اسٹرابیری:سرخ،سبز رنگوں کی بہار

تحریر: محمد لقمان

لاہور کے نواحي گاوں دھامکے کے کاشتکار اعجاز کليار کے لئے تو اس سال فروري کا مہينہ خوشياں لے کر آيا ہے۔ کھیتوں میں ہر طرف سرخ اور سبز رنگے کے پھل ایک عجب راحت کا باعث بن رہے ہیں۔ اس برس کم بارشيں ہونے کي وجہ سے اسٹرابيری کی فصل نہ صرف بيماريوں سے محفوظ رہی بلکہ پيداوار بھی پچھلے دو سالوں کی نسبت زيادہ ہے۔ اسٹرابيری کے کاشتکاروں کو ايک ايکڑ سے چار لاکھ روپے تک کی آمدنی ہونے کی توقع ہے۔ جو کہ گندم ، دھان اور ديگر بڑی فصلوں کی نسبت کہيں بہتر ہے۔ دو ہزار پندرہ میں ہونے والی بارشوں سے ہونے والی تباہی سے سبق سیکھ کر اس سال کسانوں نے کھیتوں میں پلاسٹک کی چادر بچھادی تھی۔ جس کی وجہ سے فصل پانی سے گھلنے سڑنے سے بچ گئی۔ اٹھارھويں صدی ميں پہلی مرتبہ فرانس ميں کاشت ہونے والا پھل تقريباً دو صديوں کے بعد پاکستان ميں آيا۔ اور اسے لاہور سميت پاکستان کے مختلف علاقوں ميں کاشت کرنے کا کامياب تجربہ کيا گيا۔
اس وقت پنجاب، خيبر پختون خوا اور سندھ کے متعدد علاقوں ميں اس بديشی پھل کی کاشت کی جاتی ہے۔ اسٹرا بيری کے پودے کي پنيری خيبر پختون خواہ کے ضلع سوات ميں تيار کی جاتی ہے۔ پاکستان ميں کاشت ہونے والی اقسام ميں شينڈلير ) صراحی( ، کورونا ) گولہ( اور اسٹف ہيں۔ جن کی کئی دہائيوں سے کاشت کی جاتی ہے۔سوات میں فوجی آپريشن سے پہلے پنجاب اور سندھ کے کسانوں کو ايک پودا پچاس پيسے ميں ملتا تھاجو کہ اب تين سے پانچ روپے ميں دستياب ہوتا ہے۔ اس طرح فی ايکڑ لاگت ميں ہزاروں روپے کا اضافہ ہوگياہے۔ کسانوں کے لئے دوسرا مسئلہ مہنگی اور ملاوٹ شدہ زرعی ادويات کی دستيابی ہے۔جس کی وجہ سے اکثر فصل کو رس چوسنے والے کيڑوں سے بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ رہي سہي کسر، اسٹرابيری کے زير کاشت علاقوں ميں رہائشی کالونيوں کی تعمير نے پوری کردی ہے۔ ايک وقت تھا کہ دريائے راوی پار کرتے ہی لاہور کے مضافات ميں اسٹرابيری کے کھيت نظر آنے شروع ہوجاتے تھے۔ مگر اب شرقپور روڈ پر 10 کلوميٹر طے کرنے کے بعد ہی اسٹرا بيری کا کوئی ڈھنگ کا کھيت نظر آتا ہے۔ يہی صورت حال ليچی اور امرود کے باغات کے ساتھ بھی ہے۔ پاکستان ميں کاشت ہونے والي اسٹرابيری عموماً ترش ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے انہيں آم اور کنو کی طرح براہ راست کھانا ممکن نہيں ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

يہی وجہ ہے اس کا استعمال زيادہ تر ملک شيک ، آئس کريم اور کيک کی صورت ميں ہوتا ہے۔ امريکي ادارے يوايس ايڈ نے تقريباً دس سال پہلے سندھ ميں اسٹرا بيری کي ميٹھی اقسام کو کاشت کرنے کا تجربہ کيا۔ مگر يہ ذائقے ميں بہتری کا خواب شرمندہ تعبير نہ ہوسکا۔ يہی وجہ ہے لاہور کے نواح ميں پيدا ہونے والی اسٹرابيری کراچی اور اسلام آباد تو جاتی ہے۔ مگر مشرق وسطی اور دنيا کے ديگر علاقوں ميں اس کی بہت کم مانگ ہے۔ اسٹرابیری کے پھل کی مقامی سطح پر پذیرائی بڑھانے اور برآمدات کے لئے ضروری ہے کہ پنجاب اور وفاق کے زیر اہتمام چلنے والے زرعی تحقیقاتی ادارے اپنا کردار ادا کریں اور ایسی اقسام تیار کریں جو کہ براہ راست کھائی جاسکیں۔ اس سلسلے میں عالمی ادارہ خوراک و زراعت اور یورپی ممالک کے تحقیقاتی مراکز سے مدد لی جاسکتی ہے۔ ہر سال کئی کروڑ روپے کے بجٹ سے چلنے والی ھارٹیکلچر ڈویلپمنٹ کمپنی کو بھی خواب خرگوش سے اٹھنا ہوگا تاکہ مختلف غذائی اجزاء سے بھرپور پھل کے استعمال کو عام کیا جاسکے۔

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply