شاہد صاحب کے تبصرے پر میرا جواب جو انہوں نے میرے مضمون “ ایک اور دو قومی نظریے ” کے تناظر میں کیا۔
میرے بہت محترم شاہد حسین صاحب ۔ محبوب صاحب اور محمد سلیم صاحب کی مدلل اور محققانہ گفتگو پڑھ کر دل بہت خوش ہوا کہ میرے حلقہ احباب میں کتنے باعلم اشخاص موجود ہیں۔ مکالمہ کی روایت جاری رہنا بہت ضروری ہے ۔
شاہد صاحب کی یہ پوسٹ میرے مضمون ” ایک اور ” دو قومی نظریہ ” کے تناظر میں لکھی گئی جس کا جواب دینا مجھ پر واجب ہوگیا ہے ۔
میں بہت احترام سے شاہد صاحب کے دلائل سے جزوی طور پر متفق نہیں۔ میرے خیال میں انہوں نے اپنے نکتہ نظر میں مسلمانوں کی تاریخ کے صرف روشن پہلوؤں کی جانب اشارہ کیا ہے ۔
اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ نبی صلعم کی بعثت اور تعلیمات کی وجہ سے قبائل اور گروہوں میں منقسم عرب متحد و یکجا ہوئے اور ان میں اخوت و محبت کی وہ مثالیں قائم ہوئیں جو رہتی دنیا تک یاد رہیں گی ۔ نبی پاک کے وصال کے بعد اسلامی اخوت کی یہ فضا دوسرے خلیفہ راشدہ تک قائم رہی لیکن حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کے عہد میں وہی قبائلی منافرت دوبارہ عود کر آئی جسکے نتیجے میں آخری تینوں خلفا قتل ہوئے ۔ خوارج کا مدینہ النبی کا محاصرہ، جنگ جمل و جنگ صفین اور واقعہ کربلا نبی پاک کے وصال کے بعد صرف ساٹھ سال کے مختصر عرصے میں ظہور پذیر ہوئے ۔ ان واقعات پر مختلف توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان افسوسناک واقعات کے پس منظر میں وہی قبائلی منافرت اور اقتدار کی کشمکش ہی تھی۔
خلافت راشدہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مختصر دورِ حکومت میں تو اسلامی سلطنت کے خدوخال نظر آئے لیکن اسکے بعد وہی بنو امیہ اور بنو عباس کی مسلکی اور قبائلی مخاصمت کھل کر سامنے آگئی اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح ایک دوسرے کے گلے کاٹے گئے ، محلاتی سازشیں، حرم ، رقص و سرود ،شراب و کباب اور الف لیلوی داستانیں تاریخ کا حصہ بنیں جو کم از کم میرے نزدیک تو قطعی قابل فخر نہیں ۔ لیکن اسی دوران تقریباً تین سو سال مسلمانوں کی تاریخ کا ایک زرین دور ضرور ملتا ہے جس میں بالخصوص عجمی مسلمانوں نے علم ،سائنس، طب اور تحقیق ہر میدان میں اپنا لوہا منوالیا لیکن بدقسمتی سے وہ عظیم سائنسداں اور مفکر مصلحتوں کی بنا پر نشان عبرت بنادیے گئے۔۔ عصبیت اور تنگ نظری کے سبب قید و بند یہاں تک کہ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
ان حقائق کے تناظر میں مجھے شاہد بھائی کی توجیہات کہ ” اس کلمے کی بنیاد پر عرب سے لے کر عجم تک سارے عالم کے مسلمان اپنے رنگ ، نسل ، زبان اپنے حشم خدم اور کر و فر کے بت پاش پاش کرکے ایک نہ نظر آنے والے رشتے میں ایسے بندھ گئے جیسے ایک ہی ماں کی ساری اولاد ” سے بڑی حد تک اختلاف ہے اور میں یہی کہوں گا کہ عہد بنوی کے بعد کسی حد تک تو اخوت اور بھائی چارے کی روایت قائم رہی لیکن دوسرے خلیفہ راشدین کے بعد قبائلی مخاصمت کھل کر سامنے آگئی جو آج تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
اب آتے ہیں شاہد صاحب کے بقول ۔۔
” افغانستان پر حملہ اسلام اور اہل اسلام پر حملہ تھا کم ازکم مجھ سمیت کروڑوں مسلمان ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
جس سرخ ریچھ سے ساری دنیا خوف زدہ تھی چند خانما بدوش اسباب سے تہی دست پُر اسرار بندوں نے اس کے دانت توڑ کر جس کھوہ سے نکلا تھا وہیں گھسیڑ دیا ۔
اس کے ساتھ ہی اسلام اور اہلِ اسلام کو بچانے کے ساتھ ساتھ اپنی ملکی سرحدوں کی طرف بڑھتی سرخ آندھی کو اس کی حدود میں محدود کر دیا ۔”
اس بارے میرا خیال ایک بار پھر وہی کہ آپ نے اس گھمبیر مسئلہ کو صرف مذہبی تناظر سے دیکھا ۔ میں آپکے خلوص اور جذبہ اسلامی کا معترف ہوں لیکن مجھے افغانستان کے فساد پر آپ کے بیان سے کسی مخصوص سیاسی مذہبی جماعت کے بیانیہ کا موقف نظر آرہا ہے ۔
ان حقائق سے صرف نظر بھی نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان میں سرخ ریچھ کا حملہ اور پھر پسپائی دنیا کی دو بڑی قوتوں کی جنگ تھی ۔ روسی افغانستان پر وہاں موجود تیل ،گیس اور معدنیات کے وسائل پر قابض ہونے اور گرم پانیوں تک رسائی کے لیے داخل ہوئے تھے جو امریکی اور یورپی مفادات کے خلاف تھی لہذا امریکی قیادت میں متعدد ممالک بشمول اسلامی ممالک نے روسی جارحیت کے خلاف اور کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کیا۔ اس کھیل میں پاکستان نے فرنٹ اسٹیٹ کا کردار ادا کیا اور اسٹراٹیجک ڈیپتھ ڈاکٹرائن کے چکر میں افغانستان کو بھی برباد کیا اور خود بھی لہولہان ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
میں آئل سیکٹر میں تقریباً تین دہائیوں تک مختلف اہم پوزیشن پر خدمات انجام دیتا رہا ۔
شاید نوے کی دہائی میں کمپنی نے مجھے اسلام آباد بھیج دیا ،وہاں ایک امریکن آئل کمپنی یونوکول UNOCOL کا بھی دفتر تھا جو افغانستان میںSeismic Survey
کررہی تھی ۔ اس کمپنی کے ایک امریکن دوست نے مجھے افغانستان میں کی گئی سروے رپورٹ دکھائی جو پڑھ کر میرے ہوش اڑگئے۔ اس سروے رپورٹ کے مطابق افغانستان اور اسکے ملحقہ علاقوں میں آئل اور گیس کے علاوہ مختلف قیمتی معدنیات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جسکی مالیت کئی ٹرلین ڈالر ہو سکتی ہے ۔ لیکن مسئلہ تھا کہ وہاں سے یہ معدنی ذخائر کس طرع نکالے جائیں جسکی وجہ وہاں کی جغرافیائی کنڈیشن ہے۔ مختلف قبائل کی باہمی دشمنی اور امن و امان کی صورتحال تھی ۔ لہذا یونوکول کی انتظامیہ نے ایک پلان بنایا اور سارے وار لارڈز( قبائلی سردار) کو خصوصی جہاز میں ہیوسٹن مدعو کیا جہاں ایک افغان بستی بسائی گئی اور کمپنی کے سی ای او نے ان قبائلی سرداروں کا افغانی لباس میں استقبال کیا ۔ کئی دن وہ ان افغانوں کے ساتھ رہا اور ان سے ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق ہر وار لارڈز کے علاقے سے گزرنے والی پائپ لائن پر اس قبیلے کے سردار کو اسکی رائلٹی اور کمیشن کی تقسیم تھی ۔ معاہدہ ہونے کے بعد اس قافلے کو واپسی پر خصوصی جہاز میں جدہ لیجا یا گیا اور عمرہ بھی کروایا ،اسکے بعد کعبتہ اللہ میں ہی قرآن پر سب نے معاہدہ پر عمل کرنے کی قسم بھی کھائی اس طرح یہ قبائلی سردار واپس افغانستان پہنچے لیکن کچھ ہی دن بعد فریقین نے معاہدے کو قدموں تلے روند ڈالا اور ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوگئے ۔
ط ا ل ب ان وار لارڈز کی ساری جنگ اپنے اپنے علاقوں سے مجوزہ گزرنے والی پائپ لائن اور اس پر ملنے والے کمیشن اور حصے کی تھی اور یہی ان کے درمیان گروپنگ اور کشت و خون کی اصل وجہ تھی۔ یہ ایک سیدھی سادھی آئل وار تھی ۔ افغانستان میں اگلے دو سو سال تک کے آئل ،گیس اور قیمتی معدنیات کے ذخائر تھے اور اس پر قبضہ اسکا اصل حدف تھا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکن ڈالرز ، سعودی ریال اور پاکستانی مجاہدوں نے سعودی / امریکی برانڈ ج ہ ا د شروع کردیا۔ پاکستان میں قائم مدارس جہادی فیکٹریاں بن گئیں اور دھڑا دھڑ م ج ا ہ د روس سے مقابلہ کرنے کے لیے افغانستان بھیجے جانے لگے اور ڈالر کی برسات شروع ہوگئی جسے ہمارے اداروں اور ملاؤں نے خوب لوٹا ۔
یہی مذہبی سیاسی جماعتیں افغانستان میں ہلاک ہونے والے نوجوانوں کی لاشیں انکے گھروں پہ پہنچاتیں اور غمزدہ ماں باپ کو انکے بیٹوں کی ” شہادت ” کی نوید دیتیں۔ حیرت کی بات یہ کہ ان ج ہ ا د ی گروہوں کے سربراہوں کے کسی بچے کو یہ ” سعادت” نصیب نہیں ہوئی اور وہ امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے رہے۔
ایک مذہبی سیاسی جماعت کے امیر سے جب سوال کیا گیا کہ اگر روس بے دین ہے تو امریکہ بھی مسلمان نہیں تو پھر اسکی مدد سے کیا یہ مقدس جنگ جائز ہے ۔؟ اس جماعت کے امیر نے وہی چھوٹے شیطان اور بڑےشیطان کا گھسا پٹا بیانیہ دہرایا کہ ” چونکہ روس ملحد ہے اور خدا کے وجود کا منکر ہے جبکہ امریکن اہل کتاب ہیں اور روس کے مقابلے میں چھوٹے شیطان ہیں لہذا انکی مدد سے روس سے جہاد کرنے میں کوئی حرج نہیں “۔
سوویت یونین پہلے ہی معاشی مسائل کا شکار تھا اسے افغانستان میں مہم جوئی مہنگی پڑی ۔ وہاں کی جغرافیائی کنڈیشن، اسٹنگر میزائل اور جدید اسلحہ کے علاوہ سعودی سپورٹ اور پاکستانی تربیت یافتہ جنگجوؤں نے روس کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا نتیجتاً سوویت یونین اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔
سویت یونین کا ٹوٹنا پچھلی صدی کا ایک المیہ تھا ۔ روسی شکست سے پہلے دنیا بائی پولر تھی اور طاقت کا توازن کسی حد تک قائم تھا اس المیے کے بعد دنیا یونی پولر ہوگئی اور تمام تر طاقت کا محور انکل سام ہوگئے ۔
شاہد صاحب نے دو قومی نظرئیے کی وکالت کرتے ہوئے ہر اسکے مخالف شخص اور یہاں تک کہ انکے والدین تک کو بیک جنبش قلم انگریزوں کے نمک خوار اور انکا ایجنٹ قرار دیا۔ آپ فرماتے ہیں۔۔۔
” پاکستانی عوام کی بدقسمتی رہی کہ پہلے دن سے ہی یہ نوزائیدہ مملکت اپنے سابقہ آقاؤں کی نمک حلالی کے عوض اس ملک کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی گئی جن کے باپ دادا صدیوں سے ان کی مٹھی چاپی اور ان کے مفادات کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے آئے تھے ،پچھتر سالوں میں انہوں نے ملک کا جو حال کیا ہے وہ سب ہی جانتے ہیں اور اسی استحصالی طبقے کے خلاف میں نے یہ کمنٹ کیا تھا ۔
خیر ہم تو اس کے عادی ہو گئے ہیں پر کم از کم دو قومی نظرئیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مملکت میں مکمل آزادی کے ساتھ گائے کا گوشت کھانے کے ساتھ ساتھ کوئی شخص جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور نہیں کرتا “۔
ماشاءاللہ آپکی فراست پر قربان جانے کا دل چاہتا ہے ۔ جناب کے خیال میں مسلمان ہونے کی شرط گائے کا گوشت کھانا ہی ہے ۔ جہاں تک جے شری رام کا نعرہ لگانے کی بات ہے تو میں جناب محبوب خان اور سلیم بھائی سے دوخواست کرونگا کہ کیا انہیں بھی کبھی یہ نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا ؟۔ میں اپنے عزیزوں کا جو بھارت ہی میں ہیں کے متعلق وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ماشاءاللہ بہت اچھے مسلمان ہیں۔ میرے خاندان کے افراد ندوتہ العلماء کے اساتذہ اور شاگرد بھی رہے ہیں جو بڑی شان سے اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ بھارت میں رہتے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی یہاں سے کہیں زیادہ ہے ۔ جہاں تک جے شری رام جیسے نعروں کی بات ہے تو ہر دو ملکوں میں ایک چھوٹا سا جنونی گروہ موجود ہے جو اس قسم کی احمقانہ حرکتیں کرتا رہتا ہے ۔ کیا شاید بھائی اس حقیقت سے انکار کرپائیں گے کہ ہمارے یہاں بھی اس قسم گروہ موجود ہیں جو جڑانوالہ سانحہ اور ماضی میں جیمس آباد و دیگر واقعات میں اقلیتوں کی املاک و جان و مال کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پورا ملک اور اسکی اکثریت بھی اسکی تائید کرتی ہے ۔ ۔

میری اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری ہرگز نہیں ہے اور اگر کسی کو ناگوار گزری ہو تو میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں