مکالمہ ۔ کیوں اور کیسے ؟

برادرم انعام رانا کی جانب سے مکالمے کا آغاز یقینا ایک قابل تحسین اقدام ہے ۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ کوئی تو ہے جو گفت و شنید کا پیامبر بن کر سامنے آیا ۔ ایک ایسے دور میں جب طاقت کو سب سے بڑی دلیل سمجھا جاتا ہے کوئی تو یہ سمجھتا ہے کہ طاقت دلیل نہیں بلکہ دلیل اصل طاقت ہے ۔ اب یہ اختلاف رائے کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ مکالمے کے ذریعے اپنے افکار و نظریات کو پرکھے ۔ حق اور باطل ، سچ اور جھوٹ درست اور غلط یہ طے کرنے کے لئے مکالمہ سب سے موزوں راستہ ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو قومی بیانیئے کی تشکیل نو کر سکتا ہے ۔ میں چند تجاویز مکالمے کے فروغ کے لئے دینا چاہوں گا اگر مکالمہ ٹیم ان پر غور کرے تو مکالمے کو شائد زیادہ بہتر بنایا جا سکے ۔ میری نظر میں مکالمے سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مکالمہ بامقصد ہونا چاہیئے ، اہداف واضح ہوں ۔ مکالمے کا اصل ہدف حقائق تک رسائی ہو تو مکالمہ بامقصد ہو سکتا ہے ۔ یہاں یہ سوال اٹھے گا کہ حق کیا ہے ؟ حق تو سب کا اپنا اپنا ہے ۔ اس لیئے ایک ایسا میکنزم ہونا ضروری ہے جس سے مکالمے کا نتیجہ اخذ کیا جا سکے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف ممکن بلکہ قابل عمل بھی ہے ۔ کیسے ؟ آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ کیوں کر ممکن ہے ۔ میری ان تجاویز پر مکالمہ ٹیم زیادہ بہتر انداز میں کام کر سکتی ہے اور اس پر غور کیا جا سکتا ہے ۔ میں یہاں برادرم انعام رانا صاحب اور ان کی ٹیم کے سامنے مکالمے کو نتیجہ خیز اور بامقصد بنانے کا طریقہ کار پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
سب سے پہلے تو یہ کہ مکالمے کو مکالمے کی شکل میں لایا جائے ۔ یوں کہیں کہ آن لائن مکالمے کی جو ممکنہ شکل ہو اسے اس طرز پر پیش کیا جائے ۔ مثال کے طور پر آپ ایک دعویٰ سامنے لاتے ہیں جس پر مکالمہ مقصود ہے ۔ زیادہ سے زیادہ وہ ایک سوال ہو گا۔ مختصر اور واضح سوال جس میں کوئی ابہام نہ ہو ۔مثلاً یہ کہ پاکستان کو اسلامی نظام چاہیئے یا سیکولر؟ وغیرہ ۔ بلکہ ان سے بھی پہلے خود مکالمے پر مکالمہ کر لیا جائے ۔ اس طرز کے مکالمے کو آپ اپنی ویب سائیٹ پر مکالمات کے عنوان سے الگ سیکشن میں رکھیں ۔ اور اس کے نیچے کمنٹس کے لئے تین کالم رکھیں ۔ ایک طرف دعوے کے حق میں مکالمے کا چیلنج قبول کرنے والے اور دوسری جانب اختلاف رائے رکھنے والے کے کمنٹ کے لئے ۔ یوں سمجھیں کے دلیل کے مقابل میں دوسری دلیل ہو ۔ دونوں آمنے سامنے ہوں ۔ مکالمے کو پڑھنے والے اپنی رائے بھی دیں ان کے لئے الگ پورشن رکھا جائے ۔ اس تجویز پر عمل پیرا ہونے سے قبل ایک اور اہم مرحلہ طے کرنا ضروری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جو جو فریق مکالمے کی دعوت قبول کریں ان سے کم از کم ایسے تین افراد کے نام حاصل کریں جو ان کے لئے قابل اعتماد ہوں اور وہ ججز کی حیثیت سے دونوں اطراف سے سامنے آنیوالے دلائل کو جج کریں ۔ دونوں اطراف سے کم از کم چھ اصحاب فکر و دانش بحیثیت جج متکلم کے دلائل کا تجزیہ کر کے اپنی رائے ریمارکس کی صورت میں دیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ مکالمہ ٹیم اپنی جانب سے کم از کم تین ایسے افراد کو بطور مبصر ججز کے پینل میں رکھے جو زیر بحث معاملے کے موضوع پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہوں ۔ اگر مکالمہ معیشت پر ہو تو معاشی ماہرین ، اگر مذہب زیر بحث ہے تو معتبر مذہبی شخصیات اور اگر زیر بحث سائنس ہے تو سائنسی ماہر سیاست ہو تو سیاسی ماہر ۔ تعلیمی ماہر وغیرہ ۔ وہ ماہرین دلائل کے ساتھ ساتھ ججز کی آراء کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے مکالمہ منتظم کو دیں گے اور ان کی رائے کا کلی طور پر انحصار اس بات پر ہو کہ ججز کا فیصلہ عدل کے منافی تو نہیں ۔ یعنی وہ عدل کو بنیاد مانتے ہوئے ان چھ ججز کے فیصلے پر مکالمے کا آغاز کریں گےیہاں یہ سوال تو آپ کے ذہن میں لازمی طور پر آئے گا کہ عدل کا پیمانہ کون طے کرے گا ۔ لیکن یہ جب ایک آدھ مکالمہ ہو کر فیصلہ سامنے آئے گا تو خود معلوم ہو جائے گا کہ اس کا فیصلہ عدل کی بنیاد پر ہوا ہے یا نہیں ۔ جس میں ججز اپنے فیصلے کو تقاضائے عدل کے مطابق ثابت کر کے دیں ۔ دلائل اور فیصلوں پر جرح و تعدیل کے بعد جو مشترکہ نکات سامنے آئیں مکالمہ ٹیم کے لئے وہ مکالمہ کا آئین ہونے چاہیئں
اس عمل کے لئے شائد ویب سائیٹ میں بھی تبدیلی کرنا پڑے ۔ مکالمات کے سیکشن میں سوال کے نیچے فریقین کو آمنے سامنے دلائل کا موقع دیا جائے ۔ مدعی دعوے کی تائید میں ایک دلیل لائے ۔ اس کے بلمقابل جواب دعویٰ سامنے لایا جائے ۔ اور ساتھ ججز پینل کا تعارف اور پروفائل بھی ہو ۔ مدعیان کا پروفائل بھی ہونا چاہیئے اور ان سب کے ساتھ ہر دلیل کو عام قاری کے پاس پسند یا ناپسند کرنے کا آپشن بھی دیا جائے ۔ عام قاری کی رائے دلائل کے بیچ نہ آنے پائے بلکہ الگ ہو ۔ ججز کا پینل مکالمے کے اختتام پر اپنا اپنا فیصلہ لکھے اور ان سب فیصلوں کی روشنی میں ایک مشترکہ فیصلہ سامنے آنا چاہیئے اس طرح ان مشترکہ نکات کی بنیاد پر نیا بیانیئہ خود بخود تشکیل پائے گا ۔ ایک آخری عرض یہ ہے کہ میری دی گئی تجاویز سے سو فیصد اتفاق ضروری نہیں اس میں جہاں مزید بہتری کا کوئی راستہ نظر آئے اسے اختیار کیا جائے اور جو جو بات اصول مکالمہ کے خلاف ہو اسے حذف کیا جا سکتا ہے ۔
لیکن ایک اصول سب سے زیادہ پیش نظر رہنا چاہیئے کہ مکالمے کو نتیجہ خیز بنایا جائے
اس تحریر کا مقصد صرف مکالمے کو نتیجہ خیز بنانے کا ایک طریقہ کار بیان کرنا تھا ۔ اگر آپ یا آپ میں سے کوئی بھی مکالمے پر مکالمہ کرنا چاہیں تو میں خود کو بطور مدعی کٹہرے میں لانے کو تیار ہوں اور میرا دعویٰ یہ ہے کہ مکالمہ ہی نئے عہد کا نیا بیانیہ تشکیل دے سکتا ہے ۔
اختتام پر میں مکالمے کا مختصر سلوگن بھی پیش کرنا چاہوں گا ۔ میری نظر میں سب سے بہتر سلوگن یہ ہے کہ
۔۔ مکالمہ دلیل کی بنیاد پر ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ فیصلہ عدل کی بنیاد پر ۔ یعنی ایک ایسی مثلث جس کا ایک ضلع مکالمہ دوسرا دلیل اور تیسرا عدل ہو ۔ اگر اس میں مذید کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے تو ضرور لائی جائے

Facebook Comments

عارف کاشمیری
اصل نام ۔ پیرزادہ عتیق الرحمان شاہ پیشہ ۔ صحافت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply