• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ہے خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے/تحریر: محمد اقبال دیوان(1)

ہے خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے/تحریر: محمد اقبال دیوان(1)

 سو فیصد نجی  تاثرات پر مبنی ایک غیر معلوماتی مضمون جو لیونارڈو ڈا ونچی ،غالب،احمد دیدات،اے آر رحمن اور ظفر الطاف کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

حصہ اوّل 

(یاد رکھیے یہ پہلی کھلواڑ کا بیان ہے)

جس کسی کو بھی موقع  ملتاہے،غالب سے سب ہی کھلواڑ کرتے ہیں۔

آپ لفظ کھلواڑ پر اعتراض کریں،تو پطرس کا وہ ختنہ اور گھڑیال والا جوک یاد کرلیں

ارے آپ کو یاد نہیں؟

مختصر سا تو ہے!

اور کھلواڑ لفظ کی رعایت سے کچھ لازم سا بھی ہوچلا ہے

گھڑی والے

پطرس بخاری سے کسی نے پوچھا کہ آپ زندگی میں کبھی لاجواب ہوئے؟

‏انہوں نے جواب دیا ہاں ایک مرتبہ

‏”ہوا یوں کہ  میری گھڑی خراب ہو گئی ، بازار میں گھڑیوں  کی دکان نظر آئی،میں دکان میں  گیا ۔انہیں  گھڑی دی کہ یہ ٹھیک کرانی ہے ۔وہ کہنے لگے ہم تو گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتے

میں نے پوچھا تو آپ کیا کرتے ہیں؟

‏جواب آیا

‏”جی ہم ختنے کرتے ہیں”

‏پطرس بخاری: تو پھر یہ گھڑیاں کیوں لٹکی ہوئی ہیں؟

‏دکاندار: “تو آپ بتا دیں کہ ہم کیا لٹکائیں؟

ہم چھ لوگوں کا ذکر کریں گے

جن دیدہ وروں کی غالب سے کھلواڑ ہمیں اچھی لگی۔۔

یہ سب  بیان تاثراتی ہے اور تاثرات کسی تصدیق کے  محتاج نہیں ہوتے

ڈاکٹر ذاکر حسین/محمود حسین

جو آپ پر گزری،جو آپ نے محسوس کیا ،وہ دوسرے کے لیے کتنا ہی absurd کیوں نہ ہو،آپ کے لیے اہم اور کھرا سچ ہے۔

اسی لیے سیدنا مصطفے زیدی نے کہا تھا                      ع

داستانِ      دل سب سے پرانی ہے مگر

کہنے والے کے لیے سب سے نئی رہتی ہے

یہ علیحدہ بات ہے کہ  یہ مضمون  شاید ویسا علمی نہ ہو جیسا کچھ آپ نے اب تک غالب خستۂ جاں پر پڑھا ہے۔غالب کی توجیہ و تشریح ہمارا مدعا اور میدان نہیں،ایسی واردات ڈالنی ہو تو ،اس غالب پروری  کے لیے ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری ،ڈاکٹر ذاکر حسین  بھارت کے تیسرے صدر جو جامعہ کراچی کے وائس چانسلر محمود حسین کے بھائی  تھے،اور ثاقبہ رحیم الدین کے تایا جان،ثاقبہ بی بی جنرل رحیم الدین کی اہلیہ ہیں اور انوار الحق پسر جنرل ضیا کی ساس ۔ان کی قابل ستائش شناس یہ ہے کہ قلم قبیلے کی روح ِ رواں اسی حلقہ ءدلدارانِ  غالب میں مہرافشاں  فاروقی بھی شامل ہیں۔جن کے والد کے ناول”کئی چاند تھے سر آسماں کو “کئی مداح “آگ کا  دریا”سے بہتر ناول مانتے ہیں۔اور کچھ مسلکی نمبر ون کے لیے میرا، ریما  کی جنگ۔

اس کے علاوہ ہمارے  لاہور کے ایک دوست عاصم کلیار صاحب ہیں۔ہمیں  گمان ہے کہ غالب پر کتابوں  کا  پاکستان میں سب سے بڑا نجی ذخیرہ ان کا ہے۔بیس ہزار کے قریب کتب ہیں اور اب بھی کھوج جاری ہے۔

اس بات پر رنجور ہیں کہ سن 1969 میں ادارہ غالب نے جو یادگاری پنسل اور تھرماس جاری کیا تھا وہ ان کے پاس نہیں۔

پلے بوائے،فرسٹ ایڈیشن

سادہ لوح اور دل دار طبیعت کے  مالک  ہیں عاصم میاں۔۔

ہم نے  چھیڑا کہ

غالب کاذکر  اداکارہ مارلن منرو  نے بھی  رسالہ ” پلے بواۓ “کے پہلے شمارے میں  اپنی برہنہ تصویر کے شائع ہونے پہ  کیا تھا، جب پلے بواۓ کے پہلے شمارے کا  دسمبر 1953 میں  اجراء ہوا  تھا۔

ایڈیٹر ہیفنر نے اس تصویر کو پانچ سو ڈالر میں خریدا تھا

عاصم صاحب چونکہ ہمیں بہت میگنی فائی کرکے دیکھنے کے عادی ہیں  اور یہ بھی جانتے ہیں کہ مارلن منرو کا مطالعہ بہت وسیع تھا سو کہنے لگے آپ کے پاس  تو یقیناً وہ شمارہ ہے۔

ہم نے کہا اللہ سے توبہ کریں ہم اس وقت تو بہت چھوٹے تھے

اور رو کر روٹی مانگتے تھے اور صدر وزیر اعظم والے پیمپر باندھتے تھے کہ جانے کب  جنرل باجوہ ڈانٹ دے اور ہمارا وضو ٹوٹ جاۓ۔

عاصم صاحب نے پیچھا نہ چھوڑا کہ اچھا وہ مارلن منرو کی وہ سنٹر فولڈ والی تصویر نہ دکھائیں جسے  اِن دنوں Sweetheart of the Month,کہا  جاتا تھا مگر یہ تو بتادیں کہ مارلن منرو نے غالب کی کس بات سے مرعوب ہوکر یہ ننگی تصویر کھنچوائی۔

ہم نے کہا،اسے غالب کے اس شعر نے بہت تحریک دی۔

غالب،میاں شہباز

؎تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں

شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

(بَناتُ النَّعش‘ کی اصطلاح آسمان پر قطب شمالی کے گرد

موجود سات ستاروں کے جُھرمٹ کے لیے استعمال ہوتی ہے)

جب سن 1949  میں اس نے یہ تصاویر کھنچوائی ، تو اس کے پیش نظر یہ شعر تھا ۔اب بنات النعش    کی اصطلاح اُردو کے   بیشتر  پروفیسروں کے پلے نہیں پڑتی، تو مارلن منرو نے تو اردو میں ایم فل بھی نہ کیا تھا۔

عاصم میاں کے ایک تاجر دوست میاں شہباز  علی  لاہور والوں کو  بھی خون دل چراغ نیم شب میں انڈیل کر تحقیق کی شمع منور کرنے کا شوق ہے۔غالب کی وہ وہ ڈھکی چھپی باتیں کھوجنے میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی جے آئی ٹی   ( جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم )   غالب اور فنِ  طب تک آگئی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کب غالب کے اثرات ٹوئیٹر اور ایلان مسک کی ازدواجی بے راہ روی کی پالیسی ،ان کی سنان تحقیق سے کٹ مرے گی۔

چلیں پہلی کھلواڑ کی طرف چلیں

تلک چاڑی  حیدر آباد میں کتاب ایجنسی سے جڑے  شہر کے سب سے بڑے باغبان جیولرز ہوتے تھے۔مالک نعیم کی آنکھیں نیلی تھیں،اوپر کالے سفید ٹی وی کے دنوں  میں ایک اناؤنسر کا گھر تھا،اس کی آنکھیں بھی نیلی تھیں، مگر نعیم کی نسبت بڑی اور بہتر چہرے پر آویزاں تھیں۔

جب تک ہماری گلی میں رہتی تھیں ان آنکھوں کی گفتگوبقول بھارت کے بہترین اسٹینڈ اپ کامیڈین ذاکر خان کی مقبول ترین اصطلاح کہ  گلی کے کڑک لونڈے  نہ سُن پائے۔

مگر  جب  ان کے  کتے لاڈیاں(Puppy Love) والے زمانے کے عاشق نے ان کو حبالہ نکاح میں کَس کر باندھ لیا تو     پھر  ان کے عاشق نامراد اُردو کے ایک شاعر نے دو مصروعوں کا  ایسا ایک     نوحہ لکھا کہ حیدرآباد والوں کو تب جاکے  پتہ  چلا کہ ان کے کاکول کے  حصار سے حسن کی اس اسامہ بن لادن کو کون لندن ہاتھ  پیلے کرکے لے گیا۔

اس نوحےکے ایک شعر کا احوال یوں ہے

بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں

شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوۓ

اب آپ کچھ دیر اناؤنسر،نعیم ،بولتی آنکھیں اور اس فراز دشمن شاعر کو بھول کر حیدرآباد کی دکان ادبیات کا ذکر  سن لیں ،جہاں ہم اپنے ذوقِ  مطالعہ کی سیرابی ،گندی صحبت سے بچنے کے لیے مفت میں چاکری کرتے تھے۔

یہ پہلی کھلواڑ کا بیان ہے

دنیا کی خوبصورت ترین کتابوں کی دکان “ادبیات” پر دنیا کی بہترین اسٹیشنری ،کتابیں،ہر طرح کا    کاغذ،قلم،رسائل دستیاب ہوتے۔

بہت ہی کلاس کی پڑھی لکھی اشرافیہ وہاں آتی تھی۔

ہم نے اپنے بچپن میں سائیں جی ایم سید،شیخ ایاز عبدالحمید سندھی قاضی خادم حسین،ابراہیم جویو،نسیم کھرل،ابرایم منشی،طارق اشرف،میجر جنرل فیصل نصیر کی والدہ محترمہ  بیگم شمع خالد جو ریڈیو پاکستان کی سینئر پروگرام پروڈیوسر اور ہماری مربّی تھیں،ڈاکٹر  غلام مصفٰے  شاہ،کس کس کا نام لیں، سب  آتے تھے۔۔

لائف کور،صوفیہ لورین

ساٹھ ملک امریکہ، برطانیہ، فرانس ،جرمنی سمیت دیکھے۔ادبیات سے خوبصورت  کتابوں کی دکان نہ دیکھی۔۔ہم کسی بھی ملک جائیں سب سے پہلے کتابوں کی دکان ڈھونڈتے ہیں۔اس دکان پر ایک بگڑے رئیس بھی آتے تھے۔نام  ہم نہیں بتائیں گے،سب انہیں ان کے نک نیم  ڈیمبلی  سے پکارتے تھے۔

ہم سے بہت گفتگو کرتے تھے ،سی ایس ایس کرنے کی ضد  بیگم شمع خالد کی تھی۔

وہ ہمیں  ریڈیو پاکستان پر ہونے والے طالب علموں کے جنرل نالج کے ہر مقابلے میں بلالیتی تھیں۔اچھے خاصے پیسے مل جاتے۔

ڈیمبلی کو ہم میں جو Creative Sparkدکھائی دیتا تھا وہ کوئی اور تھا۔ ان کی مرضی تھی کہ ہم  فیشن ڈیزائننگ کرنے میلان اٹلی نکل جائیں۔میلان فیشن سب ہمارے لیے دِلّی بن گئے۔سو دِلّی اُن دنوں بھی اتنی ہی دور تھی، جتنی آج ہے۔۔

لوگوں کی بات نہیں،یہ قصّہ ہے  اپنوں کا من میت

دشمن  جو  کھیت  لگائے تو میت جیا بہلائے

من میت  جو گھات لگائے اُسے  کون بجھائے

ڈیمبلی نے ایک دن جب ہمارے ہاتھ  میں لائف کا وہ شمارہ دیکھا جس کے سرورق  پر مشہور اداکارہ صوفیہ لو رین کی تصویر تھی

پندرہ روزہ لائف میگزین ،جو ٹائم میگزین والوں کی ملکیت تھا اور اپنی فروخت میں رسالے فلم فیئر کا مقابلہ کرتا تھا،  یہ اس کے بہترین سرورق میں شمار ہوتا ہے۔ جس فلم کی یہ تصویر تھی اس کا نام

Yesterday Today and Tomorrow

ان دِنوں چونکہ فلم سنیما میں جاکر دیکھی جاتی تھی لہذا اس کے جو ٹاٹ کے سستی لکڑی کے فریم پر چسپاں پوسٹر بنے ہوتے اس میں  فلم کا انگریزی ترجمہ  لازم لگتا۔اس کا اِسی تصویر کے نیچے ترجمہ تھا

“اُٹھ جاگ جوانی  آتی ہے” ۔فلم اگر بڑی  بجٹ والی اور مشہور ہوتی تو اس کے پوسٹر باقاعدہ پینٹ ہوتے ۔ ایم ایف حسین بھی پہلے سنیما پوسٹر بناتے تھے ۔بوہری تھے الور سے بمبئی آئے تھے۔بڑھاپے میں بہت دنوں تک مادھوری ڈکشٹ پر اور کچھ دن تبو پر بھی عاشق رہے مگر تبو کو انہوں نے پینٹ نہیں کیا۔مادھوری کی جوپینٹنگ بنائیں وہ بہت مہنگی بکیں۔سن 90ء  میں  50  لاکھ کی۔

سر ڈیمبلی نے ہمارے کمسن ہاتھوں میں یہ رسالہ دیکھا  تو بس اتنا پوچھا

پڑھ لیتے ہو؟

ہم نے کہا “دیکھتا زیادہ ہوں۔ڈکشنری بہت دیکھنی پڑتی ہے۔اسکول اُردو میڈیم ہے،خیراتی ہے۔ میمنوں کا کارِخیر ہے،وہاں انگریزی نہیں سکھاتے”۔

تب سے ان کا اصرار تھا کہ اسکول سے سیدھے ان کے گھر آئیں۔

ادھی بینو سے نماز قرآن سیکھیں اور ان سے انگریزی۔

قرآن ہم نے گھر پر پڑوس والی استانی جی سے سیکھا تھا، جو ہم  سمیت سب مرد بچوں سے بھی پردہ کرتی تھیں۔درمیان میں پردہ لٹکا رہتا۔ایک بید البتہ پردہ کے دونوں طرف برابر نکلی ہوتی، جس سے دوسری طرف بیٹھی لڑکیوں کی بھی برابر سے تواضع ہوتی۔نماز  اماں نے پانچ سال کی عمر میں معنی سے سکھادِی تھی سو ہمارا مسئلہ دِین نہیں۔۔ انگریزی تھا۔اَدھی بینو کو رسالے پڑھنے اور کھانے پکانے کا شوق تھا۔ملازماؤں کی شامت آجاتی جب وہ کچن میں ہوتیں۔فلمی رسالے لانے کی ذمہ داری ہماری تھی۔بِل ڈیمبلی دیتے تھے۔اَدھی بینو پڑھنے کے بعد یہ رسالے ہمیں دے دیتی تھیں ، جو پہلے گھر والے اور پھر  دوسرے  پڑھتے۔۔یوں محلے والیاں بھی کھڑکیوں سے چِپکی رہتیں کہ ماہی آوے گا۔

ہمارے انگریزی کا  سیکھنے آغاز  پانچ ہزار گز کے اس بنگلے کے  آؤٹ ہاؤس کی نچلی منزل  میں ہُوا۔کھڑکی سے جڑے بیٹھے ہوتے تو ایک بگھی  آتی اور ایک برقعہ  پوش خاتون چپ چاپ اوپر کی منزل میں چلی جاتیں۔اوپر ایک بیڈ روم ایک ڈرا ئنگ روم ایک چھوٹا سا بار اور کتابوں رسائل سے لدی پھندی لائبریری تھی۔

ہیرا منڈی،حیدرآباد

ان کی آمد سے ہماری تدریس کا سلسلہ فوری طور پر  رُپک جاتا، مگر اتنی رعایت ہوتی کہ اِسی بگھی میں شان سے سوار ہوکر گھر جانے کی عیاشی میسر ہوجاتی۔

بگھی والے کوچوان نے بتایا کہ یہ جو عورت ملنے آتی ہے یہ  ہیرا منڈی والی فردوس ہے ۔

ہم نے پوچھا وہ جعفری کی بہن؟

تو جواب اثبات میں تھا

جعفری ہمارا ہم جماعت تھا۔اکثر ہوم ورک نقل کرنے ہماری کاپی لے جاتا۔واپس نہ آتا تو ہمیں خود لینے جانا پڑتا۔ہیرا منڈی اور ہمارا میمن انجمن ہائی اسکول دو گلیوں کی دوری پر تھے۔ ہیرا منڈی کے اکثر بچے مفت کا خیراتی اسکول  ہونے کی وجہ سے وہاں پڑھا کرتے تھے۔

ایک ماہ سے اوپر ہوچلا تھا۔ نہ وہ بگھی تھی نہ وہ خوشبو اُڑاتی فردوس  کے اشرفیاں لٹاتے سینڈلوں کی لکڑی   کی سیڑھی پر سولہ ماترے کے طبلے والی گمک۔۔

ایک دن سر ڈیمبلی نے پوچھ لیا

تم نے جعفری کا گھر دیکھا ہے۔؟ ہم نے جب اثبات میں جواب دیا ۔پوچھا کہ کبھی اکیلے گئے ہو؟ہم نے کہا،بارہا۔جعفری ہماری اردو انگریزی کی کاپیاں لے جاتا ہے۔جب وہ لے کر نہیں آتا تو ہم آدھی چھٹی میں اس کے گھر جاکر لے آتے ہیں۔تب انہوں نے 100 کی گَڈی والا ایک لفافہ دیا۔ ان دنوں سب سے بڑا نوٹ سو روپے کا ہوتا تھا پانچ سو ہزار کے نوٹ ضیا جنرل لایا۔باغبان  جیولرزوالے ایک تھیلی دیں گے  یہ گڈی  نعیم کو دے  کر ان سے تھیلی لے کر سیدھے جعفری کے گھر ان کی بہن فردوس کو دے آؤ۔ پیکنگ کے وقت ہم نے دیکھا سونے کا ایک بڑا سا سیٹ تھا جو   ہم  چھن جانے کے خوف سے بے نیاز لے کر جعفری کی باجی فردوس کے گھر جاپہنچے۔ یہ ہمارے دوست  کی باجی    آستانہء فیض و فن  تھا ،سو  مروتاً اسے کوٹھا نہیں کہا۔

Tiffany NY

اب کچھ دیر کا بیان اینکر بالکل جاوید چوہدری جیسا ہے، مگر بغیر ساؤنڈ ایفیکٹ کے  ، اس میں دروازے کی چوں چرا شامل نہیں۔جعفری ہمیں دیکھ سراسیمہ سا ہوا۔اسے لگا کہ ہم پرکھوں کی جاگیر سے کوئی کلہ ،ایکڑ ، مارکیٹ کی دکانیں بیچ کر باجی کا ہاتھ اس کمسنی میں  تھامنے پہنچ گئے ہیں۔اب تک اس نے ہمارے ہاتھ میں کاپیاں کتابیں دیکھی تھیں۔یہ نظارہ دلبری کچھ اور تھا۔کہاں حیدرآبادکی   Tiffany کےسونے کے سیٹ کی تھیلی ،کہاں ہم ۔اسے ہمارے ،باجی اور ڈیمبلی سر کے خفیہ  ٹرائیکا کا علم نہ تھا۔ حسین خواتین کے شوہر اور بھائی یوں بھی نان اسٹیٹ ایکٹرز مانے جاتے ہیں۔جس طرح خفیہ ایجنسی کے افسران ایک دوسرے کی ذمہ داری اور   undertakings  کی تفصیلات سے جان بوجھ کر لا علم رہتے ہیں، بالکل اسی طرح  موساد اور ایم آئی سِکس  کئی طرح کی سُندر ناریاں  اپنے  خاوندانِ  عزیز اور بھائیوں کو   loop   مین نہیں رکھتی ہیں ۔ 18Februry,2018 میں تو موکلوں کی ملکہ نے  ایک ایسی بہت بڑی شادی رچالی اور میاں کو علم ہی نہ ہوا کہ اس کے گھر کا چراغ کون سا جن لَے اُڑا ہے۔

دروازے پر ہمیں دیکھتے ہی باجی البتہ ہماری طرف لپکی۔کئی دفعہ کا آنا جانا تھا۔ویسی آؤ  بھگت اور صد بسم اللہ پہلے کبھی  دیکھی، نہ سُنی۔

باغبان جوئلرز کا بیگ تو مانو ڈپلومیٹک پاسپورٹ بن گیا۔سینے سے لگایا ۔پیشانی کو چوما۔ جھٹ سے جعفری کو سامنے سے لسی لانے بھیج دیا۔ہم نے کہا “سر نے یہ بھیجا  ہے “تو کہنے لگی” ڈیمبلی جان آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں،” کونے میں کھڑی دیدہ دلیری کرتی  جعفری کی  والدہ نے کہا

فافو کی رہائش گاہ،ہیرا منڈی حیدر آباد

“فافو  اینوں آکھ جعفری نو  وی اپنے ورگا بنادیوے۔سور دا اسکول وچ دھیان نہیں لگدا۔ ایدے ابّا دی مرضی سی کہ پتر پولیس دا ڈی ایس پی بنے” تب تک ہم نے  فردوس نغمہ سلونی،ممتاز کی پنجابی فلمیں دیکھنا شروع نہ کیں تھیں سو “ورگا” کا پنجابی لفظ سَر پہ  سے گزر گیا۔ہم نے جعفری کی آپی سے جی کڑا کرکے پوچھ لیا کہ” یہ فافو کون ہے؟” تو شرما کے کہنے لگیں۔”ناچیز کو آپی، فافو کہتی ہیں ویسے میرا اپنا نام تو سیدہ فردوس بتول علوی ہے ۔مجھے بھی اعلیٰ  تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے مگر ہمارے گھرانے میں پردے کا بہت رواج ہے لڑکیوں کی تعلیم گھر پر ہی ہوتی ہے۔”

تب تک ہمیں علم نہ تھا کہ     محبت کرنے والے انسان کی یک ہی کھوکھ سے علوی جعفری  اور ساری اقوام متحدہ جنم لے سکتی ہے۔

لسی  لانے کے فوراً  بعد جعفری کو اس کی والدہ آپی نے بلالیا   ۔فافو  کھڑی ہوئی ۔بن تیل کا دروازہ کھررر چوں   چٹاخ بند ہوا۔بقول جاوید چوہدری دھوں دھڑاس کرکے دوبارہ  کُھلا۔ پردے والی فافو بغیر دوپٹے اور ایک موٹی کتاب کے باہر برآمد ہوئی۔کہنے لگی” ایک شاعر کل رات آئے تھے کہہ رہے تھے ابّا جان  کی چہیتی یادگار ہے،  ہر رات امّاں سے سنارن والا قصہ سُن کر  اس کو ضرور دیکھتے،  مرتے دم تک  اسے سینے سے لگا کر رکھا تھا ۔ مرقعء چغتائی ہے۔اسے ہماری آخری نشانی جان کر رکھ لیجیے، کوٹری کے پاس  دریائے سندھ میں بہت پانی آیا ہے۔آپ نے  ہم سے شادی کی حامی نہیں بھری ،تو ہم  پُل سے چھلانگ لگا کر جان دے دیں۔ہم نے کہا یہ مہاجر شاعر بہت جھوٹ بولتے ہیں۔مرنے دیں سالے کو۔کہنے لگیں ایک عاشق کا تحفہ دوسرے عاشق کے ہاتھ میں ہی سوبھتا ہے۔ یہ ڈیمبلی جان کو دے دیجیے   گا ۔ اس میں میری تصویر بھی ہے۔

ایسا ہی ہوا  مگر       ڈیملی جان نے کہا یہ چغتائی  کا لائن ورک کمال ہے تم اس کو سیکھو ۔ اس کو سنبھال کر رکھو ۔ ہمیں نہ لائن مارنا آیا، نہ کاغذ  پر عبدالرحمٰن چغتائی جیسی لائن  لگانا ،  مگر تب سے   یہ مرقعء چغتائی ہمارے پاس سن 1964  سے موجود ہے۔فافو کی تصویر البتہ ڈیملی جان نے نکال کر اپنے پاس رکھ لی،ہم تو بچپن میں بھی فراز والی ستمگری کا شکار رہے
؎مگر کسی نے ہمیں ہم سفر نہیں جانا
یہ اور بات کہ ہم ساتھ ساتھ سب کے گئے

ڈیمبلی صاحب نے اسے وہ مشن امپاسبل بخیر و خوبی سر انجام دینے پر تحفتاً  دے دیا۔ ہم نے بہت دن تک اخبار پڑھے ،کسی کے  سندھو دریا میں ڈوب مرنے کی خبر نہ تھی۔سچ ہے یہ مہاجر شاعر بہت جھوٹ بولتے ہیں۔

راستے میں ہم نے تصویر کئی دفعہ دیکھی ۔ کئی دہایاں گزرگئیں۔ بقول سید اصغر گونڈوی مرحوم کے ہنگام جنوں ایسے بہت لمحات آئے کہ گریباں نہیں دیکھا۔۔   اب سوچیں تو لگتا ہے کہ فافو میں جو Throw، بے ساختگی، معاملہ فہمی  اور اٹھتے ہوئے خورشید کی عریانی تھی وہ کیمرہ سمیٹ نہ پایا ،حالانکہ  ہمارے گھر کے پاس واقع حیدرآباد کے فوکس فوٹو گرافر نیاز بھائی شرافیہ کے علاوہ رنڈیوں کی تصاویر بھی بہت انہماک اور چابک دستی سے کھینچتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply