بات آئی تو سیکولر اتاترک نے سعودیہ پہ باقاعدہ حملہ کی دھمکی دے دی جس کی وجہ سے روضہ رسول محفوظ رہا۔ عاشقان رسول اس پہ ایک سیکولر کی تعظیم نہ بھی کریں تو مصطفی کمال کی صحت پہ کیا فرق؟؟
اتاترک کی آخرت کا فیصلہ کب ان ابلہوں کے ہاتھ تھا؟؟
علمائے حجاز رخصت ہوئے اور انکی جگہ نجد کے آلِ شیخ نے سنبھالی تو ان پہ سب متفق نہ تھے۔
ہم سب کو اور خصوصاً اس مکتب کو دوسری لہر کا سامنا سعودیہ کے اثر کی وجہ سے کرنا پڑا۔
سعودی مدارس کی کھلے دل سے امداد نیکی سمجھ کے کیا کرتے تھے تو سعودیہ اور خلیج کی سلفیت کی سوچ رفتہ رفتہ اس مکتب فکر میں در آئی۔ یہ کچھ ساٹھ کی دہائی کے اختتام اور ستر کی دہائی کی ابتدا سے ہی شروع تھا اور اس کے پیچھے کوئی سازش یا سیاست نہ تھی۔ صرف اتنا تھا کہ خلیج کی وہابیت اپنی سخت توحیدی فکر کے باعث مکتب دیوبند بالخصوص پاکستانی کو اپنا اتحادی سمجھتی تھی۔
فکری لحاظ سے اس مکتب فکر کو اپنے بنیادی اور اصل بیانیہ کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے نا کہ بیانیہ تبدیل کرنے یا موجودہ بیانیہ پہ اصرار کرنے کی ضرورت
راقم الحروف خود بھی دیوبندی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور توحیدی ہے

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply