• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • پی ٹی آئی کا احتجاج منسوخ،سیاست کے سبق اور نئی صف بندیاں

پی ٹی آئی کا احتجاج منسوخ،سیاست کے سبق اور نئی صف بندیاں

طاہر یاسین طاہر
سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کے فیصلے پر پاکستان تحریکِ انصاف نے دو نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والا احتجاج منسوخ کرتے ہوئے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا ہے۔منگل کو اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کمیشن ’وزیراعظم کی کرپشن کا احتساب کرے گا۔‘انھوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف وزیراعظم کی کرپشن کے مطالبے پر ہی احتجاج کر رہی تھی اور کمیشن کی تشکیل ان کی اخلاقی فتح ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اب احتجاج کے بجائے دو نومبر کو پریڈ گرؤانڈ میں یوم تشکر منایا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ ریاستی اداروں سے انصاف نہ ملنے کے بعد ہم نے میں فیصلہ کیا تھا کہ ہم اسلام آباد آئیں گے اور اسے بند کریں گے اور ہم نے صرف دو شرائط رکھی تھیں کہ یا نواز شریف استعفیٰ دیں یا پھر تلاشی دیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ تین نومبر سے نواز شریف کی تلاشی شروع ہو گی اور یہ ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ’کسی طاقتور کی تلاشی لی جارہی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’کارکن گھر جائیں، کیونکہ کل دوبارہ اسلام آباد آنا ہے لیکن احتجاج کرنے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر یوم تشکر منانے کے لیے آنا ہے۔‘ادھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند دن پاکستان کی سیاست کے لیے تلخ رہے، تاہم وہ عمران خان کی جانب سے احتجاجی دھرنے کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ عمران خان نے جو فیصلہ کیا اس میں نہ کسی کی جیت ہے نہ ہار، اگر کسی کی جیت ہوئی ہے تو وہ پاکستان کی ہوئی اور ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ;پاکستان کی جیت امن، جمہورت، قانون کی بالادستی اور اپنے اداروں پر اعتماد میں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بیان بازی اور گولہ باری ہوتی رہتی ہے لیکن جب یہ سیاسی دشمنی میں بدلنے لگے اور عوام کا نقصان ہو تو یہ عوام دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔چوہدری نثار نے اسلام آباد کے عوام اور پیر کی شب موٹر وے پر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والے تحریکِ انصاف کے کارکنوں سے معذرت کی اور کہا کہ وہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اس رکاوٹ کا سبب حکومت نہیں بلکہ اسلام آباد بند کرنے کا اعلان تھا۔

دریں اثنا پاناما لیکس کے معاملے پر عمران خان کے مؤقف کے حامی ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنے کو مؤخر کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لیا۔عوامی تحریک کے سربراہ نے کہا کہ یہ تحریک انصاف کا اپنا فیصلہ ہے، میرے پاس موجودہ صورتحال میں الفاظ نہیں ہیں اور مجھے تاحال کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔انہوں نے کہا کہ کارکن مار کھاتے رہے لیکن عمران خان پہاڑی سے نیچے نہیں اترے لیکن دھرنا ختم کرنے کے بعد پی ٹی آئی والے عمران خان کی تلاشی لیں۔دوسری جانب وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ حکومت کے اصولی مؤقف کی جیت ہے کیونکہ آج ہنگامہ کرنے والوں نے ناکامی پر مان لیا کہ فیصلہ دھرنوں اور ڈی چوک پر نہیں بلکہ عدالتوں میں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کھلنڈرا پن ختم کریں، سپریم کورٹ نے وہی فیصلہ کیا جو مؤقف وزیراعظم نے اپنایا تو پھر عمران خان کو یہ ہنگامہ کرنے کی ضرورت کیا تھی۔

یہ امر واقعی ہے کہ گذشتہ چند روز پاکستانی سیاست کے انتہائی ہنگامہ خیز اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا کرنے والے تھے،مگر اللہ پاک کا شکر کہ ملک کسی بڑی آفت سے بچ گیا،اور انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوا۔ ورنہ جو بیانات عمران کان صاحب کی طرف سے آ رہے تھے اور جس طرح حکومت نے اپنے رویے کا اظہار کیا ایسے مواقع پر سوائے خون خرابے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ہمیں یہ بھی ماننا پرے گا کہ عدالت عظمیٰ نے بر وقت کارروائی کرتے ہوئے معاملہ کو ایک طرح سے اپنے ہاتھ میں لیا لیا اور اب پانامہ لیکس کا کیس سپریم کورٹ میں سنا جائے گا۔کب اور کس کے حق میں فیصلہ ہا گا؟ یہ قیاس قانونی ماہرین کے ذمہ ہے۔ہم اتنا جانتے ہیں کہ اسلام آباد ،راولپنڈی کے عوام نے سکھ کا سانس لیا نیز نون لیگ اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی کسی حد تک عمران کان کے فیصلے کو طوہاً و کرہاً تسلیم کر ہی لیا۔ بے شک سیاسی مخالفین عمران کان کے اس فیصلے پر انھٰں ’’یوٹرن‘‘ کہیں گے۔لیکن جو صورت حال پیدا ہو چکی تھی اس میں دانش مندی یہی تھی کہ احتجاج موخر کر دیا۔انسانی جان بہر حال کسی بھی پانامہ بہاما لیکس سے زیادہ قیمتی ہے۔ ہم نے اسلام آباد کی سڑکوں اور موٹر ویز پہ انسانی توقیر کی دھجیاں اڑتے دیکھیں۔بے شک وہ بڑے المناک مناظر تھے۔عمران خان کے پاس آئندہ اک الائحہ عمل ضرور ہوگا اور ممکن ہے وہ کل اپنے یوم تشکر کو احتجاجی رنگ دے کر کوئی نئی سیاسی چال چل جائیں۔مگر اس کی امید کم ہے۔پی تی آئی کے سیاسی کارکنوں نے البتہ سیاسی سبق ضرور سیکھے اور انھیں صف بندی کرنے کا ہنر بھی آیا ہوگا۔یہ اعتراض اپنی جگہ بڑا قوی ہے کہ اگر پی تی اائی کے سربراہ نے اپنی غیر اعلانیہ نظر بندی اور سخت حکومتی ردعمل کو دیکھتے ہوئے احتجاج موخر ہی کرنا تھا تو یہ کام پہلے ہی کر لیتے۔کیا اس کے لیے دو تین کارکنوں کی زندگیاں لینا ضروری تھا؟ کیا اس کے لیے ضروری تھا کہ کے پی کے ،کے قافلے پر شیلنگ ہوتی رہے؟ بہر حال سیاست کے اپنے رموز ہوتے ہیں اور اس کے اسباق الگ ہوتے ہیں۔ ہم مگر دیکھ رہے ہیں کہ نئی سیاسی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ حکومت کے سر سے عمران خان ٹلے نہیں ہیں اور پیپلز پارٹی بھی میدان میں آنا چاہتی ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں تناو برقرا ر ہے۔اگلے چند دن پاکستانی سیاست کی اندرونی کروٹوں کے لیے نہایت اہم ہوں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply