شطرنج ۔۔۔ عاصم اللہ بخش

پاکستان کو پچھلے قدموں پر ڈالنا اور اس کے قومی اہداف کا راستہ روکنا۔ اس کے لئے پاکستان میں دہشت ، مایوسی اور اندرونی چپقلش کو فروغ دینا اہم سنگ ہائے میل ہیں ۔
تفصیل :
یہ نہ تو الل ٹپ ہے اور نہ ہی عارضی۔ بظاہر یہ ایک نئی جنگ کا آغاز ہے ۔ اسکا پہلا اور بنیادی ہدف سی پیک ہے۔ ہم سی پیک کو لاکھ باتیں بناتے رہیں دشمن کو اس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے ۔
بھارت کا یہ خیال ہے کہ سی پیک کی تکمیل سے وہ دفاعی اور سفارتی لحاظ سے گھر جائے گا اور تجارتی اعتبار سے الگ تھلگ ہو جائے گا کیونکہ اس کے اور وسط ایشیائی منڈیوں کے بیچ ایک مستقل رکاوٹ سامنے آ سکتی ہے۔
دوسری جانب ۔۔۔۔ ایران کے متعلق بھی اسے تشویش ہو چلی ہے کیونکہ یمن جنگ میں امریکہ کی براہ راست شمولیت اور صدر ٹرمپ کے معاندانہ پالیسی بیانات کے بعد ایران کا روس و چین اتحاد کی طرف مکمل طور سے جھک جانا بعید از قیاس نہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ چاہ بہار کو گوادر کے مقابل لانے کے بجائے اس کے پارٹنر کا درجہ دے کر سی پیک میں شامل ہو سکتا ہے۔
سفارتی سطح پر بھارت کو پہلے ہی چین سے بہت شکایات ہیں کیونکہ اس نے نہ صرف این ایس جی میں بھارت کی شمولیت پر غیر لچکدار مؤقف اپنا رکھا ہے بلکہ وہ پاکستان کی خاطر ایک فرد تک کے لئے بھی سلامتی کونسل میں اپنا ویٹو کا حق استعمال کرنے کو آمادہ رہتا ہے ۔
اگر سی پیک واقعی شرمندہ تعبیر ہو جاتا ہے تو پھر چین اور پاکستان مشترک مفاد کی ڈور مزید مضبوط ہو جائے گی جس میں بھارت خود کو الجھتا محسوس کر رہا ہے۔ یہ بھارت کے علاقائی اور عالمی عزائم کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ یہی نہیں ۔۔۔۔ افغنستان کے حوالہ سے چین، روس، پاکستان اور ایران کے مابین کسی درجہ تعاون کے بات بھی بھارت کے لئے ایک ڈراؤنا امکان ہے۔ بھارت کے پاس افغانستان کی سرزمین ایک ایسا انمول ہتھیار ہے جس سے وہ خود سامنے آئی بغیر جب چاہے پاکستان کو زک پہنچا سکتا ہے ۔
تاہم، بھارت کے پاس وقت بہت کم ہے ۔ اسے جو کچھ کرنا ہے 2017 کے دوران ہی کرنا ہے ۔ اگر ایک بار سی پیک کے فلیگ شپ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچنے لگے تو پھر معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ پھر چینی مفادات کو ضرب لگانے کا مطلب چین سے براہ راست مخاصمت ہے جو بھارت فی الحال افورڈ نہیں کر سکتا۔
اس لئے بھارت اس وقت وہ سب کچھ کرے گا جو وہ کر سکتا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ اس کے لئے سب برائیوں کی جڑ یہی سی پیک ہے ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ ایک کھلی جنگ بھی۔ لیکن آخر الذکر ایک بہت بڑا جؤا ہو گا۔ وہ اس جوئے تک جائے گا ضرور لیکن صرف اس صورت اگر پلان اے فیل ہو گیا۔ پلان اے وہی ہے جس پر بھارت ٹی ٹی پی اور بی ایل اے وغیرہ کی مدد سے پہلے ہی سرگرم چلا آرہا ہے۔ بھارت پوری شد و مد کے ساتھ ایک بار پھر پراکسی اور نفسیاتی جنگ کا محاذ گرم کرے گا اور ہر وہ حربہ اپنائے گا جس سے وہ پاکستان کو شکست خوردگی کا شکار کرسکے اور اس کا بین القوامی تاثر خراب سے خراب تر کر سکے۔ یاد رہے کہ شکست خوردگی کے لئے شکست کا ہو جانا لازم نہیں لیکن اس کا اثر اور نقصان اصل شکست سے کم نہیں ہوتا۔
اس سلسلہ میں 10 جنوری 2017 کو قندھار میں ہوئے بم دھماکہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور ماہرین اسے انٹیلی ایجنسی کا انڈر کور آپریشن قرار دے رہے ہیں ۔ اس میں متحدہ عرب امارات کے 5 سفارتکار مارے گئے اور کل ہی اس واقعہ میں زخمی اماراتی سفیر بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ بظاہر اس حملہ کا مقصد یہ تھا کہ اسے طالبان کے اثر والے علاقے میں طالبان حملہ آوروں کے ہاتھوں امارات کے لوگوں کا قتل دکھایا جاسکے۔ چونکہ افغان طالبان پاکستان کے کہنے پر چلتے ہیں (بقول افغان و بھارتی حکام) اس لیے اس میں پاکستان کا ہاتھ ثابت کر کے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دی جا سکے۔ گو طالبان نے اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن حکام نے بہ اصرار اسے طالبان / پاکستان کے ذمہ لگایا۔
اس تناظر میں پاکستان کے حوالہ سے آنے والے دن کافی صبر آزما ہو سکتے ہیں ۔
مثلاً ، چند سامنے دکھائی دینے والے اہداف میں پی ایس ایل کا فائنل لاہور ہونے سے روکنا ہے۔ بم دھماکہ ہو چکا، اگر اصرار جاری رہا تو دوسری قسط آنے کا بھی امکان ہے۔ اس ضمن میں اے پی ایس اور باچہ خان یونیورسٹی جیسی واردات بھی خارج ز امکان نہیں ۔
اس کے علاوہ جو اہم ترین ہدف ہو سکتا ہے وہ ہے مردم شماری۔
مردم شماری ایک نہایت اہم پراجیکٹ ہے ۔ انسداد دہشت گردی کا کوئی بھی پلان آبادی اور عوامی محل وقوع کے درست اعداد و شمار کے بغیر ممکن نہیں۔ پیرس، برسلز اور جرمنی وغیرہ میں اسی کی بنیاد پر مجرموں کا فوری پتہ لگا لیا گیا۔ آپ یوں سمجھ لجیے کہ بغیر اس ڈیٹا کے انسداد دہشت گردی کا ہر منصوبہ محض منصوبہ ہی ہے۔ اسے آپ دہشت گردی کے خلاف ایک اور آپریشن ہی سمجھیں، اہم ترین آپریشن ۔ اس کی ناکامی یا منسوخی بہت اہمیت کی حامل ہے ۔۔۔۔ ہر دو اطراف کے لئے۔
اس کے بعد 23 مارچ کی پریڈ کی منسوخی ایک ہدف ہے اور پھر روس کے ساتھ گیس پائپ لائن۔
بھارت کو جو edge حاصل ہے وہ معمولی نہیں ۔ وہ بغیر سامنے آئے ایک دوسرے ملک کی زمین، پاکستان سے تعلق رکھنے والی افرادی قوت ، اپنے وسائل اور امریکہ کی آشیرباد سے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
نیز اسے توقع رہتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کی پیچیدگیاں اور میڈیا کی بچکانہ آزادی اس کے لئے Force Multiplier کا کام کریں گی۔ نفسیاتی جنگ میں سنٹرل اتھارٹی کو زک پہنچانا اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ پوزیشن حکومت کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی حاصل ہے اور وہ جانتا ہے کہ پاکستان میں ہڑبونگ کا رسیا میڈیا کس طرح اس کا کام آسان کر سکتا ہے۔ اپنے میڈیا کو وہ 29 ستمبر 2016 کی مبینہ سرجیکل سٹرائیکس کے ہنگام ٹیسٹ کر چکا اور اس کی جانب سے اسے مکمل اطمینان ہے۔
آخر میں یہ بات کہ کیا کرنا ہو گا ۔
سن 2001 کے بعد دنیا واقعی بدل گئی یے، اور جنگیں بھی۔ اب یہ معاملہ کچھوا اور خرگوش کی دوڑ والا ہے اور کچھوا بننے میں ہی حقیقی کامیابی ہے۔ جہد مسلسل ۔۔۔۔ لا متناہی۔ ہم نے دیکھا کہ جس نے بھی خرگوش کی طرح فتح کے اعلان میں عجلت کی اس نے اپنے لئے گڑھا کھود لیا۔ افغان طالبان اور عراق کے حوالہ سے امریکہ کی ،مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس جنگ میں کامیابی صرف یہ ہے کہ آپ کا اندرونی سیکیورٹی اور سیاسی نظام کس قدر ٹھوس ہے۔ وہ جتنا قابل بھروسہ ہو گا پراکسی وار مسلط کرنے والے کی کوشش اور حوصلہ دونوں ہی ناکامی سے دو چار ہوتے رہیں گے۔ جیسا کہ ماہرین غذا کتے ہیں کہ موٹاپہ ختم کرنے کے لئے ڈائیٹنگ صرف وقتی افاقہ کا باعث ہو سکتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو یہ ایک خود فریبی ثابت ہوتی ہے کہ اسے ترک کرنے کے بعد وزن پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ وزن مستقل کم کرنا ہے تو پھر طرز زندگی بدلنا ہوگا۔ یعنی جو غزائی تبدیلی ہو پھر بقیہ تمام عمر اسی پر بسر ہو۔
یہی مثال انسداد دہشتگردی کی ہے۔ اسے ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے تو مستقل اور طویل المعیاد (اسٹریٹجک) اقدامات لینا ہوں گے۔ طرز زندگی بدلنا ہو گا، طرز حکومت بدلنا ہو گا ۔۔۔ ریاست کے انتظامی اور امن عامہ کے نظام کو ایک نیا اور ابدی رنگ دینا ہو گا۔
اب تک یہ دوڑ سو میں سے سو دفعہ کچھوا ہی جیتا ہے ۔۔۔۔۔ خرگوش بننے کی کوشش خود کشی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply