مجھے یاد ہے۔۔۔(قسط نمبر 12)۔۔۔۔حامد یزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)

قسط نمبر 12

لائل پور سے نانا جان کے انتقال کی خبر ملی ہے۔ ہم سب فیصل آباد آگئے ہیں۔ ابا جی (نانا جان) کی تجہیز و تکفین کے مراحل طے ہوئے تو چند روز بعد جاں نشینی یا دستار بندی کی تقریب ہوئی۔ میرے تینوں ماموں سید شبیر شاہ گیلانی، سید نذیر شاہ گیلانی اور سید اعظم شاہ گیلانی سٹیج پر نمایاں ہیں۔ ماموں اعظم کو گھر میں بشیر کہا جاتا ہے۔ جاں نشینی ابتدائی طور پر ماموں شبیر کے حصہ میں آتی ہے۔ والد صاحب اس موقع پر نانا جان کی یاد میں لکھی ایک نظم یا منقبت سناتے ہیں۔ اس منقبت کا بس ایک ہلکا سا تاثر ہی اب احساس میں زندہ ہے۔اس کا کوئی شعر یا مصرعہ یاد نہیں۔مجھے حضرت داتا صاحب علی ہجویری کا نام یاد ہے جن کا ذکر اس منقبت میں موجود تھا۔ یقیناً دیگر بزرگ ہستیوں کا تذکرہ بھی ہوگا۔ والد صاحب تحت اللفظ میں پڑھتے ہیں۔ وہ کافی اداس اور دکھی دکھائی دیتے ہیں اور پہلے سے زیادہ خاموش بھی۔ کچھ روز بعد ہم لاہور لوٹ آتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اماں جی ( نانی جان) لاہور ہمارے پاس رہنے آگئی ہیں۔ ابا جی کے انتقال کے بعد ان کا دل وہاں نہیں لگ رہا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ماموں شبیر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ان کے گھر منتقل ہوگئے ہیں اور یہ انھیں وہاں رہنا اچھا نہیں لگتا۔ امی جان بھی خوش ہیں اور والد صاحب بھی۔ والد صاحب انھیں خالہ جی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ ہو۔ اماں جی جہاں اپنے ساتھ بہت سی دعائیں اور برکات لائی ہیں وہاں ایک نقرئی پاندان بھی لے کر آئی ہیں اور یہی پاندان ہم سب بچوں کی دل چسپی کا محور ہے۔ اماں جی اپنے لیے پان بنا کر پاندان کو خوب چمکاتی ہیں اور پھر اسے بند کرکے پلنگ کے نیچے کھسکا دیتی ہیں۔ ہم سب اس موقع کی تلاش میں ہیں جب اماں جی ادھر ادھر ہوں اور ہم بھی پان بنا کر کھائیں۔ مگر اماں جی جہاں بھی جاتی ہیں ان کا پاندان ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمارا اشتیاق دیکھتے ہوئے کبھی کبھی وہ ہمیں بھی ننھا سا پان بنا دیتی ہیں مگر پاندان کو چھونے تک نہیں دیتیں۔جیسے پاندان میں ان کی جان ہو۔ والد صاحب پاندان تک آزادانہ رسائی کی ہماری ناکام ’’مہمات‘‘ کے بارے میں سنتے ہیں تو خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ ہماری حرکتوں کا پتہ انھیں امی جان دیتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی جان والد صاحب کی موجودگی میں اماں جی سے پوچھتی ہیں کہ ان کے سب سے چہیتے داماد کا نام کیا ہے؟

’’ازدانی‘‘ اماں جی جواب دیتی ہیں۔

’’لیجیے، سُن لیجیے۔ اپنے داماد کا نام بھی ٹھیک سے معلوم نہیں اور کہتی ہیں کہ یہی میرا چہیتا داماد ہے۔‘‘ امی جان حسبِ معمول غیر سنجیدہ ہیں اور مسکرا کر کبھی اماں جی کی طرف دیکھتی ہیں اور کبھی والد صاحب کی طرف جیسے دیکھنا چاہتی ہوں کہ پہلے ردِ عمل کس طرف سے آتاہے!

’’ٹھیک تو لے رہی ہوں نام، ازززدااانی۔ یہی تو ہے۔ مجھے پتہ ہے۔‘‘ اماں جی نام پر زور دیتے ہوئے کہتی ہیں۔

امی جان ہنس دیتی ہیں اور کہتی ہیں: ’’ اماں جی، اباجی اور راحت بہن سے بھی آپ یہ شرط کئی بار ہار چکی ہیں۔ آپ کے داماد کا نام ازدانی نہیں بلکہ یزدانی ہے۔‘‘

اماں جی جانے کیوں یزدانی کی ’’ی‘‘ ادا نہیں کرپاتیں۔ وہ پورے اعتماد سے ’ازدانی‘ کہتی ہیں۔

امی جان کے اس بار ہنسنے پر وہ کچھ خفا سی ہوگئی ہیں۔

والد صاحب انھیں اس شرارت سے باز رہنے کو کہتے ہیں اور امی جان فوراً اماں جی کو منانے لگ جاتی ہیں۔ والد صاحب یہ سب دل چسپی سے دیکھ رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایاجی آئی ہوئی ہیں اور والد صاحب سے کچھ زمین کے ٹھیکہ کی بات کرتی ہیں۔ ایک مربع زمین جو بہاول پور میں کہیں ہے۔  پھر ساہیوال میں چچا ظفر، ان کے بچوں اور تایا جی، شاہ جی کے سکول کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔

 ایا جی والدصاحب کو بتاتی ہیں کہ امریکا سے چچا نصر نے کچھ تحائف بھیجے تھے وہ انھوں نے امی جان کو دے دئیے ہیں۔ اب دونوں بہن بھائی نصر چچا سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی پی ایچ ڈی مکمل ہونے کی اور وطن لوٹنے کی دعا کرتے ہیں۔ ایا جی کہتی ہیں کہ انھیں آج ہی واپس ساہیوال لوٹنا ہوگا کیونکہ جواد بھی ساتھ نہیں اور پھر انھیں ان کے سکول سے چھٹی بھی نہیں مل سکتی۔ وہ ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے ہیں۔ میں ایا جی کے ساتھ گھر آجاتا ہوں جہاں وہ امی جان کو اور ہم سب کو خدا حافظ کہتی ہیں۔ جاتے جاتے آئندہ برس حج پر جانے کی نیت کا اظہارکرتی ہیں اور اپنا بیگ لے کر بس اڈے کی طرف روانہ ہوجاتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں شاعر دوست عباس تابش کی بیاض گھر لایا ہوں۔ اس کی غزلوں پر والد صاحب کی رائے درکار ہے۔ میں اور تابش رات گئے ڈیوس روڈ پر واقع اخبار کے دفتر سے پیدل ہی انارکلی پہنچ گئے تھے۔ ایک چھوٹے سے شبینہ چائے خانہ پر بیٹھے رہے۔ تابش میلسی، خانیوال، ملتان، ساہیوال اور جانے کس کس شہر کے شاعروں ادیبوں کےدل چسپ قصے سناتا رہا۔ہم نے اوکاڑہ کے ظفر اقبال اور اسلم کولسری کی شاعری پر بحث کرڈالی۔ نئے اور پرانے شعری اسالیب بھی موضوعِ گفتگو بنے۔ رخصت ہوتے ہوئے میں نے تابش کی ڈائری یا بیاض ساتھ لے لی تھی۔والد صاحب عباس تابش کی غزلیات بڑے انہماک سے پڑھتے ہیں اور ‘‘ماشااللہ‘‘ کہتے ہیں۔ میں ان کی رائے اور اصلاح کے لیے مشورہ کا منتظر ہوں۔ والدصاحب بس داد اور دعا دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں: ’’کوئی مشورہ؟‘‘

فرماتے ہیں: ’’ بہت اچھی، تازہ اور مختلف شاعری ہے آپ کے دوست کیَ‘‘

’’مختلف کیسے؟‘‘ میں استفسار کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں والد صاحب پوچھے بغیر بولیں گے نہیں۔

’’دراصل آپ لوگ ہم سے مختلف انداز میں شعر کہتے ہیں۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے کہ آپ مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ آپ کی زبان ہماری زبان سے مختلف ہے۔ الفاظ کو مختلف طور سے استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘ والدصاحب وضاحت کرتے ہیں۔

’’ تو زبان تو اساتذہ ہی کی فصیح ٹھہرے گی تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری زبان کمزوریا خراب ہے اور ہم زبان کے اعلیٰ معیار پر دسترس نہیں رکھتے؟‘‘ میں کچھ جاننا چاہتا ہوں اور بے باکی سے پوچھتا چلا جاتا ہوں۔

’’نہیں، نہیں۔ بُری یا کم زور نہیں کہا میں نے۔ بس مختلف ہے۔ ہماری شعری تربیت جن اساتذہ اورماحول نے کی اس میں یہی لہجہ اچھا لگتا تھا جس میں ہماری نسل شعر کہہ رہی ہے اور سچی بات ہے مجھے بھی اب تک اُسی لہجے میں شعر کہہ کر لطف آتا ہے۔مگر آپ لوگوں کی زبان پر یہی زبان بھلی لگتی ہے جس میں آپ لکھ رہے ہیں۔ زبان وقت کے ساتھ ساتھ اظہار کے رنگ بدلتی رہتی ہے۔شاید یہی کسی زبان کی زندگی کا اعلان ہوتا ہے۔ تابش سے کہیے گا کہ وہ اپنا سفر جاری رکھیں۔ وہ اچھے نوجوان شاعر ہیں۔‘‘

’’جی ضرور کہہ دوں گا۔‘‘ میں کہتا ہوں اور ڈائری لے کر کمرے سے باہر آجاتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راجا رشید محمود اور مینرقصوری صاحبان کی مجلس حمد ونعت کے زیراہتمام بھاٹی گیٹ ہائی سکول میں منعقدہ نعتیہ مشاعرہ شام ڈھلے ختم ہوا ہے۔ میں والد صاحب کے ساتھ داتا دربار والی گلی کے پاس سے گزرتے ہوئے چوک کی جانب جارہا ہوں۔ دربار والی گلی کے بعد سڑک پر روشنیاں کم ہیں۔ دکانیں کب کی بند ہوچکیں۔

’’السلام علیکم شاہ صاحب‘‘۔۔۔اچانک سے عقب سے آواز سنائی دیتی ہے۔ ہم دونوں ٹھٹھک کر رک گئے ہیں۔ پیچھے مُڑ کردیکھتے ہیں تو نعت گو شاعر صوفی محمد افضل فقیر صاحب کشاں کشاں چلے آرہے ہیں۔ لمبا سا کُرتا، سر پر ٹوپی، سیاہ و سفید داڑھی، چہرے پر دلآویز مسکان اور ہونٹوں پر پان کی سُرخی نمایاں۔

’’وعلیکم السلام، صوفی صاحب۔‘‘ ان کے قریب پہنچنے پر والدصاحب کہتے ہیں اور تپاک سے مصافحہ کرتے ہیں۔ میں بھی سلام عرض کرتا ہوں۔

’’آپ اِس طرف؟ میرے خیال میں آپ کی ویگن تو دوسری طرف کھڑی ہوتی ہے۔‘‘ والد صاحب مسکراتےہوئے کہتے ہیں۔

’’شاہ صاحب، ویگنیں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔آپ سے بات اور ملاقات کا موقع کم کم ملتا ہے۔ بس، سوچا کہ کچھ دور تک آپ کے ساتھ چلوں۔‘‘ صوفی صاحب اپنے مخصوص انداز میں کہا۔ وہ شعر سنائیں یا بات کریں ایک عجب ترنگ اور لہر سی فضا میں ابھرتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے۔

’’ہاں، بھئی برخوردار! کیا ہورہا ہے آج کل؟ نعت تو تم نے مشاعرے میں اچھی سی سنائی، ماشااللہ۔‘‘ صوفی صاحب اب مجھ سے مخاطب ہیں۔’’مبارک ہو شاہ صاحب، آپ کا بیٹا اچھے شعر کہہ رہا ہے۔‘‘ وہ والد صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔

ہم وہیں کتابوں کی بند دکانوں کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑے ہیں۔ اس وقت ٹریفک بہت کم ہے اور فضا میں خُنکی بھی زیادہ نہیں۔

’’شاہ صاحب، برخوردار کو رباعی کی طرف لائیں رباعی کی طرف۔ آپ تو خود ماشااللہ رباعی گو ہیں اور جانتے ہیں کہ شاعری پرفنی گرفت کے لیے رباعی سے شغف کتنا ضروری ہے۔ اب وہ ہمارے علیم ناصری صاحب ہیں نا، ان کا بیٹا ،وہ اپنا خالد علیم، بھئی سبحان اللہ، کیسی خوب صورت نعت کہتا ہے اور پھر رباعی میں بھی دل چسپی رکھتا ہے۔ میں جب ان دونوں نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو جی نہال ہوجاتا ہے۔ بس آپ اسے رباعی کی طرف لائیں۔‘‘ صوفی صاحب اپنی سی ترنگ میں فضا میں محبت کے لہریئے سے بناتے چلے جارہے ہیں۔

’’میں تو اسے شاعری کی طرف بھی نہیں لایا۔ رباعی کی طرف کیسے لاوں!؟‘‘ والد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔’’ جیسے دوسری اصناف کی طرف خود ہی آیا ہے۔ رباعی کی طرف بھی آجائے گا۔ میرے خیال میں ابھی اسے اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔‘‘

’’ پڑھائی تو یہ کرہی رہا ہے۔ میں گیا تھا دوستوں سے ملنے گورنمنٹ کالج تو دیکھا تھا میں نے اسے مرزا محمد احمد کے کمرے میں سوشیالوجی پڑھ رہا تھا یہ۔ مرزا میرا یونی ورسٹی کے دنوں کا بیلی ہے۔۔۔مگر میں پھر کہوں گا کہ ایک بار اسے رباعی کہنے پر دسترس حاصل ہوگئی تو ان شااللہ شاعری میں کبھی مار نہیں کھائے گا۔‘‘ صوفی صاحب اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

‘‘پاپا کے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے۔ انھیں شاعری دکھانے کے لیے مجھے ان کے دفتر جانا پڑتا ہے۔‘‘ میں جانے کس روا روی میں یہ کہہ گیا ہوں۔ یہ کوئی جواز تھا یا گلہ؟ مجھے خود بھی سمجھ نہیں آرہا۔

’’اچھا تو، شاہ صاحب اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو دوہفتوں کے لیے صرف دوہفتوں کے لیے اسے میرے سپرد کردیں ، میں اسے  رباعی کے اوزان میں طاق کردوں گا۔ بس، ان شااللہ، شاعری میں کبھی مار نہیں کھائے گا۔ میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ صوفی صاحب کُرتے کی دائیں جیب سے رومال نکال کر اپنا منہ صاف کرتے ہوئے  کہہ رہے تھے۔

’’صوفی صاحب، میں تو اِسے نہیں کہوں گا۔اس بات کا فیصلہ میں اِسی پر چھوڑتا ہوں۔ آپ سے رباعی میں تربیت کے لیے وقت نکال سکتا ہے تو ضرور نکالے۔بس اپنی تعلیم کا نظر انداز نہ کرے۔‘‘ والد صاحب دھیمے انداز میں کہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

’’ لو بھئی، برخوردار، مل گئی اجازت۔ اب رابطہ رکھنا مجھ سے۔ دیکھنا، طاق کردوں گا تمھیں رباعی کے اوزان میں۔تب تمھیں خود پتہ چلے گا کہ شاعری کے فنی اسرار ورموز کے لیے ان کا جاننا کتنا ضروری ہے۔اچھا تو اب میں چلتا ہوں۔ یہ کہہ کر صوفی صاحب نے ہم دونوں کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا ہے اور بھاٹی چوک کی جانب چل دیئے ہیں۔ہمیں مزنگ کے لیے ویگن لوئرمال والی سڑک سے ملے گی۔سو، ہم اس طرف روانہ ہیں۔ رات بھی اپنی دھیمی دھیمی رفتار سے رواں دواں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”مجھے یاد ہے۔۔۔(قسط نمبر 12)۔۔۔۔حامد یزدانی

  1. واہ بارہوں قسط بھی خوب ہے ، بہت خوب ۔ صوفی محمد افضل فقیر مرحوں بہت علمی شخصیت کے مالک تھے ۔آپ نے بہت اچھا کیا کہ یادوں کے خربوزے کی اور قاش نذر قارئین کی ہے ۔ دونوں بزرگوں کی مغفرت کے دعا ۔ اگلی قسط کا انتظار کروں گا یزدانی صاحب !
    Shabbir Ahmad Qadri

  2. آپ کے مضمون میں منیر قصوری کا ذکر پڑھا تو انکی ایک نعت کا شعر یاد آ گیا مرحوم کے درجات کی بلندی کی دعا کے ساتھ ۔
    دربار مصطفیٰ میں ہر چیز تھی مگر
    میں نے منیر طوق غلامی آٹھا لیا
    شکریہ

Leave a Reply