چلے تھے دیو سائی۔۔محمد جاوید خان /قسط11

باہر نکلتے ہی سردی ایسے لِپٹ گئی جیسے اسے ہمارا ہی انتظار ہو۔ہمارے جسموں سے چپکی اُوڑھنیاں خود پریشان تھیں۔میں اور راحیل بازار کے عقب میں ٹیکری پر چڑھ گئے۔سورج بابو سر چوک سے رخصت ہو چکا تھا۔مگر پار ہمالیہ اور ہندوکُش کی برفیلی چوٹیوں پہ ابھی سُنہری کرنیں باقی تھیں۔برف کاگھر حد نظر پھیلا تھا۔اس کی وسعت نظروں میں سمٹنے سے انکاری تھی۔سورج دیوتاکی کرنوں نے سفید  و  سرد گھر کے  در  و  دیوار پہ سُرخ چادر ڈال دی تھی۔ ساری برفیلی چوٹیوں کے لب و رُخسا ر پر لالی پھیل گئی تھی۔جیسے ہزاروں دُلہنیں سُرخ دوپٹوں میں بناؤ سنگار کیے بیٹھی، شرمیلی مسکراہٹ لیے دیکھ رہی ہوں۔سُرخ کرنوں میں لِپٹا دُودھیا حُسن ان مُسکراہٹوں میں نکھر ا ہوا تھا۔ ہر چوٹی شام کی دلہن تھی۔ہر ایک کا حُسن دوسری سے الگ تھا۔ہم اس منظر کو دیکھنے میں محو تھے۔ بابُوسَر کی اس شام برف پوش ہمالہ، سنہری لبادے میں تھا اور خوبصورت تھا۔
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر
خوشنما لگتا ہے یہ غازہ تیرے رُخسار پر
کیا اقبال نے ہمالیہ کو اس منظر میں دیکھا ہوگا؟اور اگر بابو سر کی کسی ایسی ہی شام کو دیکھتے تو ”ہمالہ“ میں اس کی کیسی منظر کشی کرتے۔

ہمالیہ کی قدرتی دیوار نے 70 لاکھ سال قبل جنم لیا اور بلند ہوتے ہوتے  آسمان کو چھونے   لگی۔ آج بھی سُستی سے اور مستی سے اندازً سالانہ چھ سنٹی میٹر بلند ہورہی ہے۔مگر اس وقت ہمالہ کی تاریخ نے نہیں مجھے،اس دُودھیا دُنیاکی ہرچوٹی کے سنہر ی ڈُوبتے   منظر نے کھینچ رکھاتھا۔مجھے اقبا ل کے بعد فاروق صابر یاد آنے لگے۔
سر زمین کاشر کی وادیاں حسین کتنی۔
برف کے لبادے میں ہیں یہ دلنشیں کتنی
برف کی طرح اس میں جو ہے،خوبصورت ہے
مختلف تمدن کے بانیوں کامسکن ہے۔

ہمالہ نے 70 لاکھ سالوں میں اپنے دامن میں کتنے تمدن پالے اوراجاڑدئیے۔؟اس برف زار میں کتنی صدیاں دم توڑ گئیں۔؟شام گہر ی ہوگئی تھی۔بابُو سر تو شام کے دُھندلکے میں کب کا ڈُوب چکا تھا۔مگر دُور وہاں پار،نظروں کے سامنے سنہر ی برفیلی چوٹیاں بھی اب سیاہ شب میں گُم ہونے لگیں تھیں۔ چوٹیوں نے لیلی  ٰ شب کی زُلفوں میں جب پناہ لے لی تو راحیل اور میں سرد ہواؤں کے تھپیڑوں سے بے جان ہو چکے تھے۔ نیچے لوگوں کی ملی جلی آوازیں بھی کہیں گُم ہوگئیں توپھر سناٹا چھاگیا۔ہم واپس آئے تو دیکھا ساتھیوں نے ایک عدد کمرے کا بندوبست کرلیا ہے۔

بازار کے اُوپر،چوٹی کے پہلو سے لگا پاکستان ہوٹل ہے،بابو سر کا واحد پختہ ہوٹل، جس کی پتھروں کی چوڑی دیواروں پر پلستر کرکے سفیدی پھیر دی گئی تھی۔کمرے کی چھت ہمارے سروں سے بمشکل ڈیڑھ ہاتھ بلند تھی۔  جو دراصل پتھروں کی دیواروں پر لینڑ ڈال کر بنائی گئی تھی۔کم اُونچائی کی وجہ  یہاں جون،جولائی میں بھی سخت سردی تھی۔کم اُونچائی سے کسی حد تک فائدہ ہو سکتا ہے۔کمرے کا بندوبست ہو گیا تو بھاؤ تاؤ کی باری آئی۔محمد شاکر پاکستان ہوٹل کے مینیجر تھے اور آدھے باورچی بھی۔68 سالا محمد شاکر کا ہوٹل پانچ کمروں، ایک برآمدے اور ایک صحن پر مشتمل تھا۔اِسی میں باورچی خانہ،عملے کی رہائش تھی اور مجبو ر سیاحوں کی شب بھی گُز رتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply