مسلک دیو بند اور خوارج:

کچھ لوگ دہشت گرد خوارج کی مذمت کی آڑ لے کر مسلک دیوبند کو مطعون کرنے میں مصروف ہیں، انسے گذارش ہے کہ وہ ذرا تاریخ اسلام کا مطالعہ فرما لیں تو ایسی جاہلانہ تاویلیں نہیں کریں گے۔ کیا اللہ کے نبی کے دور میں جب خوارج کی نشانیاں بتا کر انھیں جہنمی کتے کہا گیا اور اسی دور میں جب کچھ لوگ اللہ کے نبی تک پر اعتراض جڑنے سے بھی بعض نہیں آتے تھے تو نبی کریم نے انکی اولادوں میں سے خوارج کے ظہور کی پیشن گوئی کر دی تھی اور پھر اسی فرقے کے لوگوں نے قرآن کی من مانی تشریح کر کے حضرت علی سمیت اکابر صحابہ اور عام مسلمانوں کی تکفیر شروع کردی اور اسی دور میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی بنیاد رکھی تو کیا اس وقت مسلک دیو بند کا کوئی وجود تھا؟
بھائیو کیا مولانا فضل الرحمٰن ،قاضی حسین احمد، مولانا حسن جان سمیت متعدد دیوبند رہنماؤں پر قاتلانہ حملے، مفتی تقی عثمانی کی واضح انداز میں تکفیریت کی مذمت، تحریک طالبان کے خارجی دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد معلوم ہونا کہ یہ ہر اس دیو بندی عالم کو بھی امریکہ اور حکومت کا ایجنٹ مانتے ہیں جو انکی دہشت گردی کو خوارجیت سے تطبیق کرتے ہیں اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ نبی کریم کے دور سے شروع ہونے والے خوارج کی ہی ذریت ہے جنہیں دشمنان اسلام کفار اپنے مقاصد کی تکمیل، اسلام کو بدنام کرنے، دہشت گردی سے جوڑنے اور اہل اسلام میں فرقہ واریت کی بنیاد پر دہشت گردی کروانے کیلیے استعمال کر رہے ہیں۔

بھائیو انصاف کی بات کرو کیا ابو بکر البغدادی و ایمن الظواہری مدرسہ دیو بند کے فارغ التحصیل ہیں؟ اسلام کی غلط تشریح کی بنیاد پر عامۃ المسلمین کو مرتد اور واجب القتل قرار دینے والے اس مسلک یا گروہ کا نام خوارج ہے اور یہ نام انھیں اللہ کے نبی نے دیا ہے اور انھیں انکی اسی تعریف سے پکارنا چاہیے نہ کہ انھیں مسلمانوں کے عام مسالک سے نسبت دیکر مزید نفرتوں کو فروغ اور انکی حمایت میں غیر محسوس انداز میں اضافہ کرنے کا باعث بننا چاہیے۔

اسی طرح مسلمانوں کے تمام مسالک کو ان تکفیریوں و گروہ خوارج کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے اور اگر انکی صفوں میں اس گروہ کے حوالے سے کوئی ہمدردی پائی جاتی ہے تو ہر اس تاویل کا رستہ روکنا چاہیے جو ان جہنمی کتوں کے مظالم کو جواز فراہم کرتی ہے۔ کوئی ڈرون حملہ، کوئی امریکی جنگ، کوئی عسکری اداروں سے نفرت، کوئی کسی کے عقائد باطلہ سے نفرت اس دہشت گردی، خونریزی، ظلم، درندگی، مظلوموں کے چیتھڑے اڑانے، ماؤں کی گود اجاڑنے، عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ اگر آپ کسی کے عقائد کو غلط سمجھتے ہیں تو عقائد سے نفرت تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ آپکو نقصان نہیں پہنچا رہا تو انسان سے نفرت اور اسکی جان لینا جہاد فی سبیل اللہ نہیں بلکہ فساد فی الارض کے ذمرے میں آتا ہے۔ آپکے اسلاف علم اور دعوت کے میدان میں نمایاں ہوئے نہ کہ وہ خوارج کی طرح خودکش بمبار بن کر معصوموں پر پھٹتے تھے۔ دعوت الی اللہ اخلاص، اخلاق اور انسانیت سے محبت کا متقاضی ہے نہ کہ کف اڑاتے، گالیاں بکتے، لوگوں میں نفرتیں بانٹتے اور انسانوں کی جان لیتے جہلاء اسلام کی کوئی خدمت کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان خوارج کا اب واحد علاج وہی ہے جو قرآن پاک کی درج ذیل آیت میں بیان کیا گیا اور جسکی تشریح حضرت ابن عباس نے کی ہے ۔
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں (یعنی مسلمانوں میں خونریزی، رہزنی و ڈاکہ زنی وغیرہ سے )فساد انگیزی کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی چڑھا دیے جائیں یا انکے ہاتھ اور پاوں کاٹ دیے جائیں یا وطن کی زمین سے دور ملک بدر یا قید کردیے جائیں۔ یہ (سزا تو) ان کے لیے دنیا میں ہے۔ اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔‘‘(المائدہ)
امام طبری اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رض سے نقل کرتے ہیں۔
’’جس نے مسلم آبادی پر ہتھیار اٹھائے اور راستے کو اپنی دہشت گردی کے ذریعے غیر محفوظ بنایا اور اس پر کنٹرول حاصل کرکے لوگوں کا پرامن طور پر گذرنا دشوار بنا دیا تو مسلمان حاکم کو اختیار ہے چاہے تو ایسے فساد انگیزوں کو قتل کرے، چاہے پھانسی دے یا چاہے تو حسبِ قانون ہاتھ پاوں کاٹ کرکوئی اذیت ناک سزا دے ۔‘‘

Facebook Comments

احسن سرفراز
بندگی رب کا عہد نبھانے کیلیے کوشاں ایک گناہگار,اللہ کی رحمت کاامیدوار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply