کتاب : بھگوت گیتا/ مترجم :دھنن جے داس/ تحریر- احسن رسول ہاشمی

سن۲۰۱۲ میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے ، میں پنجاب کالج سرگودھا میں انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا اور اپنی متجسس طبعیت کے باعث اکثر مختلف مسالک و مذاھب کے متعلق معلومات کی خاطر مدارس اور چرچ جایا کرتا تھا لیکن ہندومت کے متعلق میری معلومات محض ہمارے ہاں بیان کی گئی تشریحات کی صورت ہی تھیں۔ اپنے تئیں چند کتب کا مطالعہ کیا لیکن تشنگی رہی۔ ایک برس بعد سندھ جانا ہوا، تو وہاں پہلی بار کسی ہندومت کے پیروکار کو دیکھا۔ ایک مندر گیا جہاں ایک گروہ مذہبی رسومات ادا کر رہا تھا ، وہ نہایت ملنسار اور خوش مزاج تھے۔ انھوں نے مجھے اپنی مذہبی رسومات اور مقدس کتب کے متعلق بتایا کہ ان کتب کی ہندومت میں کیا اہمیت ہے اور اس میں کیا فلسفہ بیان کیا گیا ہے، تب میری دلچسپی ان کتب کے مطالعہ میں بڑھ گئی۔

ہندومت کی مقدس کتابوں میں وید، اپنشد، پران، منو دھرم شاستر، رامائن، مہابھارت اور بھگوت گیتا شامل ہیں۔ ان میں ویدوں کو سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے،گو میں نے پہلے ’’رگ وید‘‘ کا مطالعہ کیا لیکن مجھے’’ بھگوت گیتا ‘‘ نے زیادہ متاثر کیا اس کی ایک وجہ رگ وید کا انداز بیان ہو سکتا ہے۔بھگوت گیتا قدیم ہندوستانی ادب کے عظیم رزمیے ’’مہا بھارت ‘‘ کے ایک باب کا حصہ ہے۔ لاکھوں بند پر مشتمل مہابھارت کی طویل منظوم داستان کا شمار دنیا کی عظیم رزمیہ داستانوں میں ہوتا ہے۔موضوع کے اعتبار سے بہت متنوع ہے یہ تخت و تاج ، جنگ ، محبت اور مذہب کا مرکب ہے۔ لیکن ہندومت میں اس کے چھٹے باب کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہی بھگوت گیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے ۱۰۰۰ قبل از مسیح سے ۲۰۰ قبل از مسیح کے درمیان لکھا گیا۔

بھگوت گیتا سنسکرت کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ بھگود کے معنی ’’بھگوان‘‘ اور گیتا کے معنی’’گیت‘‘ ہے گویا اسے نغمۂ خداوندی کہا جاتا ہے۔ بھگوت گیتا کے مطابق یہ ’’ پہلے سورج دیوتا کو سنائی گئی، سورج دیوتا نے اسے منو کو سمجھایا اور منو نے اکشوا کو بتایا اور اس طرح گرو پرم پرا کے ذریعے یہ یوگا کا نظام چلتا رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو گیا، نتیجتاً بھگوان کو خود اسے کروکشیتر کے میدان جنگ میں ارجن کو سنانا پڑا ‘‘ ۔

بھگوت گیتا اٹھارہ ادھیائیوں اور ۷۰۰ شلوک پر مشتمل ہے، جس میں پرکرتی (قدرت)، کال (وقت)، کرم(عمل)، بھگتی، گیان اور فلسفہ حیات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں زندگی کے عملی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے اور زندگی کے معنی ہر شلوک کے ساتھ پرت در پرت کھلتے ہیں۔ اسے فرانسیسی، جرمنی اور انگریزی کے علاؤہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ شہنشاہ اکبر کے دور میں فیضی نے پہلی بار اس کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ اردو تراجم میں نیرصدیقی، شان الحق، مرزا ظفر علی خان، نظیر اکبر آبادی، مولانا حسرت موہانی، منور لکھنوی اور اجمل خان کے تراجم قابلِ ذکر ہیں۔

مہابھارت اور بھگوت گیتا:
مذکورہ بالا تسوید میں بیان کیا ہے کہ بھگوت گیتا عظیم رزمیہ داستان مہابھارت کا ایک باب ہے،سو گیتا کے پس منظرکو جاننےاور سمجھنے کیلئے مہابھارت جنگ کے متعلق جاننا ضروری ہے۔ یہ عظیم خانہ جنگی کا قصہ تقریباً ہزار قبل از مسیح کروکشیتر (موجودہ دلی) کے مقام پر کوروؤں اور پانڈوؤں کے مابین پیش آیا۔ مہابھارت کے مطابق ویاس کے دو بیٹے پانڈو اور دھرت راشٹر تھے۔ ویاس کی موت کے بعد تخت اس کے چھوٹے بیٹے پانڈو کو ملا کیونکہ دھرت راشٹر پیدائشی نابینا تھا۔ دھرت راشٹر کے تقریباًسو بیٹے تھے اور پانڈو کے پانچ بیٹے یدھشٹر، نکل ، بھیم ، ارجن اور سہدیو تھے، جنہیں پانڈوو کہا جاتا ہے۔ جب پانڈو مر گیا تو دھرت راشٹر کے بیٹوں نے تخت پر قبضہ کر لیا اور پانڈو کے بیٹوں کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلے اور بھٹکتے رہے۔

جب راجہ دروپد کی بیٹی دروپدی کی شادی پانڈوؤں سے ہوئی تو وہ قدر مستحکم ہوئے، دوسری جانب دھرت راشٹر نے پانچوں بھائیوں کو بلا کر آدھی سلطنت انھیں دے دی۔کچھ ہی عرصے بعد کوروؤں کو پانڈوؤں کی حکومت کھٹکنے لگی اور انھوں نے حکومت ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔ پانڈوؤں کو ایک سبھا سجا کر جوا کھیلنے کی دعوت دی گئی ، وہ مان گئے۔ اس کھیل میں وہ دھرت راشٹر کے بیٹوں سے جوئے میں اپنا تخت اور بیوی ہار بیٹھے۔ شرط کے مطابق انھیں بارہ برس کا بن باس ملا، جلاوطنی کے دوران انھوں نے بے شمار مصائب کا سامنا کیا۔ بارہ برس گزرنے کے بعد جب وہ کوروؤں کے پاس اپنا حق لینے آئے تو انھوں نے تخت لوٹانے سے انکار کر دیا۔

یوں خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے، ارجن میدان جنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا اور خون کا پیاسا دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے اور ہتھیار اٹھانے سے انکار کر دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ جنگ وجدل سے کیا فائدہ؟ یہ تو سب کچھ تباہ و برباد کر دے گی، تب کرشن نے ارجن کا ہاتھ تھام کر اسے جنگ لڑنے کو کہا اور اسے اپدیش دیا کہ ’’ اے ارجن اس بزدلی کو چھوڑ دو، یہ تمہیں زیب نہیں دیتا۔ دل کی اس ادنیٰ کمزوری کو چھوڑ کر جنگ کے لیے کھڑے ہو جاؤ ‘‘۔ یوں اپدیشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور یہی گیتا ہے۔ اسے نغمۂ جاوید ، سر چشمۂ عرفان، غذائے روح، مخزن گیان اور آنند پرکاش کہا گیا۔

حق و باطل کے فلسفے کو بیان کرتی یہ جنگ اٹھارہ روز تک لڑی گئی، جس میں پانڈوؤں کے علاؤہ تمام سردار مارے گئے اور تخت یدھشٹر کو ملا۔ بھگوت گیتا میں بھائی چارے، محبت، آئین حکمرانی اور اخلاقیات کے فلسفے کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ شوپن ہاور نے کہا تھا ’’ گیتا کے مطالعے نے میری زندگی کو امن سے روشناس کرایا اور میری موت کو بھی لافانی عمل کا بھروسہ دیا۔ اس کتاب کامطالعہ ہر ذی شعور کو کرنا چاہیے‘‘۔

اختتام میں چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں

۱- تلاش کے بغیر گیان نہیں ہوتا، دکھ کے بغیر سکھ نہیں ہوتا۔ دھرم بگڑنے کی چنتا اور من کا خیالات میں الجھنا سب جگیا سورؤں (متلاشی) کو ایک بار ہوتا ہی ہے۔

۲۔ زمین ، پانی ، آگ ، ہوا ، آسمان، من ، عقل اور جھوٹی آنا مجموعی طور پر یہ آٹھ شکتیاں مادی پرکرتی ( قدرت ) ہیں۔

۳۔ روح یا آتما کو کوئی اوزار کاٹ نہیں سکتا، آگ جلا نہیں سکتی ، پانی گلا نہیں سکتا اور ہوا سکھا نہیں سکتی۔پیدا ہونے والوں کو موت اور مرنے والوں کے لیے پیدائش لازم و ملزوم ہے۔ اس لیے جو لازمی ہے اس کا افسوس کرنا مناسب نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۴- غصے سے سراسر فریب پیدا ہوتا ہے اور فریب سے یاداشت الجھ جاتی ہے اور بدھی (عقل) کھو جاتی ہے اور اس سے علم کا نقصان ہوتا ہے اور جس میں علم نہ رہا وہ مردہ کی مانند ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply