میں کندیرا کا رقاص ہوں۔۔۔ انعام رانا

دسمبر کی ایک سرد رات تھی جب وقاص خواجہ نے مجھے میلان کندیرا کے متعلق بتایا۔
چلئیے زرا وقاص خواجہ کو بھی یاد کر لیں۔ قدرت کچھ فن کچھ گھرانوں میں رکھ دیتی ہے مگر ذہانت، میں نے ایک چین کی طرح کسی اور گھر میں نسل در نسل یوں چلتی کم ہی دیکھی ہے۔ خواجہ عبدالکریم کی نسل میں کمال فن ایک تنوع کے ساتھ چلا ہے۔ ایک بیٹا سر کا سمراٹ خواجہ خورشید انور بنا تو دوسرا کرمنل لا کا ٹاپ وکیل خواجہ سلطان۔ اگلی نسل میں خواجہ خورشید کے بیٹے خواجہ عرفان ماہر تعلیم بنے تو خواجہ سلطان کے بیٹے خواجہ حارث معروف قانون دان ہیں۔ ان ہی خواجہ سلطان کے بیٹے اور خواجہ خورشید کے داماد ہیں وقاص خواجہ۔ سخت گیر باپ نے کان پکڑ کر وکالت تو پڑھوا دی مگر وقاص خواجہ کو تو چسکا لگ چکا تھا انگریزی ادب کا۔ آخر اک دن خواجہ نے بڑے خواجہ صاحب سے کہہ ہی دیا کہ وہی کروں گا جس کا شوق ہے اور اب ایک امریکی درسگاہ میں انگریزوں کے بچوں کو انگریزی شاعری پڑھاتے ہیں۔
فیس بک سے بنا یہ تعلق ملاقات میں بدلا جب وقاص خواجہ لندن تشریف لائے، یعنی کنواں خود پیاسے کے پاس آ گیا اور کئی گھنٹوں میں انکے سامنے بیٹھا علم کے موتی چنتا رہا۔ اس گمنام انگریز شاعرہ کی باتیں جو مرد بن کر نظمیں لکھتی رہی، سودا سے شکسپیئر اور غزل اور ناول تک کی باتیں۔ اسی دوران ناول سے متعلق گفتگو کرتے خواجہ صاحب نے میلان کندیرا کا ذکر کیا۔ کندیرا جو چیکوسلواکیہ میں پیدا ہوا اور وقت کے دھارے میں بہتا فرانس جا بسا۔ جسکا لکھا اسکی زندگی میں ہی کلاسکس میں شمار ہوتا ہے۔ کندیرا کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ لمبی بات نہیں کرتا۔ دیڑھ دو سو صفحے میں وہ ناول یوں مکمل کرتا ہے کہ قاری اگلے دیڑھ دو ماہ بس اس میں کھویا رہتا ہے۔ اسکے ناولوں میں فلسفہ بھرا ہوتا ہے مگر بُنَت ایسی کہ مجھ سے کند ذہن بھی بور نہیں ہونے پاتے۔
کندیرا کا پہلا فرنچ ناول تھا “سلونیس”، یعنی سست روی۔ کندیرا کے اس ناول میں دو باتیں بہت مزے کی ہیں۔ ایک تو وہ کہتا ہے کہ ہر کوئی بس تیزی میں ہے یہ جانے بنا کہ سست روی کی عیاشی کیا ہے۔ تیزی تجربات کو بھلا دیتی ہے جبکہ سست روی تجربات کو یاداشت کا انمٹ اور انمول حصہ بنا دیتی ہے۔ دوسرا وہ اس ناول میں ہمارا تعارف رقاص فطرت انسان سے کرواتا ہے۔ کندیرا اپنے کرداروں کے زریعے شومین متعارف کرواتا ہے جو فطرتاََ ڈانسر ہیں، یعنی رقاص۔ جن کی باتیں اور حرکات ہر وقت چونکا دینے اور توجہ پانے کی کوشش ہوتی ہیں۔ کندیرا مثال دیتے ہوے کہلواتا ہے کہ ایک سیاستدان نے ایڈز کے مریض کا منہ چوما تو دوسرا فوراََ افریقہ جا پہنچا۔ بھوک سے مرتے بچوں کے پاس، مشترکہ دو چیزیں تھیں، کیمرہ اور رقاص فطرت۔ رقاص ہر محفل میں بیٹھ کر جملے گھڑتا ہے، انکو مناسب انداز اور وقفوں کے ساتھ سناتا ہے، چیلنج کرتا اور دیتا ہے، خود پہ ہنستا ہے اور دوسروں کو خود پہ ہنسنے کا موقع دیتا ہے۔ ہر رقاص کا رقص اپنے تماشائی کے مطابق ہے۔ اگر اپ کے تماشائی آپ کے سامنے ہیں تو آپ کی انکو متاثر کرنے کی کوشش مختلف ہو گی اور محتاط کیونکہ وہ تماشائی آپ کے واقف ہیں۔ مگر جنکے تماشائی پھیلی ہوئی ہے انکو رقص بہت شدت سے کرنا ہوتا ہے اور منفرد بھی۔ ان کا رقص بے باک بھی ہوتا ہے کہ تماشائی سامنے نہیں ہوتے اور نا ہی آنکھ کی شرم باقی ہوتی ہے۔
یارو، کندرا کے رقاص پڑھتے ہوئے یکدم خیال آیا کہ ہم سب کیا ہیں؟ ہم جو اس سوشل میڈیا، ان سائیٹس پر لکھتے ہیں، جنکو کچھ قارئین نے پزیرائی بخشی ہے۔ کیا ہم سب بھی کندیرا کے رقاص ہی نہیں ہیں؟ جو ہر وقت جملے سوچتے ہیں، خود پر ہنستے ہیں، خود پہ ہنساتے ہیں۔ ہم چونکا دینا چاہتے ہیں اور یہ چونکا دینے کی خواہش ہم سے کیا کچھ نہیں کرواتی۔ ہم دین پہ ہنستے ہیں، روایات کا مذاق اڑاتے ہیں، ہم مر چکے مشاہیر پر کبھی خود گند پھینکتے ہیں تو کبھی کسی کا پھینکا ہوا گند دوبارہ نئی پیکنگ میں پیش کرتے ہیں۔ ہمارے تماشائی اگر محدود اور ہم سے واقف لوگوں کی ہے تو ہم کچھ محتاط ہیں مگر جوں جوں تماشا پھیلتا ہے، لائکس اور شیئرز کی تعداد بڑھتی ہے، ہم بے باک ہوتے ہیں اور مزید متنازعہ بھی۔ ہم جملہ پھینکتے ہیں اور ہمارے تماشائی لائکس کی تالی بجاتے ہیں۔ یہ رقص بھی اک نشہ ہے، رفتہ رفتہ طلب بڑھتی جاتی ہے اور نشے کی مقدار بڑھانا پڑتی ہے۔ انسان اپنے دوستوں اور رشتوں کے جذبات اور خون بھی اس نشے میں ملاتا جاتا ہے اور ایک دن ان حرکتوں پہ بھی اتر آتا ہے جو وہ عام حالات میں کبھی نہیں کرتا۔
کندیرا کہتا ہے کہ رقاص کو برا مت جانئیے۔ کیونکہ اسکے رقص کی یہ فطرت اس سے اچھائی کرواتی ہے، اور کئیوں کیلئیے فائدہ بن جاتی ہے۔ تو صاحبو، ہم کہ یہ رقص جنکی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے، رقص پہ مجبور ہیں۔ بس کوشش یہ کرنی ہے کہ یہ رقص فائدہ مند ہوفقط بے سدھ کر دینے والا نشہ نہیں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”میں کندیرا کا رقاص ہوں۔۔۔ انعام رانا

Leave a Reply to انعام رانا Cancel reply